تھامس رابرٹ مالتھس برطانیہ کا رہنے والا تھا، اس نے 1796ء میں دنیا کو تیزی سے بڑھتی آبادی سے متعلق خبردار کرتے ہوئے پہلی بار آبادی سے متعلق ایک نظریہ پیش کیا تھا جو آج تک بہت مشہور ہے۔ اس نے کہا تھا کہ تیزی سے بڑھتی آبادی وسائل کی پیداوار سے آگے نکل جاتی ہے اور اگر انسان آبادی پر قابو نہ پا سکے تو قحط، جنگیں اور دیگر مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں اور آبادی از خود کم ہو جاتی ہے، یعنی فطرت اپنا توازن بہرصورت برقرار رکھتی ہے۔ اگر بات کریں جمہوریت کی‘تو اس کی ابتدا 1215ء میں اپنی خام شکل میں میگنا کارٹا کی صورت میں برطانیہ سے ہی ہوئی تھی۔ اس کے بعد آتا ہے کرکٹ کا مشہور ترین کھیل‘ اس کھیل کا بانی بھی برطانیہ ہی کو سمجھا جاتا ہے۔ اس کھیل کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ اس کے سٹائل جتنے زیادہ تبدیل ہوئے ہیں‘ دنیا میں کسی دوسرے کھیل کے نہیں ہوئے۔ ابتدا میں صرف ٹیسٹ میچز ہوا کرتے تھے، مگر پھر ون ڈے میچز آئے، ٹی ٹونٹی، ٹی ٹین اور اب تو سپر سکسز کے میچز بھی ہوتے ہیں۔ اب ان تینوں کے تعلق اور دنیا میں ان کی مختلف شکلوں اور مرحلوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
کرکٹ کا نیا نظریہ اور شکل
راولپنڈی میں ہونے والے ٹیسٹ میچ میں برطانیہ کی ٹیم نے پہلے دن 36ویں اوور کی چوتھی گیند پر جب اپنی پہلی وکٹ گنوائی تو اس کا سکور 233 ہو چکا تھا۔ یہ سکور ون ڈے میچ کے ایک فائٹنگ ٹارگٹ والا سکور تھا۔ پچاس اوورز پورے ہونے سے پہلے ہی انگلینڈ کی ٹیم کا سکور تین سو کے نفسیاتی ہندسے کو عبور کر چکا تھا۔ ٹیسٹ میچ میں ایک دن میں اوسطاً نوے اوورز ہوتے ہیں۔ پہلے دن کے اختتام پر برطانیہ کا سکور 598 ہو چکا تھا‘ جو کرکٹ کی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کے مترادف تھا۔ اس ٹیسٹ سیریز میں انگلینڈ کی ٹیم نے تینوں میچز جیت کر پاکستان کو پہلی دفعہ ہوم سیریز میں وائٹ واش کیا۔ اس سیریز میں انہوں نے جس قدر برق رفتاری سے رنز بنائے‘ اس نے ٹیسٹ اور ون ڈے کا فرق بھی ختم کر دیا تھا، بلکہ کچھ سیشنز میں تو ان کی رفتار ٹی ٹونٹی والی تھی۔ اس میچ کا یہاں تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ برطانیہ سے تین ٹیسٹ میچز ہارنے کے بعد بھی ہم اتنا نہیں سیکھ سکے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کے خلاف ہم ایک دن میں 319 رنز کا ہدف ہی حاصل کر پاتے۔ پوری دنیا میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اپنی مرضی کی وکٹیں بنا کر‘ اپنی ہوم سیریز میں بھی پاکستان ابھی تک کوئی ٹیسٹ میچ نہیں جیت سکا، نہ انگلینڈ سے اور نہ ہی نیوزی لینڈ سے۔ نیوزی لینڈ سے اب تک ہوئے دونوں ٹیسٹ میچز میں اگر آخری دن کا کھیل کم روشنی کے باعث جلد ختم نہ ہو جاتا تو یہ دونوں میچز بھی ڈرا کے بجائے ٹیم پاکستان کی شکست پر منتج ہوتے۔ ملک کے باقی معاملات کو تو چھوڑیں‘ کرکٹ کو ہی اتنا جدید اور تیز کر لیں کہ ہماری ٹیم اپنا ٹارگٹ پورا کرنا سیکھ لے۔ مذکورہ سبھی میچز میں اہم اور مشترک بات یہ رہی کہ ٹارگٹ کو حاصل کرتے ہوئے ایک دفعہ بھی ہماری ٹیم جارحانہ انداز نہ اپنا سکی۔ حد تو یہ ہے کہ آخر میں بمشکل میچ بچا سکے۔ نیوزی لینڈ کے ساتھ دوسرے ٹیسٹ میچ کی سب سے اہم بات نیوزی لینڈ کی ٹیم کی پہلی اننگز میں آخری وکٹ کا لٹک جانا تھا، جس کی پارٹنرشپ میں سو رنز کا اضافہ ہوا۔ یہی وہ سو سکور تھا جس نے میچ کی گرفت پاکستان سے لے کر نیوزی لینڈ کے ہاتھ میں تھما دی۔ اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اگر آپ لڑنا چاہیں تو آخری وکٹ بھی کافی ہوتی ہے۔ پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کی صورتِ حال بھی اس وقت آخری وکٹ جیسی ہو چکی ہے جو کسی وقت بھی گر سکتی ہے، خاص طور پر معاشی طور پر دیوالیہ پن کا معاملہ تو اس کی فٹ مثال بن چکا ہے۔ اس لیے اربابِ اختیار کوہمت نہیں ہارنی چاہیے اور میچ میں واپس آنے کی مضبوط کوشش کرنی چاہیے جس کی ضرورت اب جنگی بنیادوں پر ناگزیر ہو چکی ہے۔
آبادی کا کنٹرول اور پاک‘ بھار ت صورتحال
رابرٹ مالتھس نے اپنا جو نظریہ 1796ء میں پیش کیا تھا‘ وہ کتابی شکل میں دو سال بعد‘ 1798ء میں شائع ہوا تھا۔ برطانیہ سمیت یورپ والوں نے اس بات کو پلے باندھ لیا اور اپنی آبادی کو وسائل کے اندر رکھنے کی کامیاب کوششیں شروع کر دیں۔ واضح رہے کہ اس وقت پورے یورپ کی آبادی میں اضافے کی شرح صفر ہے۔ مطلب وہاں سالانہ جتنے لوگوں کا انتقال ہوتا ہے‘ شرحِ پیدائش بھی لگ بھگ اتنی ہی ہے بلکہ بعض ممالک میں تو شرحِ پیدائش منفی میں ہے۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کے سبھی ترقی یافتہ ممالک کی آبادی میں اضا فے کی شرح تقریباً صفر ہے۔ اس فہرست میں جلد ہی جو نیا نام شامل ہونے جا رہا ہے‘ وہ چین کا ہے۔اگر بھارت اور پاکستان کی آبادی کی بات کریں تو یہ دونوں ممالک آبادی کے بوجھ کے نیچے اُسی طرح دبے ہوئے ہیں جیسے کرکٹ میچ میں کوئی ٹیم پہلی اننگز میں ساڑھے چھ سو سکور کا پہاڑ کھڑا کر کے مخالف ٹیم کو دبا لیتی ہے۔ یاد رہے ! سالِ نو کا ایک اہم واقعہ یہ ہوگا کہ بھارت اپنی کل آبادی کے اعتبار سے چین سے آگے نکل جائے گا۔ ایک وقت تھا جب چین کی آبادی بھارت کے مقابلے میں تیس سے پینتیس کروڑ زیادہ ہو تی تھی مگر چند ہی مہینوں میں بھارت باضابطہ طور پر آبادی کی ریس میں چین سے آگے نکل جائے گا۔ یہاں باضابطہ کا لفظ اس لیے استعمال ہوا کہ پہلے بھی کئی بار میں لکھ چکا ہوں کہ بھارت کی آبادی اس وقت بھی چین سے زیادہ ہے کیونکہ بھارت میں کئی طبقات آبادی کے شمار قطار میں ہی نہیں آتے۔ بھارت میں اپنی آبادی کے درست تخمینے کو لے کر کتنی دلچسپی یا کتنی سنجیدگی پائی جاتی ہے‘ اس کا اندازہ 2021ء میں ہونے والے آبادی کے سروے سے لگا لیں‘ جو کورونا کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوگیا تھا اور تا حال اس کی بحالی کا کوئی اعلان یا امکان نظر نہیں آرہا۔ اس سے پہلے بھارت آبادی کا سروے باقاعدگی سے کراتا آیا ہے۔ بات وہی ہے کہ جو ملک اپنے لوگوں کو ہی نہیں گن سکتا‘ وہ ان کی فلاح و بہبود سے متعلق منصوبہ بندی کیسے کرے گا ؟
