دنیا میں جاری جنگ و جدل کی صورتیں اتنی مبہم ہو چکی ہیں یا کر دی گئی ہیں کہ اب امن اور جنگ کے درمیان فرق ہی ختم ہو چکا ہے۔ اسی طرح جنگوں میں ٹارگٹ کبھی باہم برسرِ پیکار فوجیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب سول آبادی اور فوج کا فرق بھی ختم ہو چکا ہے بلکہ اب فوج کے بجائے سول آبادی جنگوں کا زیادہ نشانہ بنتی ہے۔ اسی طرح پہلے یہ فلسفہ چلتا تھا کہ کسی بھی ملک کے دو بازو ہوتے ہیں جو اس کی طاقت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک بازو معیشت، اور دوسرا بازو عسکری طاقت کو کہا جاتا تھا مگر اب معاملہ بازو توڑنے یا مروڑنے کے بجائے قوم کا دماغ خراب کرنے، ہیجان برپا کرنے، انہیں مشتعل کرنے اور سب سے بڑھ کر اپنے رنگ میں ڈھالنے اور اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرنے تک آن پہنچا ہے۔ کسی معاشرے کو Subversive سرگرمیوں سے اپنے قابو میں کرنے کی جو کوششیں ہوتی ہیں اور ان کے نتیجے میں Paradigmatic قسم کی جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں یا جو تباہیاں لائی جاتی ہیں‘ اس تناظر میں گزشتہ کالم میں دنیا کے بڑے دھوکوں میں سے ایک دھوکا جو مسلم دنیا کو دیا گیا‘اس کا ذکر کیا گیا تھا۔ اب بات کو آگے بڑھاتے ہوئے دنیا کے ایک اور بڑے مذہب کے لوگوں اور ایک پورے خطے کے لوگوں کو جو دھوکا دیا گیا ہے اور دیا جا رہا ہے‘ اس کا ذکر کریں گے۔
بلائنڈ بلنڈرز آف بھارت
بات کریں گے دنیا کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک بھارت کی، جس نے اگرچہ چاند پر قدم رکھ کر ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے لیکن بطور ملک اور ریاست‘ اس کے قدم بدستور اکھڑ رہے ہیں۔ سب سے پہلا بلائنڈ بلنڈر جو بھارت نے اپنے قیام سے لے کر آج تک کیا ہے‘ وہ اس خطے کو سرنگوں رکھنے اور فتح کرنے کی خواہش نما حسرت ہے۔ یہ بات بہت بار ہو چکی ہے‘ اس لیے زیادہ تفصیل میں نہیں جاتے اور بھارت کی ایک اندھے پن والی غلطی کا جائزہ لیتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کی حد تک پہلے برطانیہ اور اب امریکہ کی پالیسی کچھ اس طرح ہے کہ یہ خطہ کبھی بھی اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہونے پائے اور کسی بھی طور اس مقام تک نہ پہنچ سکے کہ دوبارہ معاشی طور پر مغرب کو ٹکر دے سکے۔ یاد رہے کہ انگریزوں کی جنوبی ایشیا میں آمد کے وقت یہ خطہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھا اور دنیا کی کل معاشی پیداوار میں اس کا حصہ ایک چوتھائی تھا۔ اس خطے کی بربادی کی داستان کو سمجھنے کے لیے آپ کو برطانوی دور کی پالیسیوں کو غیر جانبدارانہ نظروں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر‘ باہمی چپقلش اور فساد کی وہ پالیسی‘ جو گورے کے جانے کے بعد بھی جاری ہے۔ اب بھارت کے معاملے کو تازہ ترین صورتحال کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ بھارت نے چاند پر قدم تو رکھ دیا ہے لیکن اس کے اور اس پورے خطے کے زمینی حقائق کو دیکھیں تو علم ہوتا ہے کہ تازہ ترین جائزوں کے مطابق جنوبی ایشیا بالخصوص بھارت کے لوگوں کی اوسط عمر پانچ سال کم ہو گئی ہے۔ راقم نے اپنے کالموں میں اس خدشے کا اظہار کئی بار کیا ہے۔ اب جو رپورٹ آئی ہے وہ معروف نشریاتی ادارے الجزیرہ نے نشر کی ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ بھارت چاند پر تو پہنچ گیا لیکن زمین سے محض تین‘ چار ہزار میٹر کی بلندی تک نہیں پہنچ پا رہا۔ جی ہاں! بات ہو رہی ہے ماحولیاتی آلودگی کی‘ جس میں بھارت دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے اور اب اس کو ختم کرنے کے لیے مصنوعی بارش ناگزیر ہو چکی ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ بھارت کے اندر مصنوعی بارش برسانے والا سسٹم لگا ہوا ہے اور بھارت یہ تجربات کر بھی چکا ہے۔ مصنوعی بارش کی بات کی جائے تو یہ محض آلودگی ختم کرنے کے کام ہی نہیں آتی بلکہ پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بھی متعدد ملکوں اور شہروں میں یہی ایک سہارا ہے۔ یہاں مصنوعی بارش کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ عنقریب سموگ نامی آفت اس خطے کے آسمانوں پر چھا جائے گی اور ایک ناگہانی آفت کی طرح لوگوں کے سانس لینے کے عمل تک کو متاثر کرے گی۔ جب یہ آفت شروع ہوئی تھی تو ایک آدھ موسمی بارش کے بعد یہ ختم ہو جاتی تھی لیکن اب معاملہ حد سے زیادہ بگڑ چکا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو توگزشتہ دو‘ تین سال سے پورا موسم سرما اس نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اس زہریلی دھند کے اثرات کتنے ہلاکت خیز ہوتے ہیں‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک عام آدمی روزانہ کی بنیا د پر سگریٹ کے دو پیکٹس یعنی چالیس سگریٹس کے برابر دھواں اپنے اندر لے جاتا ہے جبکہ یہ دھواں سگریٹ کے دھویں سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ یہ جو بات کی گئی ہے کہ جنوبی ایشیا میں لوگوں کی اوسط عمر پانچ برس تک کم ہونے لگی ہے‘ وہ اسی فضائی آلودگی کی وجہ سے ہے۔
اس کے لیے بھارت کو اپنے خود ساختہ دشمن چین کی طرف دیکھنا ہو گا‘ جہاں دنیا کا سب سے بڑا موسمیاتی منصوبہ شروع ہو چکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین بھارت کے کل رقبے سے بھی زیادہ علاقے پر مصنوعی بارشوں کی مدد سے نہ صرف پانی کی کمی کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے بلکہ اس کی مدد سے وہ گرمی کی شدت اور موسمیاتی تبدیلیوں پر بھی قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں جب بھی یہ منصوبہ زیرِ غور آیا تو سول بیورو کریسی کی طرف سے جواز پیش کیا گیا کہ مصنوعی بارش پر لاگت بہت زیادہ آتی ہے۔ ایک خبر کے مطابق بھارت نے 1980ء کی دہائی میں مصنوعی بارش برسانے کے لیے جب چین سے مدد مانگی تھی تو چین نے ایک مربع کلومیٹر کے لیے دس لاکھ روپے کی لاگت کا تخمینہ بتایا تھا۔ لیکن بھارت نے بعد ازاں یہ کام خود ہی کر لیا تھا۔بات صرف اتنی ہے کہ یہ کام زیادہ تقاضا نہیں کرتا سوائے نیک نیتی کے۔ بھارت کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ چاند پر جانے کے لیے جتنے اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ اگر ان کا دس فیصد بھی زمین پر لگا دیا جائے تو اس خطے کی آبادی زندہ رہنے کے قابل ہو سکے گی۔ دوسری طرف اگر بھارت سمجھتا ہے کہ یہ جھوٹی رپورٹس ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ الجزیرہ کی اس رپورٹ کو چیلنج کرے۔ چاند پر جانا غلط نہیں مگر بھارت جیسے ملک کا اس کام پر اربوں ڈالر خرچ کرنا ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی جھگی کے باہر کھڑی مہنگی ترین گاڑی، یا کسی ایسے شخص کو‘ جو بھوک سے بلبلا رہا ہو‘ آپ مہنگا قسم کا ہاضمے والا قہوہ پلا دیں۔
False & Fictitious Heroes
بھارتیوں کے ساتھ بحیثیت قوم ایک دھوکا یہ چل رہا ہے کہ ان کے ہاں فلموں کے ہیرو اور کرکٹ میچ (بیشتر فکس شدہ)جیتنے والے ہی ان کے ہیروز ہیں۔ ان کی مدد سے قوم کا دھیان بٹایا جاتا ہے یا اصل مسائل کی طرف سے ان کی توجہ ہٹائی جاتی ہے۔ چاند پر جانے والی دیگر سبھی قوموں نے پہلے زمینی مسائل پر قابو پایا تھا‘ اپنے لوگوں کو ترقی دی تھی‘ انصاف تک رسائی بڑھا کر سماج میں ہر قسم کی تفریق کو ختم کیا تھا۔ اسی طرح ان قوموں نے صنفی یکسانیت پیدا کی تھی اور بیٹی ہو یا بیٹا‘ دونوں کو یکساں مقام اور مواقع فراہم کیے تھے، مذہب کے نام پر شدت پسندی کو ختم کیا تھا اور اپنے ہاں تیزی سے بڑھتی آبادی پر قابو پایا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان طاقتوں نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدگی کے بجائے تجارت اور امن کا راستہ اپنایا تھا۔ ان تمام مسائل پر قابو پانے کے بعد ہی ان ممالک نے چاند کی تسخیر بارے سوچنا شروع کیا اور اس پر قدم رکھا۔ چلیں‘ بھارت اب چاند پر پہنچ چکا ہے‘ لہٰذا اب ہی ان زمینی مسائل پر توجہ دے‘ جو اس کے حقیقی مسائل ہیں۔ یہاں ہم اپنا رونا بھی روتے چلیں کہ ابھی تک ایک طبقہ چاند پر جانے کے امریکی دعوے کو نہ صرف غلط مانتا ہے بلکہ اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے۔ یہ باتیں اس وقت درست لگتی ہیں کہ جب آپ چاند دیکھنے اور اس کے مطابق اپنے تہوار ایک ہی دن منانے پر جو اختلافات پیدا ہوتے ہیں‘ ان کو ختم کر کے آگے بڑھیں۔ اب تو یہ مسئلہ خاصی شدت اختیار کر چکا ہے‘ امید ہے کہ اس کے حل کی بابت کوئی سنجیدہ کاوش کی جائے گی۔