امن‘ جنگ‘ حساب اور اگلا سال

دنیا میں امن کی موجودہ شکل کو ''منفی امن‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اب آپ سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ یہ منفی امن کیا ہوتا ہے۔ اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر دو ممالک میں جنگ ہونے کی وجوہات‘ امکانات حتیٰ کہ خواہشات بھی موجود ہوں لیکن دونوں کے درمیان کوئی باقاعدہ جنگ نہ ہو رہی ہو تو یہ امن منفی امن کہلائے گا۔ شاید اسی لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے 2022ء کے اختتام پر یہ بیان دیا کہ 2023ء میں دنیا کو امن کی ضرورت سب سے زیادہ ہے‘ جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں دنیا کو سب سے زیادہ امن کی ضرورت اب ہے‘ یعنی دنیا میں اب امن نام کی چیز سب سے زیادہ نایاب یا کم یاب ہے۔ آپ منفی امن کو ہی لے لیں‘ عالمی سطح ہو یا علاقائی‘ ہر سطح پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ تھوڑا غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا میں غیراعلانیہ‘ لامحدود اور نت نئے طریقوں سے کئی جنگیں جاری بھی ہیں۔ ان جنگوں کی سب سے بھیانک قسم ہم پر انفرادی سطح پر ایک ایسی جنگ کی صورت میں مسلط ہو چکی ہے جس کو ''اپنے آپ سے جنگ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ دنیا ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں جھوٹ‘ سچ بن کر ایسا رقص کر رہا ہے کہ دنیا تماش بین بن کر نہ صرف اس کو دیکھ رہی ہے بلکہ اس پر اپنا آپ لٹا بھی رہی ہے۔ آج کی سیاہ دنیا کے مختلف رنگ کچھ اس طرح ہیں؛
اگر غلط‘ غلط نہ لگے تو کیا ہوگا؟
اس رنگ کو سمجھنے کے لیے ایک فلم کے ایک منظر کو مدِ نظر رکھیں۔ اُس منظر میں ایک ولن ایک خاتون سے پہلا قتل کرنے پر پوچھتا ہے کہ اُسے کیسا لگ رہا ہے؟ اس پر وہ خاتون جواب دیتی ہے کہ یہ بہت برا احساس ہے اور مجھے ضمیر پر بوجھ محسوس ہورہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ساری دنیا میری طرف مشکوک نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ وہ ولن سے پوچھتی ہے کہ اُس کا یہ احساس وقت کے ساتھ کم ہوگا یا نہیں؟ ولن بہت ہی حیران کن جواب دیتا ہے کہ نہیں بلکہ تمہیں نہ صرف اس کی عادت ہو جائے گی بلکہ ایک مقام ایسا بھی آئے گا کہ تمہیں (جرائم کرتے ہوئے) مزہ آنے لگے گا۔ اب آپ خود غور کریں کہ دنیا میں کس کس سطح پر یہ کیفیت طاری ہے۔ اس وقت سب سے بڑھ کر کرپشن کی دیوی کی پوجا وطنِ عزیر میں ہو رہی ہے‘ اب اگر اس میں عادی ہونے والے مقام کا ذکر کریں تو ادراک ہوتا ہے کہ ہمارے عوام اپنے ساتھ دہائیوں سے ہونے والی لوٹ مار کے عادی ہو چکے ہیں بلکہ اب تو ایسی صورتحال بن چکی ہے کہ چھوٹے موٹے سکینڈل پر لوگ کسی قسم کا کوئی ردِعمل بھی نہیں دیتے۔ اس کے بعد اگر جعلی اور ملاوٹی اشیا کا ذکر کریں تو یہی عوام ملاوٹ شدہ ہی نہیں بلکہ جعلی دودھ اور دوائیاں‘ جوہڑوں اور گٹروں کے پانی سے کاشت شدہ فصلیں اور سبزیاں کھا رہے ہیں۔ اس کے بعد پنجاب اور سندھ کے عوام خاص طور پر ان صوبوں کے شہروں میں رہنے والے آلودہ ترین ہوا میں سانس لے رہے ہیں اور مضر صحت پانی بھی آنکھیں ہی نہیں دماغ بند کرکے استعمال کر رہے ہیں۔
حالات کا حساب
