تلخ حقائق

دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں استعماری حکمرانی کے خاتمے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ اس حوالے سے سب سے اہم اور بڑا علاقہ جنوبی ایشیا تھا، جس میں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی رہتی تھی۔ اس خطے کے پڑوس میں 1949ء میں‘ دنیا کا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک چین بادشاہت سے نجات پا کر آزاد ہوا۔ اس ملک نے دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی اور تیز رفتار ترقی کی اور آج یہ ملک دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت اور امریکہ کے مقابل ایک سپر پاور کا درجہ رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ چین کی فی کس آمدن 1990ء تک پاکستان کی فی کس آمدن سے بھی کم تھی مگر آج کے چین کی فی کس آمدن کو اگر قوتِ خرید کے معیار پر دیکھا جائے تو یہ امریکہ سے بھی زیادہ ہے۔ اس معاشی اشاریے کو Purchasing Power Parity (PPP)کا نام دیا جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس معاشی پیمانے کو فی کس آمدن ماپنے کا سب سے مؤثر طریقہ مانا جاتا ہے۔ تین‘ چار سال پہلے یہ تخمینہ لگایا جا رہا تھا کہ چین 2025ء تک کل معاشی پیداوار کے اعتبار سے امریکہ سے آگے نکل جائے گا، یاد رہے کہ امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت چلا آرہا ہے مگر آج کل کی جنگی فضا میں امریکہ اور چین کی کل معاشی پیداوار کا موازنہ پیش نہیں کیا جاتا اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس طرح کے بیشتر تحقیقاتی ادارے مغرب میں ہیں۔
ایشیا کی اٹھان‘ چین نے ٹھان رکھی ہے
اگر دنیا میں دوسری عالمی جنگ کے بعد ترقی یافتہ ملک کا درجہ حاصل کرنے والے ممالک کی فہرست مرتب کریں تو ایشیا میں یہ مقام جاپان، سنگاپور، جنوبی کوریا اور اسرائیل نے حاصل کیا ہے۔اب اس حوالے سے سب سے جدید اور بڑی مثال چین ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کا خیال آرہا ہے تو واضح رہے کہ یہ ممالک امیر ضرور ہیں مگر ترقی یافتہ ہر گز نہیں۔ ترقی یافتہ ہونے کے لیے مقامی طور پر ٹیکنالوجی میں پیش رفت اور ایجادات کا ہونا ضروری ہے جس سے عرب ممالک کوسوں دور ہیں۔ اگر ترکیہ، انڈونیشیا اور ملائیشیا کا ذکر کیا جائے تو یہ ممالک درمیانے درجے کی ترقی کے حامل ہیں۔ اسی طرح روس ایک ایسا ملک ہے جو بنیادی طور پر ایک ایشیائی ملک ہے لیکن اس کا ترقی یافتہ حصہ یورپ میں واقع ہے جبکہ روس کا شمار عسکری طور پر ایک بڑی طاقت کے طور پر ہوتا ہے اور معاشی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے اس کا شمار بھی درمیانے درجے کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ درمیانے درجے کے ترقی یافتہ ممالک کو Moderately Developed Countries کہا جاتا ہے۔ اب چین چونکہ عالمی طاقت کے طور پر ابھر چکا ہے اور ایک ایشیائی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی طرز کا اشتراکی ملک بھی ہے اس لیے امریکہ اور اس کے کچھ اتحادیوں کو یہ مسلسل کھٹکتا رہتا ہے۔ انہی بنیادوں پر جاری امریکہ اور چین کی کشمکش کو نئی سرد جنگ کہا جا رہا ہے۔ پرانی سرد جنگ اور اس نئی سرد جنگ میں ایک ہی فرق ہے، وہ یہ کہ اُس وقت امریکہ کے مقابل سوویت یونین تھا جبکہ اب چین امریکہ کے مقابل کھڑا ہے۔ ا دھر چین کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس کی سرحد چودہ ملکوں کے ساتھ ملتی ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ ملکوں سے ملنے والی سرحد ہے۔ یہ ایک ایسا امر ہے جو کسی بھی ملک کے لیے بہتری یا پھر خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر سبھی ہمسایہ ممالک سے تعلقات اچھے ہوں تو یہ سرحد تجارت کے لیے ایک بلاک بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں، اسی طرح ایک عسکری اتحاد بنانے میں بھی معاون ثابت ہو سکتی ہے لیکن اگر پڑوسیوں سے تعلقات کشیدہ ہوں‘ چاہے کسی ایک بڑے ملک سے ہی کشیدہ ہوں تو یہ ایک بہت بڑی کمزور ی بھی بن جاتی ہے۔ اس تناظر میں چین کو جو مشکل در پیش ہے وہ یہ کہ بھارت اور چین کی سرحد تقریباً ساڑھے تین ہزار کلومیٹر لمبی ہے اورچین کی روس کے ساتھ لگنے والی سرحد کے بعد یہ دوسری طویل ترین سرحد ہے۔ چین اسی وجہ سے فی الوقت بھارت کی کشیدہ اور جارحانہ پالیسیوں کا توڑ کرنے میں مصروف ہے۔ چین نے اب اس سلسلے میں تیزی لانے کا عندیہ دیا ہے۔ چین کی اس میں ایک کامیابی‘ چاہے اس میں چین کا کردار ہے یا نہیں‘ بھارت کو عالمی سطح پر ایک مشکوک اور دہشت گرد ملک ثابت کرنا ہے۔ کینیڈا کی جانب سے بھارت پر سرکاری طرز کی دہشت گردی کے الزامات سے بھارت کا خاصا نقصان پہنچا ہے۔ ان الزامات کی تصدیق آسٹریلیا کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے بھی کر دی ہے۔ ادھر کینیڈا نے بھارت میں اپنے قونصل خانوں کو عارضی طور پر بند کردیا ہے ۔
مسلم دنیا اور چین
نئی سرد جنگ پرانی سرد جنگ کے مقابل اس طرح مختلف ہے کہ مسلم دنیا اس بار ایک ایشیائی طاقت کی طرف جھکائو بڑھا رہی ہے، یا یوں کہہ لیں کہ چین اپنی مثبت اور جارحانہ طاقت کے بجائے تجارتی پالیسیوں کے سبب مسلم دنیا کو ایسا کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اس کے ذریعے مسلم دنیا کو امریکہ کی جارحانہ خارجہ پالیسی کی سیاہ رُت سے باہر نکلنے میں مدد مل رہی ہے، دوسری طرف مسلم ممالک اب خود کو قدرے خود مختار بھی محسوس کر رہے ہیں۔ حالیہ اسرائیل‘ غزہ تنازع میں چین اور روس کی جانب سے فلسطین کی حمایت نے مسلم دنیا کو ایک فیصلہ کن موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ اسرائیل کی پالیسی کے برعکس اس خطے میں دو ریاستی حل کا منصوبہ پیش کرنا اور اسی کو واحد حل قرار دینا مسلم دنیا کے لیے ایک بہت بڑی حمایت ہے۔ یہ اسرائیل کی سرحدی پھیلائو کی پالیسی سے نجات کا عندیہ بھی ہے۔ ایشیائی ممالک کے چین کے ساتھ تعاون کی وجہ سے اب چین اور امریکہ کے حامیوں اور مخالفین کی تقسیم واضح ہوتی جا رہی ہے۔ جو چیز چین کی طرف مسلم دنیا کے جھکائو کو واضح کرتی ہے وہ وسطی ایشیا کے ممالک اور افغانستان کے ساتھ چین کے بڑھتے اور گہرے ہوتے تعلقات ہیں۔ افغانستان کے بعد باری آتی ہے پاکستان کی، جو چین کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ملک ہے۔ مغربی دخل اندازیوں، معاشی مشکلات اور پروپیگنڈا کے باوجود چین پورے دل و جان کے ساتھ پاکستان کے اندر معاشی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ازبکستان سے افغانستان اور پھر پاکستان کے اندر ایک ٹرین ٹریک کی تعمیر کے ساتھ ساتھ، چین پاکستان میں بھی ریلوے کو جدید بنانے کے منصوبے پر گامزن ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعے ٹرین کی رفتار 180کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جائے گی۔ اس کی تکمیل کے بعد لوگ موٹرویز کو بھول جائیں گے کیونکہ موٹر وے پر 120کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ پر گاڑی نہیں چلائی جا سکتی، ایسے میں 180 کلومیٹر کی رفتار سے چلنے والی ٹرین کسی انقلاب سے کم نہیں ہوگی۔ اس سے سڑکوں پر ٹریفک میں بھی واضح کمی آئے گی اور حادثات کی شرح بھی کم ہو گی۔ سب سے بڑھ کر‘ ترقیاتی کاموں کو جو سڑکوں کی تعمیر سمجھ لیا گیا ہے‘ اس مفروضے سے بھی نجات مل جائے گی۔
پاکستان کس دوراہے پر؟
جس طرح چین بھارت کو اس کے جارحانہ و احمقانہ عزائم سے باز رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے، عین اسی طرح مغربی دنیا نے اپنے مالیاتی اداروں، قرضوں اور دیگر ذرائع سے پاکستان کو ایک معاشی جنگ کا شکار کر رکھا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کے محاذ کی ضد میں امریکہ نے پاکستان کو بہت ساری آزمائشوں میں ڈال رکھا ہے۔ پاکستان کی کرنسی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مہنگائی نے پاکستان کی تاریخ کے سبھی ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور آگے کا بھی کچھ پتا نہیں کہ کیا ہوگا۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ سلسلہ امریکی مداخلت کم ہونے تک جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اگر معاشی اشاریے بہتر نہیں ہوتے تو الیکشن ہوں یا نہ ہوں‘ کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ عالمی طاقتوں کی پالیسیاں اور حکمت عملی اپنی جگہ لیکن مقامی اربابِ اختیار کے پاس بھی کچھ نہ کچھ گنجائش موجود ہوتی ہے۔ اسی گنجائش کا نام سیاسی امکانات و ممکنات ہے۔ اب دیکھیں کہ عالمی حکمرانی کی جنگ میں معاشی میدانِ جنگ بنا پاکستان کس طرح ان حالات سے نبرد آزما ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں