عالمی سیاست کے حوالے سے ایک بہت بڑی بحث کچھ اس طرح ہوا کرتی تھی کہ یونی پولر (یک قطبی)‘بائی پولر(دو قطبی) یا پھر بہت ساری طاقتوں کا نظام جسے ملٹی پولر نظام کہا جاتا ہے‘ان میں سے کس کے تحت دنیا میں امن ہو سکتا ہے؟یاد رہے کہ پہلی اور دوسر عالمی جنگ کے مواقع پر دنیا ملٹی پولر تھی‘طاقت کے مراکز دو سے زائد تھے۔اس کے بعد دنیا میں دو طاقتوں کا راج ہوگیا‘جس کے تحت سرد جنگ روس اور امریکہ کے درمیان جاری رہی۔اس جنگ میں فتح کے بعد امریکہ واحد عالمی طاقت کے طور پر ابھرا اور اس نے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت دنیا کو اپنی مرضی سے چلایا‘جس میں سب سے زیادہ سختی مسلم دنیا نے برداشت کی اور اب بھی کر رہی ہے۔ امریکہ نے تہذیبوں کے ٹکرائو کا اپنا ایک خود ساختہ نظریہ پیش کیاجس کے تحت مسلم ممالک اور چین کو اپنے ممکنہ حریف قرار دیا۔اسی نظریے کے تحت مسلم دنیا کو جنگوں‘انتشار‘فرقہ واریت اور دیگر مسائل میں دھکیل دیا گیا۔اب تقریباً دس سال سے امریکہ کی واحد طاقت کے طور پر عالمی حکمرانی کم ہو کر ختم ہونے کی جانب گامزن ہے۔ہم ایک تسلسل سے اسی عالمی‘ناقابل یقین حقیقت کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
امریکی نائب وزیر دفاع
کا اقرار اور اعلانات
ایک دن پہلے امریکی نائب وزیر دفاع مارا کارلن نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کچھ ایسے بیانات دیے ہیں جن میں انہوں نے ماضی کی جنگی حکمت عملیوں کا مخفی اقرار بھی کر دیا۔جیسا کے انہوں نے کہا کہ حکومتیں بدلنے کیلئے کسی ملک میں جنگ نہیں چھیڑیں گے۔اب آپ کو بخوبی سمجھ جانا چاہیے کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں عراق اورلیبیا میں صرف حکومتیں گرانے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔اسی طرح مصر کے اندر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔اسی طرح شام کے اندر ایک بھیانک جنگ کو بھڑکایا گیا۔ایران اور سعودی عرب میں سفارتی و سیاسی مکاری سے دونوں کے درمیان کشیدگی کو برقرار رکھا گیا۔ یمن اور سعودیہ میں کشید گی کو فروغ دیا گیا‘نائیجیریا میں بوکو حرام جیسی پر تشدد تحریکوں کو ہوا دی گئی۔سب سے بڑھ کر افغانستان میں امریکی موجودگی کی بنیاد پر پاکستان کو پانچویں نسل کی غیر اعلانیہ جنگ میں دھکیلا گیا۔اب اس امریکی وزیر نے اپنے خطاب میں بنیادی طور پر مشرق وسطیٰ کے متعلق امریکی خارجہ پالیسی کا اعلان کیا ہے اور جنگوں کے ذریعے حکومتیں بدلنے کی پالیسی بدلنے کا اعلان کیا ہے۔
نائب وزیر کا مزید کہنا تھا کہ آئندہ ہم اس خطے میں شراکت داری کی پالیسی اپنائیں گے اور سب سے بڑھ کر اس خطے میں چالیس سال سے موجود امریکی فوج کے انخلا کو بھی مؤثر بنائیں گے۔نائب وزیر دفاع نے اپنے خطاب میں‘جو مشرق وسطیٰ انسٹیٹیوٹ میں کیا گیا‘اپنی اس بدلتی پالیسی کو Paradigm shiftقراردیا۔یہاں واضح کرتے چلیں کہ پیراڈائم شفٹ کا لفظ بہت بڑی یا سب سے بڑی اور مکمل تبدیلی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔وزیر صاحبہ نے اپنی تقریر میں امریکہ کی روایتی ایشیا مخالف یا مغرب کی طرف جھکائو والی پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے یوکرین کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا لیکن کشمیر‘ فلسطین اور چین کو تائیوان کی شکل میں لاحق خدشات کا ذکر تک نہیں کیا جبکہ تائیوان کا مسئلہ چین کو صرف امریکہ کی اس حمایت کی وجہ سے لاحق ہے جو امریکہ اسلحے‘سفارتی دوروں اور دیگر ممکنہ طریقوں سے کرتا ہے۔یہاں پر بھارتی وزیر خارجہ کے الفاظ یاد آرہے ہیں جو انہوں نے یورپ میں ایک انٹرویو میں کہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ مغرب کو جو بھی خدشہ لاحق ہوتا ہے مغرب اس کو ایک عالمی مسئلہ گردانتا ہے جبکہ باقی دنیا کو درپیش مسائل کو کسی بھی طور مسئلہ مانتا ہی نہیں۔چلیں پھر بھی بڑی بات ہے کہ امریکہ نے الفاظ ہی کی حد تک سہی‘یہ بات تو مانی کہ وہ جنگوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں حکومتیں تبدیل کرتے رہے ہیں۔
اب اس بدلتی پالیسی کو امریکہ کی اپنی مرضی کسی صورت بھی نہیں کہا جا سکتا۔اس کی بنیادی وجہ مشرق وسطیٰ میں چین کا بڑھتا ہوا اثر ورسوخ ہے اور اس کے ساتھ امریکہ کے سر پر ڈیفالٹ کے خدشات ہیں۔26مئی کی خبر کے مطابق بہت سے امریکی ارکان کانگرس چھٹی پر چلے گئے ہیں جبکہ یکم جون کی آمد میں ایک ہفتہ سے بھی کم وقت بچا ہے۔مزید واضح کرتے چلیں کہ قرضوں کی حد مزید نہ بڑھانے کی بجائے امریکی ارکان کانگرس کا کہنا ہے کہ امریکہ تقریبا ًڈیڑھ سو ارب ڈالر کے اخراجات کم کرے۔یہاں ایک تلخ حقیقت کا ذکر بہت ضروری ہے جو اس طرح ہے کہ امریکی صدر نے صرف دفاعی بجٹ میں سو ارب ڈالر سے زیادہ اضافے کا عندیہ دے رکھا ہے۔اب اس وقت صحیح معنوں میں امریکی جمہوریت کا حسن اپنا رنگ دکھا رہا ہے‘بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس کا امتحان ہے۔بات تو واضح ہو ہی گئی ہو گی کہ امریکی صدر دفاع کے نام پر جنگی بجٹ بڑھانا چاہ رہے ہیں لیکن ارکانِ کانگرس امریکہ کی حکومت کے اخراجات کم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔اسی سلسلے میں ہونے والے مذاکرات اور بحث بے نتیجہ ختم ہو چکی ہے۔اب اس وقت جس صورتحال اور کڑے موڑ پر امریکہ اس وقت کھڑا ہے‘وہ ایک طرف تو ناقابل یقین ہے تو دوسری طرف انہی معاشی مشکلات نے امریکہ کو اپنی عالمی پالیسیوں‘بالخصوص مسلم ممالک اور ایشیائی ممالک میں تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے‘لیکن یہ سفارت مہارت یا مجبوری ہوتی ہے اس لئے امریکی نائب وزیر دفاع نے اس قسم کی کوئی بات نہیں کی‘اسی لئے سیاست سے زیادہ بھیانک کھیل ایجاد ہو ہی نہیں سکتا۔
چین کی برتری اور خطے کی بہتری
اب جہاں بھی اور جتنی بھی امریکی جارحانہ اور جنگی خارجہ پالیسی بدلے گی اس کا کریڈٹ چین ہی کو جاتا ہے اور جاتا رہے گا۔ اس کی سب سے بڑی مثال یوکرین کی جنگ میں صلح اور امن کیلئے چین کی طرف سے باقاعدہ ایک مشیر کا تقرر کرنا ہے۔یوکرین کے مسئلے میں صلح یا امن میں چین کو امریکہ پر واضح اور فیصلہ کن برتری اس وجہ سے حاصل ہے کہ یوکرین کیلئے روس سے جنگ کرنا اس کے بس کی بات نہیں‘دوسری طرف یورپی ممالک بھی اس جنگ میں زیادہ واضح طور پر سامنے نہیں آرہے‘جبکہ امریکہ اس جنگ میں باضابطہ کودنے سے گریز کر رہا ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس میں اب سکت باقی نہیں رہی۔ دوسری طرف چین کے روس سے تعلقات ایک اتحادی والے ہیں۔یاد رہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے وقت چین نے مکمل طور پر روس کے حق میں بیان دیا تھا جس کے بعد روس کو اس جنگ میں ایک مکمل طور پر فیصلہ کن عالمی حمایت حاصل ہوگئی تھی۔اب چین نے یوکرین میں جنگ بندی کیلئے اپنے اقدامات تیز کر دیے ہیں۔اس جنگ کو بند کروا نے کے بعد چین مکمل طور پر عالمی نمبر ون طاقت کی پوزیشن پر آ جائے گا۔اب اگر اس ساری صورتحال کو چین امریکہ کی عالمی سربراہی کی دوڑ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایشیا کے بعد یورپ کے بر اعظم کے میدان میں بھی چین کو سبقت حاصل ہے۔اس سبقت کا آخری فیصلہ یکم جون کے بعد اس وقت ہوگا جب امریکہ کے ڈیفالٹ ہونے کا فیصلہ ہو جائے گا۔
لیکن ایک جنگ‘امریکی ڈیفالٹ کی وجہ سے عالمی معیشت کو لگنے والا دھچکا ہو گی۔خاص طور پر وہ ممالک جن کے ذر مبادلہ کے ذخائر ڈالر کی شکل میں پڑے ہیں اس سے متاثر ہوں گے۔عجیب بات یہ ہے کہ ڈالر کی کرنسی کی قدر کم ہونے کا سب سے بڑا فائدہ جن ممالک کو ہوگا ان میں ایران کے بعد دوسرا بڑا ملک پاکستان ہوگا۔پاکستان اس وقت واضح طور پر معاشی طور پر جنگی صورتحال کا شکار ہے۔ڈالر مارکیٹ کے اندر تین سور روپے کی حد عبور کر چکا ہے۔اب دیکھیں یکم جون کو کیا ہوتا ہے۔