آج کل پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے سربراہ کی تعیناتی کا بہت چرچا ہے‘ اس تعیناتی کو خلافِ میرٹ قرار دیا جا رہا ہے اور یہ کہ یہ خالص سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک وڈیو کا منظر ملاحظہ ہو۔ اس منظر میں اسی کرکٹ بورڈ کے ایک سابق سربراہ شہریار خان‘ سابق وزیراعظم نواز شریف کی موجودگی میں ایک دوستانہ میچ کا تذکرہ کر رہے ہیں جو مختلف ممالک کے سربراہان کے درمیان زمبابوے کے شہر ہرارے میں 1991ء میں کھیلا گیا تھا۔ اس میچ میں بہت سارے سربراہانِ مملکت‘ جن میں آسٹریلیا‘ برطانیہ اور مالدیپ کے سربراہان شامل تھے‘ نے حصہ لیا۔ شہریار خان ایک سابق بیوروکریٹ تھے اور وہ نواز شریف کے سامنے تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے۔ وہ وڈیو میں فرمارہے ہیں کہ میاں صاحب نے اُس میچ میں 36سکور بنائے‘ جس میں انہوں نے پانچ چھکے اور بہت سارے چوکے مارے۔ اس کے بعد سابق وزیراعظم نے بھی تقریب سے خطاب کیا اور کہا کہ میں نے چھکے تو شاید دو مارے تھے لیکن چوکے بہت سارے مارے تھے۔ اب آپ کرکٹ کے حساب سے تو حالات یا سکور کا تجزیہ کر ہی سکتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر پانچ چھکے لگے تو پھر 36سکور کے مطابق تو ایک چوکے کی گنجائش ہی نکلتی ہے‘ تو پھر بہت سارے چوکے کدھر گئے۔ واضح رہے یہ اس وقت کی کرکٹ ہے جب صرف ون ڈے میچز ہوتے تھے‘ نہ کہ ٹی ٹونٹی۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تب اتنی تیز اننگز کھیلنے کی ضرورت کیسے پیش آئی۔ دنیائے کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ پر اس میچ کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ بائولنگ کروانے والے حتیٰ الامکان یہ کوشش کررہے تھے کہ وہ بہت ہی آسان اور نرم گیندیں کروائیں تاکہ بڑی شاٹس لگ سکیں اور تفریح میسر آ سکے۔ اس میچ کی وڈیو بنانے کے لیے پاکستان کے سرکاری ٹی وی کا عملہ خصوصی طور پر وہاں پہنچا اور اس کی رپورٹ بنائی جو بعد میں چلائی بھی گئی۔ اب بات کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ایک سابق بیوروکریٹ نے وزیراعظم کے چھتیس رنز میں پانچ چھکے اور بہت سارے چوکے انتہائی ڈھٹائی سے شامل کر دیے تھے‘ عین اسی طرح آج کل کچھ صاحبِ اختیار بھی ''حالات کا حساب‘‘ سب اچھا بنا کر پیش کر رہے ہوں گے‘ مطلب ان کے حساب سے حالات ٹھیک چل رہے ہیں۔
اپنے آپ سے جنگ میں جیت کیسی
اب ایک ایسی جنگ کی طرف چلتے ہیں جس میں کسی طور جیت آپ کی نہیں ہو سکتی۔اب اگر آپ اپنے آپ سے جنگ کریں گے تو خود سے کیسے جیت پائیں گے۔ اس جنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں ذہنی اضطراب‘ ہیجان اور کشکمش پیدا ہو رہی ہے۔ یہ ذہنی مرض دنیا میں ایک وائرس کی طرح پھیل رہا ہے۔ اس کو عرفِ عام میں ڈپریشن کا نام دیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسی ذہنی کیفیت بن چکی ہے جو بغیر کسی مشکل یا مصیبت کے لوگوں کے ذہن پر سوار ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ لوگ بھی جن کے پاس ضروریات‘ سہولیات حتیٰ کہ تعیشات بھی موجود ہیں‘ وہ بھی ذہنی مشکل کا شکار نظر آتے ہیں۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہارٹ اٹیک سوموار‘ یعنی چھٹی کے بعد دوبارہ کام پر جانے والے دن ہوتے ہیں‘ یعنی کام کا سوچ کر ہی لوگ ذہنی اور دیگر سنجیدہ امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔اسی طرح ایک وقت میں بہت سارے کام کرنا‘جیسے گاڑی چلاتے وقت موبائل کا استعمال اور اس کے بعد کئی کاموں کا حساب‘جو آپ نے کرنے ہیں‘ ذہن میں کرتے رہنا‘اس عمل سے ذہن پر بوجھ بڑھتا ہے۔ہم جسم کے پٹھوں پر تو زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ دماغ کے پٹھے بھی تھک جاتے ہیں اور پھر ذہنی عارضے کا باعث بنتے ہیں۔اب یہ وہ جنگ ہے جو ہم اپنے آپ سے لڑتے ہیں۔اس لیے ہو سکے تو زندگی کو ضروریا ت تک محدود رکھنے کی کوشش کریں‘رہی بات سہولیات کی تو وہ مل جائیں تو ٹھیک نہیں تو گزارا ہنسی خوشی کریں۔اور ہاں تعیشات کو سہولیات اور سہولیات کو ضروریات کا درجہ ہر گز نہ دیں‘نہیں توآپ یہ جنگ شروع کرنے سے پہلے ہی ہار جائیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں