چین کے بعد سعودیہ کا شکریہ

2016ء کے بعد پہلی دفعہ سعودی عرب اور ایران نے ایک دوسرے کے ہاں اپنے سفارت خانے کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سمیت دیگر مسلمان ممالک کے لیے ایک بڑی اور اچھی خبرہے بلکہ یہ چین کی سربراہی میں ابھرتے براعظم ایشیا کے لیے بھی اتنی ہی بڑی خبر ہے۔ اس بڑے بریک تھرو میں دو لوگوں کا کردار بہت اہم نظر آتا ہے۔ پہلے تو ایشیا کی سربراہی کے طور پر ابھرنے والے ملک چین کے صدر شی جی پنگ ہیں‘ جنہوں نے پہلے ایران کے ساتھ ایک ایسا دور رس بھاری سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا جس نے ایران کو عالمی تنہائی سے بہت حد تک نکالا۔ اس کے بعد دوسری شخصیت سعودیہ کے موجودہ نوجوان سربراہ محمد بن سلمان ہیں۔ یہ نوجوان حکمران بہت سارے اقدامات کی وجہ سے عالمی امور کے ماہرین کو متاثر کر رہے ہیں۔ ایم بی ایس نے بہت سارے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جو ان کے ایک جرأت مند کے ساتھ ساتھ عقلمند سربراہ ہونے کی طرف بھی اشارے کرتے ہیں۔ اس سربراہ نے کئی سال پہلے یہ بیان دیا تھا کہ امریکہ اور روس کی سرد جنگ میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بھی کچھ ایسے کام کرتے رہے ہیں جو امریکی ایما پر ہوتے تھے اور اس کا نقصان ہمیشہ مسلمانوں کو اٹھانا پڑا۔ ماضی کی کسی غلطی کا ادراک ہونا اور پھر اس کا کھلے عام اقرار کرنا اس چیز کا غماز ہوتا ہے کہ آئندہ یہ غلطی نہیں ہوگی یا اس سلسلے کو اب روک دیا جائے گا۔ اس کے بعد اسی حقیقت کا اظہار کچھ سال قبل ہیلری کلنٹن نے بھی ایک وڈیو بیان میں کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم مسلمان ممالک کو اپنے مفادات کی خاطر وہاں فرقہ واریت پھیلا کر‘ تقسیم اور تفریق پیدا کرکے استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس کام کے لیے وسائل بھی مسلمان ممالک ہی کے استعمال ہوتے تھے۔
تقسیم کرو اور تباہ کرو
سوائے دو ممالک کے‘ مشرقِ وسطیٰ سمیت دیگر مسلم ممالک نے سرد جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا۔ یہ ساتھ کوئی سفارتی یا سیاسی نوعیت کا نہیں تھا بلکہ مسلمان ممالک نے عملی طور پر مسلح جنگی کوششوں میں امریکہ کا ساتھ دیا۔ امریکہ نے کمال مہارت سے ایک سیاسی و سفارتی چال چلی جس کو ''تقسیم کرو اور تباہ کرو‘‘ کا نام دیا گیا۔ اصل میں یہ برطانوی اصول Divide And Ruleکی اگلی بلکہ مکمل شکل والی پالیسی کا نام ہے‘ اس کو Divide and Ruinکہا جاتا ہے۔ روس کی مکمل مخالفت اور امریکہ کی مکمل جانبداری مسلمان ممالک کی ایک ایسی بڑی اور طویل غلطی تھی کہ اس کا خمیازہ آج تک صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام ایشیائی ممالک بھگت رہے ہیں۔ اس پر یہ شعر یاد آتا ہے کہ؛
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
اب امریکہ نے روس کو مسلمانوں کی مدد سے شکست دیتے ہی مسلمان ممالک کو یکے بعد دیگرے ایک غیر اعلانیہ پانچویں نسل کی جنگ کے تحت دھر لیا۔ پہلے عراق کے صدر صدام حسین کو اکساتے ہوئے کہا کہ اگر وہ کویت پر قبضہ کر لیں تو اسے کوئی اعتراض نہ ہوگا‘ عراق کی جانب سے ایسا کرتے ہی امریکہ نے تمام عالمی طاقتوں سے بھاری معاوضہ لے کر عراق پر پہلا حملہ کر دیا۔ اس سے پہلے ایران عراق جنگ کے نتیجے میں دونوں ممالک نے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا تھا۔ بعد ازاں عراق پر دوسرے حملے کے بعد عراق کو ایک مکمل جنگی سٹیڈیم بنا ڈالا گیا جس سے داعش نامی دہشت گرد تنظیم بھی کھڑی ہو گئی۔ یہ تنظیم صرف مسلمان ممالک ہی کے اندر دھماکے کرتی ہے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد اس خطے نے بھی ناقابلِ فراموش نقصان اٹھایا۔ اس جنگ کا پاکستان دوسرا بڑا شکار بنا تھا جس نے امریکہ سے زیادہ بھارت کی اس جنگ میں صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے والی پالیسی اور حکمت عملی کی وجہ سے نقصان اٹھایا۔ اس سارے قصے کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ روس کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ نے تمام مسلم دنیا کو تہذیبوں کے ٹکرائو کے اپنے ہی پیش کردہ نظریے کے تحت ہر طرح کے ممکنہ اندرونی و بیرونی جنگی انتشار کا شکار کردیا۔
چین کا عالمی آرڈر
اب روس کے بعد چین کی شکل میں ایک ایسی عالمی طاقت وجود میں آئی ہے جو اپنی پالیسیوں اور ضروریات کے پیش نظر ایشیا کو معاشی میدان میں آگے بڑھانا اور مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ اس سلسلے کا سب سے بڑا اظہار ہے۔ اس منصوبے کو پاکستان تک آنے کے بعد ایران کی ضرورت تھی تاکہ وہ ترکیہ کی طرف اس منصوبے کو بڑھا سکے۔ چین کے ایران کے ساتھ لمبے عرصے کے معاشی معاہدے نے اس سلسلے میں پہلی پیش قدمی کی۔ اس کے بعد گزشتہ سال چین کے صدر کے سعودیہ کے دورے سے ایک اور امید کی کرن پھوٹی۔ روزنامہ دنیا کے ادارتی صفحات پر راقم نے اس امید کا اظہار بھی کیا تھا کہ چین بطور عالمی طاقت اس خطے میں جاری کشیدگی کو کم کرنا چاہے گا جو کہ اس کی ضرورت بھی ہے۔ ایک حالیہ خبر کے مطابق چین نے یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ اب یمن کی سعودیہ کے ساتھ کشیدگی میں بھی کمی آئے گی۔ اس یقین دہانی کا مقصد چین کا یہ باور کروانا ہے کہ اب یمن کو ایران کی جانب سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ یہ ایران کی جانب سے بھی ایسا قدم ہوگا جو اس علاقائی جنگی کشیدگی کو کم ہی نہیں‘ ختم کر دے گا۔ اسی طرح کی ایک سرد جنگ شام میں بھی جاری ہے‘ امید ہے اس کے بعد صرف نقصان دینے والی اس جنگ کو ختم کرنے میں بھی چین اہم کردار ادا کرتے ہوئے ایشیا میں مزید امن قائم کرے گا۔ آپ چین کی ان کوششوں کو اس کی ضرورت کا نام ہی دیں تب بھی یہ مسلمان ملکوں پر اس کا ایک تاریخی احسان ہے۔ اس کے بعد مشرقِ وسطیٰ کا سب سے بڑا ملک ہونے کے ناطے بلاشبہ محمد بن سلمان کا یہ زیرک اور بڑے دل کا ثبوت دینے والا فیصلہ ہے۔ یاد رہے سعودیہ کی پالیسیوں کو مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی اپناتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کیلئے رقبے‘ آبادی اور معاشی حجم کے اعتبار سے سعودی عرب ہی ان کی حفاظت کی علامت اور علمبردار ہے۔
سعودی عرب: بہتری کی جانب گامزن
قطر میں ہونے والا فٹبال ورلڈ کپ تو ختم ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی سعودیہ نے دنیا کے بڑے فٹ بالرز کو اپنے ہاں اکٹھا کرکے اپنے ہاں بھی جدت کی لہر کا واضح اظہار کر دیا ہے۔ اس سے پہلے محمد بن سلمان سعودی عرب میں خواتین کو بڑی اور واضح قسم کی آزادیاں دے کر پہلے ہی اپنے خیالات اور تصورات کا واضح اعلان کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ جدید شکل اور طرز کے شہروں کی آباد کاری اور جدت پسند معاشی منصوبوں کا اعلان بھی ہو چکا۔ ایک مخصوص طبقے کے لوگ سعودیہ میں سینما گھروں اور دیگر تفریحی مقامات کے بنانے پر جو اعتراض کرتے ہیں‘ اس پر میرے ایک دوست نے جو جواب اور جواز دیے‘ وہ عرض کیے دیتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سب کچھ جو دیگر مسلمان ممالک میں ہوتا ہے‘ اگر سعودیہ میں بھی ہو تو اس پر اعتراض کیوں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی مسلم ممالک کا فاصلہ سعودی عرب میں موجود مقدس مقامات سے سعودیہ کے کئی شہروں سے کم ہے۔ سعودیہ ایک بڑی سیاسی اکائی ہے‘ اس لیے اس پر اتنا ہی اعتراض کریں جتنا آپ دیگر مسلم ممالک پر کرتے ہیں۔ آخر میں ایک امید یہ کی جا سکتی ہے کہ سعودیہ مسلم دنیا کے درمیان واقع ہے۔ اس لیے یہاں نظر آنے والے چاند کو ایک مانتے ہوئے اگر دیگر مسلمان ممالک پیروی کریں تو تمام مذہبی تہوار بھی ایک ہی دن منائے جا سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں