دنیا کے سبھی ممالک اپنی سیاسی و حکومتی رائے یا موقف کو سرکاری بیانات سے واضح کرتے ہیں، لیکن چین نے ایک عالمی طاقت کے طور پر اپنی رائے یا موقف کو دنیا کو بتانے کیلئے نقشوں کا استعمال کر کے ایک نیا انداز اپنایا ہے۔ اس عمل کو ''Cartography Diplomacy‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ چین اس کا سب سے زیادہ استعمال بھارت کے خلاف کر رہا ہے۔ سب سے پہلے چین نے بھارت سے ملحقہ سرحدی علاقوں کو اپنا حصہ دکھانا شروع کیا ، اس کے بعد ایک نمایاں اور حیران کن تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آئی جب نیپال نے بھی دو مرحلوں میں بھارت کے زیر قبضہ علاقوں کو اپنے نقشے میں دکھا کر بھارت کے ساتھ ایک سرحدی تنازع کا اظہار کیا۔ یہ تقریباً تین سال پرانی بات ہے کہ جب نیپال نے لپو لیکھ اور کالاپانی کے تقریباً چار سو کلومیٹر بھارتی علاقے کو اپنا حصہ دکھا کر نیا نقشہ اپنی پالیمنٹ سے منظور بھی کروا لیا۔ اس سارے معاملے میں چین کی حمایت اور تھپکی واضح طور پر محسوس کی گئی کیونکہ بصورتِ دیگر نیپال بھارت کی ایک طفیلی ریاست ہی سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بعد امسال جب بھارت نے اپنی پارلیمنٹ کی نئی بلڈنگ تعمیر کی تو اس نے ''اکھنڈ بھارت‘‘ کا نقشہ جاری کرکے اپنی سبکی کو کچھ کم کرنے کی کوشش کی لیکن اگلے ہی دن نیپال نے ''گریٹر نیپال‘‘ کا نیا نقشہ جاری کر کے بھارت کی چال کا اُسی کے انداز میں جواب دیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان بھی اپنے نقشے سے متعلق چند وضاحتوں اور تبدیلیوں کے ساتھ اپنے موقف کو واضح کر چکا ہے۔
چین نے اسرائیل کا نقشہ بدل دیا
چین نے پہلے فلسطین جنگ کے مسئلے پر اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو پیغام دیا تھا کہ اس کا حل دو ریاستوں کا قیام ہے مگر اب بات اس سے بہت آگے بڑھ گئی ہے اور اب چین کی دو کمپنیوں نے دنیا کے نئے جاری کردہ نقشے میں سے چینی حکومت کی آشیر باد سے اسرائیل نام کے ملک کو ہی سرے سے غائب کر دیا ہے۔ پاکستان کا یہ موقف ہمیشہ سے رہا ہے کہ اسرائیل ایک جائز ریاست ہے اور پاکستان اس کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا، اس لیے جب سرکاری سطح پر خلیج یا دنیا کا کوئی نقشہ پاکستان سے جاری کیا جاتا ہے تو اس میں اسرائیل نام کا کوئی ملک شامل نہیں ہوتا۔ اب یہ پالیسی چین نے بھی اپنا لی ہے جو ایک غیر معمولی بات ہے جبکہ یہ فلسطین کے لیے چین کی جانب سے ایک بڑی حمایت کا اعلان بھی ہے۔ چینی کمپنیوں کی جانب سے جاری کردہ اس نقشے میں فلسطین اور اسرائیل کے علاقوں کو علیحدہ علیحدہ تو دکھایا گیا ہے لیکن اس میں اسرائیل کا نام غائب ہے۔ یہ اس بات کا بھی واضح پیغام ہے کہ چین کی پالیسی کا جھکائو اب مکمل طور پر فلسطین کی طرف ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ چین ان ممالک میں شامل ہے جو اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اگر بات اسرائیل کی کریں تو اسرائیل تائیوان کے حوالے سے چینی موقف کی مخالفت اور امریکہ کی حمایت کرتا ہے۔ تائیوان ایک جزیرہ نما ملک ہے اور چین کا موقف ہے کہ یہ علاقہ بنیادی طور پر ریاستِ چین کا حصہ ہے۔ اسرائیل کو نقشے سے ہٹا کر امریکہ کو ایک بڑا سفارتی جواب دیا گیا ہے۔ ایسے اعلانات واضح سفارتی کشمکش کو ظاہر کرتے ہیں جسکی وجہ سے متعلقہ ممالک کے درمیان نرم قسم کی جنگ جاری رہتی ہے جبکہ ان اقدامات سے یہ واضح قسم کا دبائو بھی پیدا ہوتا ہے۔ اگر بات کریں عالمی دبائو اور تنائو کی‘ تو روس نے یوکرین کشیدگی کی شکل میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کیلئے ایک بہت بڑا چیلنجنگ محاذ کھول رکھا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے اسرائیل نے چین کے معاشی منصوبوں اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے مقابل بھارت سے مشرقِ وسطیٰ اور پھر یورپ تک کا ایک متبادل روٹ پیش کر کے بھارت نواز ایک نیا چیلنج چین کے سامنے رکھا تھا مگر اب یہ سب حساب برابر ہوتا نظر آ رہا ہے۔بھارت بھی مستقبل قریب میں ناقابلِ برداشت قسم کی مشکلات کا شکار ہوتا نظر آ رہا ہے ۔
پاکستان اور بھارت
یہ چند سال پرانی خبر ہے کہ اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران چین کے سفیر نے امریکی سفیر کو کہا تھا کہ پاکستان چین کو اتنا ہی عزیز ہے جتنا امریکہ کو اسرائیل۔ اب امریکہ نے پاکستان میں کچھ ایسی سرگرمیاں دکھائی ہیں جن سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان میں چین کے معاشی منصوبوں اور اثرو رسوخ کو پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔ امریکہ کے سفیر نے گوادر اور شمالی علاقہ جات کے معنی خیز دورے کیے۔ اس معاملے کو بھارتی میڈیا نے خوب اچھالا کہ یہ تک کہنا شروع کر دیا کہ چین کی پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری کو امریکہ چکتا کرے گا اور اب یہاں پر کوئی معاشی راستہ یا منصوبہ نہیں بن سکے گا۔ بھارتی میڈیا دراصل اپنی ریاستی خواہشات کا پتا دے رہا تھا کہ بھارت ابھی تک چین کے منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کے خواب دیکھتا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت خود ایک بہت بھیانک خود فریبی کا شکار ہے۔ اب صاف نظر آ رہا ہے کہ چین نقشوں کی سفارتکاری میں سب سے پہلے بھارت کو سکیڑنے پر کیوں مجبور ہے۔ اگلی بات جو چین کی اسرائیل کے حوالے سے پالیسی کو واضح کرتی ہے وہ اس کے سرکاری اہلکاروں کی جانب سے اسرائیل کی جنگی بربریت سے متعلق پوسٹس ہیں۔ اس حوالے سے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے کہا ہے کہ
Calm down Israel, I am worried you will wipe out the earth out of the solar system
یہ ایک نہایت پُر مغز اور معنی خیز جملہ ہے۔ اس میں اس خدشے کا اظہار گیا ہے کہ اسرائیل جس طرح کی بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے اس طرح تو نظام شمسی سے زمین کا سیارہ مٹ جائے گا۔ اس میں اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کی طرف بھی اشارہ ہے، کیونکہ یہ ہتھیار اس قدر ہلاکت خیز ہیں کہ پورے کرۂ ارض سے زندگی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
یہ بات اب واضح ہوتی جا رہی ہے کہ جس طرح اسرائیل امریکہ کو عزیز ہے‘ اس طرح چین کو مسلم دنیا بھی عزیز ہے۔ وجہ بہت سادہ ہے کہ اسرائیل کی تمام تر پالیسیاں، اندرونِ خانہ سازشیں اور جابرانہ حکمت عملیاں صرف مسلم ممالک کے خلاف ہیں جبکہ چین کو اس مسلم دنیا کی ضرورت ہے۔ یہ مسلم دنیا دو ارب لوگوں پر مشتمل ہے۔ اسی بات کو ایک اور انداز سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اسی فیصد سے زیادہ مسلم آبادی ایشیا میں آباد ہے، مطلب مسلم دنیا کی تباہی ایشیا کی تباہی ہے۔ مسلم دنیا کی پانچ ریاستیں سینٹرل ایشیا میں چین کے ساتھ لگتی ہیں۔ اس کے بعد افغانستان اور پاکستان چین کے سرحدی پڑوسی ممالک ہونے کی وجہ سے اس کیلئے اہم ہیں۔ پاکستان سے گزر کر چین ایران سے ہوتا ہوا مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے منسلک ہو سکتا ہے۔ اب یہیں سے یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ کیونکرپاکستان کو ایک معاشی جنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان ہو یا باقی کا جنوبی ایشیا‘ اس کے متعلق ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک امریکہ یہاں سے دستبردار نہیں ہو گا یا اس کا عمل دخل کم نہیں ہو گا، یہ پورا خطہ ایک کشمکش کا شکار رہے گا۔جنوبی ایشیا میں استحکام آنے سے چین کو دو ارب کی علاقائی مارکیٹ حاصل ہوسکتی ہے۔ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں استحکام آئے گا تو چین خود کو زیادہ مستحکم پوزیشن میں پائے گا۔ پہلے بھی متعدد بار ذکر ہو چکا کہ بھارت چین مخالف متعدد محاذوں کا حصہ ہے اور اس میں شدت اسرائیل غزہ جنگ سے آئی ہے۔ بھارت نے ابھی تک ایک بیان بھی اس جنگ کو روکنے کیلئے نہیں دیا۔ بھارتی میڈیا حماس کے مجاہدوں کو دہشت گرد کہہ رہا ہے۔ اس تناظر میں قطر کی جانب سے بھارتی نیوی کے سات افسروں سمیت آٹھ اہلکاروں کو سزائے موت سنانا ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ افسران اسرائیل کیلئے جاسوسی کر رہے تھے۔ یہاں یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ بھارت مسلم مخالفت میں پاکستان کے علاوہ بھی دیگر محاذوں پر کام کر رہا ہے اور اس کی حیثیت بھی مسلم دنیا کے لیے ایک اور اسرائیل کی سی ہے۔