دنیا میں علم و حقیقت کی سچائی کے لیے عظیم ترین قربانیوں کی فہرست میں پہلا نام سقراط کا آتا ہے۔ یونان کا رہنے والا یہ وہ عظیم فلسفی تھا جس نے یونانیوں کے ہاں پائے جانے والے خود ساختہ اور دیو مالائی عقیدہ نما خیالات کو چیلنج کیا تھا اور زہر کا پیالہ پی کر اپنی جان کی قربانی دی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ابھی عیسائیت کا ظہور بھی نہیں ہوا تھا اور یونان کے لوگ بہت سارے دیوی، دیوتائوں پر یقین رکھتے تھے۔ اہلِ یونان کی ایک دیو مالائی داستان کا کردار 'پرومیتھس‘ (Prometheus) تھا، جو عام آدمی کی آواز کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے عظیم یونانی دیوتا زیوس (Zeus) کی اجازت کے بغیر آگ یعنی تپش کا راز عام آدمی تک پہنچا دیا تھا۔ اس وقت آگ ہی انرجی کا واحد وسیلہ تھی۔ اس بات پر بادشاہ نے اس کو سزا کے طور پر ایک پہاڑ کے ساتھ زنجیروں سے باندھ دیا تھا اور اس کے اوپر ایک باز کو چھوڑ دیا تھا، جو اس کو نوچ نوچ کر کھاتا رہتا تھا۔ بعد میں یہی پرومیتھس ایک اور تاریخی شخصیت کا رول ماڈل بنا، جس نے اسی کردار کی طرز پر تاریخ کا دھارا صرف بدلا ہی نہیں بلکہ پلٹ کر رکھ دیا۔ اصل میں تاریخ بنانے والے لوگ اسی کردار کے حامل ہوتے ہیں، جو سچ اور حقیقت کی نہ صرف کھوج لگاتے ہیں بلکہ اس کو عام کر دیتے ہیں؛ بھلے انہیں اس کی کتنی ہی کڑی سزا کیوں نہ بھگتنا پڑے۔ آج ایسے ہی کرداروں کا ذکر کیا جائے گا۔
اپنی مرضی کو خدا کی مرضی بنانا
تین‘ چار صدیوں قبل تک یورپ پر بادشاہت اور چرچ کا مکمل قبضہ تھا۔ ان میں سے اگر ایک کا چنائو کیا جائے تو چرچ کو فوقیت دی جائے گی؛ یعنی کلیسا کا سیاست، معیشت اور معاشرت سمیت ہر شے پر ہر طرح کا قبضہ تھا۔ حد تو یہ ہے کہ علم و تحقیق کے نتیجے میں دریافت ہونے والے قوانین و راز ہائے فطرت کے بیان کرنے پر بھی چرچ کی مرضی مسلط تھی۔ مطلب یہ کہ اگر کوئی ایسا خیال یا تصور پیش کیا جاتا جو چرچ کو نامناسب معلوم ہوتا تو اس کے بیان کرنے پر پابندی کا خطرہ لاحق ہو جاتا تھا۔ مثال کے طور پر جب مصنوعی روشنیاں دریافت ہوئیں جو رات کو جلائی جاتی تھیں تو پادریوں کا کہنا تھا کہ جب خدا نے رات کو اندھیرا کر دیا تو انسان کون ہوتا ہے کہ وہ اجالا کرتا پھرے۔ فرانس کے انقلاب کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس زرعی دور میں زیرِ کاشت زمینوں کا بڑا حصہ پادریوں کی ملکیت متصور ہوتا تھا اور وہ قومی خزانے میں ٹیکس بھی جمع نہیں کرایا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ عیسائیت میں ایک نیا فرقہ پروٹسٹنٹ اصل میں وہ احتجاجی مظاہرین تھے جو چرچ کی شعبہ ہائے زندگی میں بے جا تو ایک طرف‘ سرے سے مداخلت ہی کے خلاف تھے۔ یاد رہے کہ یورپ نے وہ دور بھی دیکھ رکھا ہے جب وہاں کے مذہبی پیشوا بلکہ مذہب کے نام پر پیشوا بنے ہوئے لوگ گناہوں سے نجات یعنی بخشش کے ٹکٹ فروخت کیا کرتے تھے۔ پروٹسٹنٹ تحریک (Protestantism) کی ایک بڑی وجہ بخشش کی ٹکٹوں کے عوض لوگوں سے مال بٹورنے کا دھندا تھا۔ اس دھندے کی وجہ سے چرچ کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ یورپ میں یہ دور نشاۃِ ثانیہ کے آغاز کا دور تھا، جس کی وجہ سے ادب اور آرٹ کا دور دورہ تھا۔ چرچ کے مالکان نے نئے کلیسائوں کی تعمیر کے نام پر اپنے عملے کے لیے نت نئی عمارات شاہانہ انداز میں تعمیر کرائیں اور اس کے لیے عوام سے پیسہ اکٹھا کیا۔ انہوں نے مذہب کے نام پر حکومت اور بادشاہوں کے جبر کو ''خدا کی مرضی‘‘ بنا کر پیش کیا۔ تاریخ اسے ''ذاتی مرضی کو خدا کی مرضی بنا کر پیش اور مسلط کرنے‘‘ کا نام دیتی ہے۔ اہلِ یورپ کو اس جبر سے نجات حاصل کرنے کی تحریک دینے والے شخص کا نام مارٹن لوتھر تھا۔ جرمنی میں پیدا ہونے والے اس پادری نے سولہویں صدی عیسوی میں عیسائیت کے مرکز روم (اٹلی) میں باقاعدہ دلیل کے ساتھ چرچ کے عملے کے استحصال کے خلاف ایک تحریک شروع کی۔ اس نے ایک کتاب ''95 theses‘‘ لکھی جس میں دلائل سے بھرپور پچانوے نکات اٹھائے اور ثابت کیا کہ عیسائیت کی بنیادی تعلیمات کے مطابق نئے چرچ کی تعمیر کے لیے عوام سے مال نہیں لیا جانا چاہیے۔ اس نے بخشش کے نام پر فروخت ہونے والی ٹکٹوں کو indulgence کا نام دیا۔ آج بھی انہیں اسی نام سے یاد کیا جاتاہے۔ واضح رہے کہ تاریخ میں مارٹن لوتھر نام کے دو افراد مشہور ہوئے ہیں۔ ایک مارٹن لوتھر‘ جرمنی کا پادری اور دوسرا مارٹن لوتھر کنگ (جونیئر)۔ یہ ایک سیاہ فام شخص تھا، جس نے انیسویں صدی میں امریکہ میں سیاہ فاموں کے حقوق کی تحریک چلائی تھی۔
...مگر زمین گھومتی تو ہے
سچائی کیلئے قربانی دینے والوں میں اٹلی کے ایک سائنسدان کا نام بھی ناقابلِ فراموش ہے۔ اس سائنسدان کو اپنے نظریات کے حوالے سے بہت کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کی راہ میں بھی مشکلات چرچ کے عملے کی جانب سے کھڑی کی گئی تھیں۔ اس عظیم سائنس دان کا نام گیلیلیو گیلیلی (Galileo Galilei) تھا۔ یہ چودھویں صدی عیسوی کا زمانہ تھا جب اس صاحبِ علم نے پہلی دفعہ یہ خیال پیش کیا کہ سورج زمین کے گرد نہیں بلکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ یہ دراصل اس قدیمی بلکہ چرچ کے خیال کی درستی تھی کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے۔ گیلیلیو چونکہ فلکیات کا ماہر تھا‘ اس نے اپنے مشاہدے کی بنا پر یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اس کے اس بیان پر ایک ہلچل مچ گئی۔ چرچ اس نظریے پر طیش میں آ گیا اور گیلیلیو پرایک مقدمہ قائم کر دیا۔ گیلیلیو گیلیلی پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ اپنے اس نظریے کو واپس لے‘ بصورتِ دیگر اس کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگرچہ چرچ کے دبائو پر گیلیلیو گیلیلی نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا مگر اپنا بیان واپس لینے پربھی اس عظیم سائنسدان کو تاحیات نظر بندی کا سامناکرنا پڑا اور اسی نظر بندی کے دوران جنوری 1642ء میں اس کا انتقال ہو گیا۔ واضح رہے گیلیلیو کو یہ سزا 1633ء میں دی گئی تھی۔ اسی کہانی کے ایک اور منظر کی طرف چلتے ہیں‘ جو تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ جب اس سائنس دان سے کہا گیا کہ وہ اپنا بیان واپس لے تو اس نے اپنی جان پچانے کے لیے یہ بیان تو دے دیا لیکن پھر اس نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا:Eppur si muove۔ یہ اطالوی زبان کا ایک جملہ تھا جس کامطلب ہے‘ (میں اگر اپنا بیان واپس لے بھی لوں تو کیا ہو گا) ''مگر یہ (زمین) گھومتی تو ہے‘‘۔ اس کے انتقال کے دو صدیوں بعد سائنس نے باقاعدہ طور پر سرعام اس بات کو تسلیم کر لیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد چرچ نے بھی اپنے کیے پر معافی مانگی تھی کہ گیلیلیو گیلیلی کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی، حالانکہ وہ سچ کہتا تھا۔ اسی طرح کے واقعات کی وجہ سے یورپ کے لوگ چرچ اور پادری کے کردار سے متنفر ہوتے چلے گئے جس کا نتیجہ آخر میں یہ نکلا کہ بیشتر لوگ تارک المذہب ہو گئے۔
واپس چلتے ہیں مارٹن لوتھر کی طرف‘ جس پر اس کے پچانوے نکات کے حوالے سے ایک مقدمہ چلا تھا، جو کئی سال تک زیرِ سماعت رہا۔ چرچ کو مشکل یہ پیش آ رہی تھی کہ اس کے اٹھائے گئے سبھی نکات خاصے مدلل تھے اور وہ عوام میں بھی بہت مقبول ہو چکا تھا۔ اس کی شہرت کی وجہ سے ہی چرچ اسے سزا دینے سے کترا رہا تھا، وگرنہ اس طرح کے کیسز میں زیادہ تر افراد کو سزائے موت دی جاتی تھی۔ ایک اور بات جو مارٹن لوتھر کے حق میں جاتی تھی‘ وہ یہ تھی کہ وہ خود بھی ایک پادری تھا۔ اس کے اٹھائے گئے سوالوں کا تسلی بخش جواب نہ ملنے پر لوگوں نے متنفر ہو کر کیتھولک چرچ سے علیحدگی اختیار کر لی اور ایک نئے فرقے اور چرچ (پروٹسٹنٹ) کی بنیاد رکھی۔ مارٹن لوتھر کا انتقال 1546ء میں ہوا۔ اگرچہ یہ واقعہ گیلیلیو سے تقریباً ایک صدی پہلے کا ہے، لیکن ان دونوں میں مماثلت بہت زیادہ ہے۔ آج کے حالات میں گیلیلیو اس لیے یاد آتا ہے کہ اگر وہ ہمارے معاشی حالات اور بند ہوتے کیسز پر تبصرہ کرتا تو شاید یہ کہتا کہ ''مگر کرپشن ہوتی تو ہے‘‘۔ اس تناظر میں‘ سرگوشی ہی کے انداز میں‘ آپ کی کیا رائے ہے۔