کرکٹ کا کھیل اب مختلف طرزوں یعنی فارمیٹس میں کھیلا جاتا ہے؛ ٹیسٹ، ون ڈے، ٹی ٹونٹی۔ بلکہ اب تو باقاعدہ طور پر یہ ٹی ٹین یعنی دس اوورز کی اننگز کی طرز پر بھی کھیلا جا رہا ہے۔ ٹی ٹین کو چھوڑ کر باقی تمام فارمیٹس کی عالمی رینکنگ بھی جاری ہوتی ہے بلکہ زمانے اور کرکٹ‘ دونوں کے تیز ہونے کی وجہ سے اب ان رینکنگز میں ہر میچ نہ بھی سہی‘ ہر بڑی سیریز کے بعد تبدیلی آتی رہتی ہے۔ کرکٹ کی مثال سے اس تحریر کے آغاز کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ سمجھ آ جائے کہ مختلف طرح کی رینکنگز کیوں جاری کی جاتی ہیں اور ان میں کیسے تبدیلی آتی ہے۔ اگر آلودگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو بحیثیت ملک، شہر، موسم اور سب سے بڑھ کر سادہ آلودگی اور آلودگی کی جدید قسم یعنی سموگ کے حوالے سے طرح طرح کی درجہ بندیاں جاری کی جاتی ہیں ۔ یہ سب کچھ اس لیے بیان کرنا پڑ رہا ہے کہ گزشتہ دنوں ایک چینل پر صبح کے وقت محکمۂ ماحولیات کے ایک افسر خوبصورت الفاظ کے پردوں میں اعداد و شمار اور حقائق یوں گھماکر بیان کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ ثابت کیا جا رہا تھا کہ اب ہمارے ہاں آلودگی کی کیفیت میں قدرے بہتری آ گئی ہے اور یہ فرق زمین و آسمان کے فرق کی طرح ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں وہ کمال مہارت سے مختلف ویب سائٹس کا حوالہ دے کر فضائی آلودگی کے معیار کو بہتر ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ سموگ کے حوالے سے ہمارا پورا خطہ یعنی پورا جنوبی ایشیا بلا شرکتِ غیرے دنیا بھر میں اول نمبر پر ہے اور یہ کہ ایسی زہریلی دھند دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں پائی جاتی۔ اس زہریلی دھند کی سب سے بڑی آما جگاہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویداربھارت ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ جب ہوا کا رخ بھارت سے پاکستان کی طرف ہوتا ہے تو پاکستان میں آلودگی کی شرح خطرناک حد تک بلند ہو جاتی ہے، جبکہ ہوا کا رخ اگر مشرق کی جانب ہو تو اس میں واضح کمی آ جاتی ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ یہ سارا تجزیہ عالمی موسمیاتی اداروں کا بیان کردہ ہے نہ کہ کسی مقامی ادارے کا۔ اس دلچسپ مگر خطرناک حقیقت کو آپ موسمیات کے انٹرنیشنل اداروں کی ویب سائٹس پر خود بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ یہاں ایک اور بات واضح ہو جاتی ہے کہ بھارت اپنے ہاں مصنوعی بارش کا نظام نصب ہونے کے باوجوداسے استعمال میں نہیں لاتا اور اپنے ہاں آلودگی کی شرح کو کم اس لیے نہیں کرتا کہ اس کے ہاں پیدا ہونے والی آلودگی مغرب کی طرف چلنے والی ہوائوں کی بدولت پاکستان کا رخ کر لیتی ہے۔ بھارت سے آنے والی ان آلودہ ہوائوں کی زد میں آنے والا پاکستان کا پہلا شہر لاہور ہے جو سب سے زیادہ اس آلودگی سے متاثر ہوتا ہے۔ اس خطے کا بڑا ملک ہونے کی وجہ سے یہ ذمہ داری بھارت ہی کی بنتی ہے کہ وہ علاقے کو جنگی جنون میں الجھائے رکھنے کے بجائے کسی ایک شعبے میں تو اپنی ذمہ داری نبھائے۔ کم از کم اپنے ہاں پیدا ہونے والی آلودگی ہی کو اس قدر کنٹرولڈ رکھے کہ یہ فضائی آلودگی‘ جو ہر لحاظ سے ماحولیاتی دہشت گردی ہے‘ ہوائوں کے ذریعے پڑوسی ممالک تک نہ پہنچے۔
اب بات کرتے ہیں آلودگی کی رینکنگ کی! سموگ کے علاوہ بھی آلودگی کی متعدد اقسام میں جنوبی ایشیا کا خطہ دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔ سب سے پہلے آپ دنیا بھر کے ممالک کے مجموعی آلودگی کے انڈیکس کو دیکھیں۔ بیشتر عالمی اداروں کی جاری کردہ فہرستوں میں بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان دنیا کے آلودہ ترین پانچ ممالک میں شامل ہیں۔ اس طرح کی درجہ بندی میں شہروں کے بجائے پورے ملک کے ماحول کو مجموعی طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد باری آتی ہے شہروں کی آلودگی کی۔ اس فہرست میں بھارت ہر طرح سے سر فہرست ہے۔ دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں بھارت اس طرح چھایا ہوا ہے کہ شاید ہی کوئی اور ملک اس کا مقابلہ کر سکتا ہو؛ یعنی دنیا کے سو گندے اور آلودہ ترین شہروں میں سے دو تہائی صرف بھارت میں ہیں۔ باقی ایک تہائی شہروں میں اگر اس کا مقابلہ کوئی اور ملک کر رہا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ دنیا کے آلودہ ترین پچاس شہروں کی ایک فہرست میں بھارت کے چالیس شہر شامل ہیں۔ اس فہرست میں پانچ پاکستانی شہر شامل ہیں اور دو بنگلہ دیشی۔ ان کے علاوہ تین شہر ایسے ہیں جو دنیا کے دیگر خطوں سے اس فہرست کا حصہ بنے ہیں۔ اس تعداد میں شہروں کا مقام یا رینکنگ دو تین درجے اوپر نیچے ہو سکتی ہے مگر مجموعی صورتحال یہی ہے کہ دنیا کی نصف سے زیادہ آلودگی برصغیر میں پائی جاتی ہے۔ شاید ہمارے ہاں کچھ لوگوں کے لیے یہ بات اطمینان بخش ہو کہ دنیا کے پچاس آلودہ ترین شہروں میں پاکستان کا حصہ محض دس فیصد ہے مگر یہ ایسے ہی ہے کہ کسی ہسپتال کے وارڈ میں آپ کا کوئی مریض داخل ہو، آپ اس کا بخار چیک کریں تو معلوم ہو کہ آپ کے مریض کو ایک سو دو درجے کا بخار ہے۔ اگرچہ یہ بات تشویش انگیز ہے مگر آپ اسی وارڈ میں داخل دیگر مریضوں کا درجہ حرارت چیک کریں تو معلوم ہو کہ آپ کے مریض کی حالت باقی سب سے بہتر ہے۔ اگرچہ ایک سو دو درجے کا بخار قابلِ تشویش ہے مگر آپ محض اس لیے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ آپ کا مریض کم از کم دیگر مریضوں سے تو بہتر ہے۔ ذرا سوچیے کہ ایسے میں آپ کے اطمینان پر تعجب کیوں نہ ہو۔ کچھ اسی طرح کی کوشش سے ماحولیات سے متعلق محکمے کے مذکورہ افسر نے آلودگی کے حوالے سے لاہور شہر کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے آلودگی ماپنے کے آلات کی تنصیب کا ذکر بڑے فخر سے کیا اور بتایا کہ سرکاری سطح پر ایک مانیٹرنگ روم قائم کیا گیا ہے جو ہمیں کسی بھی وقت آلودگی کے درجے سے متعلق درست معلومات فراہم کر سکتا ہے۔ اس سے متعلق ہم گزشتہ کالم میں ذکر کر چکے ہیں کہ اس طرح کے آلات جو محض صورتِ احوال بیان کرتے ہیں‘ کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے ایک بخار والے مریض کی حدت جاننے کے لیے اس کے جسم کے ساتھ ایسا تھرمامیٹر لگا دیا جائے جو چوبیس گھنٹے اس کے بخار کی پیمائش کرتا رہے۔ ایسے آلات کا کیا فائدہ جو مرض کی تشخیص تو کریں مگر مریض کے مرض کو کم کرنے کے لیے کوئی بھی تدبیر نہ کریں۔
ان افسر صاحب نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی بتایا کہ صنعتی کارخانوں کو دو ارب روپے کی لاگت سے آلودہ مادوں کے اخراج کو روکنے والے آلات لگوا کر دیے گئے ہیں، اسی طرح تیس کروڑ روپے کے ایسے زرعی آلات خریدے گئے ہیں جن کی مدد سے فصلوں کی باقیات کو جلانے کے بجائے زمین سے آسانی سے نکالنے کا کام لیا جائے گا۔ اب پہلاسوال تو یہی ہے کہ ان تمام آلات کی کوئی جھلک میڈیا کو بھی دکھا دی جائے‘ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتا دیا جائے کہ مذکورہ زرعی آلات منگوانے کے لیے کسان کس نمبر پر اور کس دفتر سے رابطہ کریں۔اسی طرح‘ دو ارب کے آلات کن کارخانوں میں نصب ہوئے ہیں اور ان کے نصب ہونے سے کیا بہتری آئی ہے‘ اس حوالے سے بھی کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ اس موقع پر انہوں نے مزید فرمایا کہ صوبے کی سطح پر چودہ محکمے اسی سے متعلق ہیں جو مل کر ایک گروپ کی شکل میں آلودگی کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اب یہاں قومی سیاست کا ذکر کرنا ناگزیر ہو گیا ہے کہ یہ چودہ محکمے تو پی ڈی ایم کے اتحاد سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ اب بس یہ طے کرنا باقی ہے کہ سیاسی اتحاد اور اس سرکاری اتحاد میں سے کارکردگی کس کی بہتر ہے۔
اگرچہ مقابلہ بہت سخت ہے مگر پھر وہی درجہ بندی کے طریقوں کی مشکل درپیش ہو گی کہ یہ کارکردگی کس طرح جانچی جائے گی۔ سیاسی اتحاد کم از کم یہ کریڈٹ تو لے سکتا ہے کہ اس نے عمران حکومت گرا دی (وہ الگ بات کہ سیاسی اتحاد کی اس جلد بازی کے سبب زرمبادلہ کے ذخائر تشویش ناک حد تک پہنچ چکے ہیں) سرکاری محکموں کے اتحاد کے پاس تو ایسا بھی کوئی جواز نہیں ہو گا۔ سیاسی اتحاد سے یاد آیا‘ معیشت کا تو ابھی واضح نہیں مگر ماحولیاتی اعتبار سے ہم ضرور ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