بات کسی ایک علاقے کی ہو، مختلف ممالک کی یا پھر پوری دنیا کو مجموعی طور پر دیکھ لیں؛ کوئی پرانا فلسفہ ہو یا تصورات یا پھر نظریات‘ سب کچھ بدل ہی نہیں رہا بلکہ الٹ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ یہ زبانی حد تک نہیں ہے بلکہ حالات یہ سب کچھ ثابت کر رہے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک بہت سادہ مگر اہم بات کا حوالہ لیتے ہیں۔ آج سے تقریباً چار‘ پانچ ہزار سال پہلے جب دنیا میں مختلف سلطنتوں کا قیام وجود میں آنا شروع ہوا تووہ بادشاہتوں کی ایک شکل تھی۔ اس وقت دیہی آبادیوں کی جگہ شہر بننا شروع ہوئے اور سٹی سٹیٹ کا تصور پہلی بار ابھرا۔ یاد رہے کہ شہروں کا قیام ہی وہ اہم سنگِ میل ہے جس کو تہذیب کے جنم یعنی سولائزیشن کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ تاریخ کا وہ دور ہے جب پوری دنیا کی آبادی چند کروڑ تھی۔ قریب چار ہزار سال پہلے دنیا کی کُل آبادی تقریباً اڑھائی کروڑ تھی۔ جی ہاں! یہ پوری دنیا کی آبادی تھی جو آج کے دور میں دنیا کی بڑے شہروں کی کل آبادی ہے یا پھر یوں کہہ لیں کہ یہ اتنی ہی آبادی ہے‘ جتنا اضافہ جنوبی ایشیا کی کل آبادی میں سالانہ بنیادوں پر ہوتا ہے۔اس زمانے میں بادشاہوں کے پاس رقبہ لامحدود ہوتا تھا، جس میں بنیادی اہمیت زرخیز زمین کی ہوتی تھی، کیونکہ اس وقت دنیا کا سب سے اہم پیشہ زراعت ہی تھا۔ یعنی زمین تو لامحدود تھی لیکن آبادی یعنی کاشتکار بہت کم تھے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ اس وقت زمین کاشت کرنے کے لیے بہت زیادہ لوگوں کی ضرورت ہوتی تھی کیونکہ آج کی طرح اس وقت مختلف قسم کی زرعی مشینیں دستیاب نہیں ہوتی تھیں۔ اس لیے حکمرانوں کی ضرورت اور خواہش یہ ہوتی تھی کہ ان کی آبادی زیادہ سے زیادہ ہو۔ اس کے ساتھ بادشاہوں کو اپنی حفاظت اور مزید علاقوں پر قبضے کے لیے بڑے بڑے لشکروں کی ضرورت ہوتی تھی، اس کے لیے بھی انہیں آبادی کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس بات کا نچوڑ یہ ہے کہ لوگ یعنی آبادی اُس دور میں زمین، ہوا اور پانی سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔
پہلا اُلٹ ہوتا نظریہ
دنیا میں جو سب سے پہلا نظریہ یا تصور نہ صرف بدلا بلکہ ڈھلنے کے بعد اب الٹ ہو چکا ہے‘ وہ بڑھتی آبادی کا نظریہ ہے۔ اس وقت بڑی آبادی کو اثاثہ اور آج بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے آج کے حکمران بڑھتی آبادی کی مناسبت سے صاف پانی، ہوا اور زمین کے لیے سر توڑ کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔ اس وقت دنیا زیادہ آبادی کے ساتھ ساتھ اس آبادی کی سرگرمیوں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی پیدا ہونے پر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں اب ایک بہت ہی ادھورا تصور ہے، کیونکہ بات اب موسمیاتی تباہیوں تک پہنچ چکی ہے۔ اس تصور کو آگے لے کر چلیں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا ابھی تک گلوبل وارمنگ کا ذکر کرتی ہے یعنی گرمیوں میں درجہ حرارت اوسط سے زیادہ ہو رہا ہے، اور گرمیوں کا دورانیہ بڑھ رہا ہے۔ لیکن اس بات کا دوسرا پہلو بھی جاننا بہت ضروری ہے، اور وہ پہلو ہے گلوبل کولنگ، یعنی سردی کی شدت میں اضافہ ہونا۔ اگرچہ سردیوں کی شدت میں اضافے کا دورانیہ کم ہے، لیکن شدت سردیوں کی بھی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں رواں سال بعض علاقوں میں گرمیوں کے مہینوں میں ژالہ باری تک ہو چکی ہے۔ آپ کو گندم کی کٹائی کے دنوں میں ہونے والی ژالہ باری بھی یاد ہو گی،یہ گلوبل وارمنگ کے بجائے گلوبل کولنگ کی ایک اہم شکل ہے۔
اب بات پھر بنیادی مدعے کی طرف کہ دنیا میں اب جن چیزوں کی قلت پیدا ہوچکی ہے وہ سانس لینے کے لیے صاف ہوا، پینے کے لیے صاف پانی اور بنجر ہوتی زمینوں کی زرخیزی ہے۔ ان چیزوں کا ذکر تو آپ نے کسی قدر سنا ہی ہوگا لیکن بات اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے اور اب صاف روشنی یعنی سورج کی کرنوں تک جا پہنچی ہے۔ انسان نے دنیا پر ایسی سرگرمیوں کو فروغ دیا کہ اب سورج کی روشنی میں بھی الٹرا وائلٹ شعاعوں کا دخل ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک میں اکتوبر سے لے کر فروری تک جو سموگ نامی آفت ایک زہریلی چادر کی صورت میں ہمارے سروں پر مسلط رہتی ہے‘ اس میں بھی ہم صاف ہی نہیں بلکہ سور ج کی شعاعوں کے لیے ترستے نظر آتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس دوران فصلوں کی نشوونما اور پکنے میں دقت پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح وقت سے پہلے گرمی کی زیادہ شدت کی وجہ سے گندم کی فصل کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس دوران ایک خاص بات جو نوٹ کی گئی ہے وہ جلد گرمی پڑنے کی وجہ سے گندم کے دانوں کا سائز چھوٹا ہونا ہے۔ اس کے علاوہ گندم کی فصل‘ جو دنیا کی سب سے بڑی غذا ہے‘ کے پکنے کے دنوں میں بارشوں سے فصل برباد ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ بات ہو رہی تھی آبادی کے بڑھتے بوجھ کی‘ اب دنیا میں ملکوں کے مضبوط ہونے کے بجائے ان کے محفوظ ہونے کو ترجیح دی جائے گی۔ اب وہی ملک مضبوط و محفوظ تصور ہو رہے ہیں جہاں پینے کا پانی بالخصوص صاف اور صحت بخش پانی دستیاب ہو، زرعی زمین مسلسل مصنوعی کھادوں کی وجہ سے نیم بنجر نہ ہو چکی ہو، جنگلات یا درختوں کی تعداد اتنی ہو کہ لوگوں کو سانس لینے کے لیے صاف اور محفوظ ہوا دستیاب ہو سکے اور سب سے بڑھ کر سموگ جیسی خطرناک فضائی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس اعتبار سے کینیڈا، امریکہ، روس اور برازیل جیسے ممالک زیادہ مضبوط اور محفوظ مانے جا رہے ہیں۔ ماہرین کئی دہائیوں سے خبردار کرتے آ رہے ہیں کہ دنیا کی اگلی بڑی ہجرت انہی عوامل کی وجہ سے ہو گی۔ یہاں یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اس اعتبار سے جنوبی ایشیا دنیا کا سب سے خطرناک علاقہ بن چکا ہے۔ دنیا کا وہ تصور جو مکمل الٹ چکا ہے‘ کچھ یوں ہے کہ اب ہمیں زیادہ لوگوں کی جگہ زیادہ درختوں کی ضرورت ہے، وافر اور صاف پانی اور سورج کی صاف کرنوں کی ضرورت ہے۔ اور یہ محض ضرورت نہیں بلکہ بقا کی جنگ ہے۔
ذہانت نہیں‘ مضبوط دماغ
پہلے دنیا سوچتی تھی کہ جن لوگوں کا دماغ تیز یعنی ذہین ہوتا ہے وہ لوگ زیادہ ترقی کرتے ہیں۔ اب یہ نظریہ بھی نہ صرف بدل چکا ہے بلکہ ڈھل چکا ہے۔ البتہ ابھی اس کا الٹ ہونا باقی ہے۔ یہ بات آپ کو یقینا عجیب لگ رہی ہو گی، اس لیے اس تعجب کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بات کی بنیاد کچھ اس طرح ہے کہ قدیم دور میں حکیم لوگ یہ بتایا کرتے تھے کہ اگر آپ کا معدہ ٹھیک ہے تو آپ بہت ساری بیماریوں سے محفوظ رہیں گے، لیکن آج کے ڈاکٹر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ اپنے دماغ کا خیال رکھیں‘ آپ بہت ساری بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔ میڈیکل سائنس یہ بات ثابت کر چکی ہے اور اس سے متنبہ بھی کرتی ہے کہ اگر آپ کے خیالات منتشر ہوں گے یا آپ ذہنی دبائو اور ہیجان کا شکار ہوں گے تو اس کے نتیجے میں آپ کی مجموعی صحت بری طرح سے متاثر ہو سکتی ہے، مثلاً وزن کم ہونا، یادداشت کا خراب ہونا، نظام انہضام ڈسٹرب ہو جانا، نیند کے عمل میں خلل پیدا ہوجانا‘ وغیرہ۔ صرف نیند نہ آنے کے عمل ہی کو لے لیں‘ اگر دو لوگوں میں سے ایک کو نیند پوری نہ کرنے دی جائے اور دوسرے کو بھوک نہ مٹانے دی جائے تو جس کی نیند متاثر ہو گی یا جسے سونے نہیں دیا جائے گا‘ اس میں پہلے مرنے کے چانسز دوسرے کے نسبت زیادہ ہوں گے۔ ذہنی انتشار، ہیجان اور اضطراب دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والے امراض بن چکے ہیں۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ بھوک کا شکار صرف غریب آدمی ہوتا ہے لیکن ذہنی مرض کسی امیر ترین شخص کو بھی لاحق ہو سکتا ہے بلکہ ہو جاتا ہے۔ بات ہو رہی ہے ذہانت اور دماغ کی مضبوطی کی‘ اس ذہنی خلفشار سے بچنے کے لیے بہت کچھ اگنور کرنا پڑتا ہے، لوگوں کے رویوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے، اپنے آپ کو بہت ساری چیزوں اور لوگوں سے دور رکھنا پڑتا ہے‘ اور ان سب کے لیے ذہانت کے بجائے مضبوط دماغ کی ضرورت پڑتی ہے۔ (جاری)