یہاں جنوبی ایشیا کے ایک ملک کو داد دینا پڑتی ہے جس نے اپنی آبادی پر مؤثر انداز میں قابو پایا ہے۔ آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ بنگلہ دیش کی بات ہو رہی ہے۔ علیحدگی کے وقت اس کی آبادی مغربی پاکستان سے تقریباً پچاس لاکھ زیادہ تھی لیکن آج اس کی آبادی پاکستان سے چھ کروڑ کم ہو چکی ہے۔ یہ اس خطے کا واحد ملک ہے جو معاشی طور پر بہتری کی طرف گامزن ہے۔ بات ہو رہی ہے آبادی پر قابو پانے کی‘ اگر پاکستان اور بھارت برطانیہ کے سکالر کے نظریے سے کچھ نہیں سیکھ سکے تو چین سے ہی سیکھ لیں‘ اور اگر چین بھی نہیں تو کم از کم بنگلہ دیش سے ہی کوئی سبق حاصل کر لیں۔
جمہوریت و کرپشن کی دیوی
پاکستان میں تو جمہوریت کا تسلسل ٹوٹتا اور بحال ہوتا رہا ہے، لیکن بھارت والے تو اس بات کا بہانہ بھی نہیں بنا سکتے کہ اگر جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے نہ اترتی تو وہ ترقی کر جاتے۔ویسے اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں تیز ترین معاشی ترقی اسی وقت ہوتی رہی ہے جب ملک میں جمہوریت نہ تھی۔ بات بھارت کی کرتے ہیں جہاں بظاہر جمہوریت بہت مضبوط ہے لیکن معاشی ترقی نام کی چیز ابھی تک بالی وُڈ کی فلموں اور بھارت کے سیاستدانوں کے دعووں تک ہی محدود ہے۔ اگرچہ لوگ بھارت کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کی مثال دیتے ہیں مگر اصل معیار لوگوں کی حالت اور ان کا معیارِ زندگی ہے۔ اگر کسی شخص کے گھر میں لاکھوں‘ کروڑوں روپے ہوں مگر کھانے کو روٹی نہ ہو تو ایسے آدمی کو آپ کیا کہیں گے؟ ابتر معاشی حالا ت کے باوجود پاکستان میں ایک عام آدمی کا معیارِ زندگی بھارت کے ایک عام آدمی کے معیارِ زندگی سے بہتر ہے۔ ہمارے ہاں عوام امیر اور حکومت غریب ہے، بھارت میں اس کے برعکس ہے۔ وہاں حکومت تو امیر ہے مگر تیس کروڑ سے زیادہ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ہی شمار ہوتا ہے،ابھی تک یہ درمیانے درجے کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی شامل نہیں ہو سکا۔ دوسری طرف چین کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ مغربی معیار کی جمہوریت نہ ہونے کے باوجود وہ اتنی ترقی کر چکا ہے کہ اب کسی بھی وقت وہ امریکہ پر سبقت لے جاتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن جائے گا۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ جمہوریت ہو یا نہ ہو‘ انصاف اور تعلیم ہو تو ہی ملک ترقی کی پٹڑی پر چڑھتے اور چلتے ہیں۔ انصاف کے ضمن میں یہ واضح رہے کہ اگر کرپشن کسی بھی ملک میں طرزِ زندگی کی حیثیت اختیار کر لے تو اس ملک کو اپنے لیے ترقی کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یہ مسئلہ پاکستان اور بھارت سمیت تیسری دنیا کے ملکوں کو اپنے ذہنوں میں پیوست کر نے کی ضرورت ہے۔ تا حال ایشیا کے بیشتر ممالک میں جمہوریت و کرپشن کی دیوی کی چوکھٹ پر ملکی وسائل کی قربانی دی جار ہی ہے۔
نوٹ: جس طرح پاکستان کی کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں آخری وکٹ حاصل نہیں کر پارہی تھی‘ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچیں تو پتا چلتا ہے کہ جنوبی ایشیا کا خطہ سیاسی، معاشرتی، معاشی اور سرحدی معاملات میں اتنا الجھا ہوا ہے کہ درپیش مسائل اور بحرانوں کے خلاف ابھی تک پہلی وکٹ بھی حاصل نہیں کر پایا۔