دنیا کو جن چیزوں کی شدت سے قلت یعنی قحط کا سامنا ہو نے والا ہی نہیں بلکہ شروع ہو چکا ہے، ان میں سے پانی سب سے نمایاں ہے۔ پانی دنیا کی تجارت میں شامل ہونے والی سب سے جدید آئٹم ہے۔ اس کی تجارت میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے اور اسی کے ساتھ اس کی مختلف اقسام ‘جو پانی کے معیار پر منحصر ہیں‘کی قیمتوں میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ پانی کی پہلی اور قدرے سستی قسم صاف پینے کے پانی کی ہے، اس کے بعد محفوظ پانی اور پھر صحت مند پانی آتا ہے۔ پانی کی قیمت اور کوالٹی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ پانی کس علاقے سے حاصل کیا گیا ہے۔ اس علاقے میں فضائی آلودگی کا معیار کیا ہے، یہ پانی گلیشیر کے پگھلنے سے حاصل کیا جاتا ہے یا چشموں سے‘ یہ سب باتیں پانی کی کوالٹی اور قیمت کو طے کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر پاکستان کے صوبے بلوچستان کے حوالے سے ایک انجینئر صاحب کی پوسٹ آج کل کافی گردش کر رہی ہے‘ یہ پوسٹ دراصل ایک وارننگ ہے‘ آئیے اس مشاہداتی رپورٹ کے کچھ مندرجات اور وارننگز پر ایک نظر ڈال لیں۔
سوشل میڈیا کی پکار
'' شہری علاقوں میں ہر وقت بہنے والی ٹونٹیاں ہماری زندگی ہی میں ایک خواب بننے والی ہیں۔ اب ان کا ذکر کہانیوں میں ملے کرے گا۔ بلوچستان کے ایک تھکا دینے والے فیلڈ وزٹ کے دوران ویرانے میں موجود چند گھروں کی ایک بستی میں ایک مہربان نے چائے کے لیے روک لیا۔ ہم سرد موسم میں جھونپڑی میں لگی فرشی نشستوں پر کچھ دیر سکون لینے کے لیے دراز ہوگئے جبکہ وہ مہربان ہمارے لیے چائے کا انتظام کرنے لگ گیا۔ کچھ دیر بعد چائے اور ساتھ دیگر لوازمات آنے پر ہمارے ایک ساتھی نے ہاتھ دھونے کی خواہش ظاہر کی تو میزبان پہلے کچھ سوچ میں پڑ گیا، پھر ہمارے ساتھی سے کہا کہ آپ بیٹھیں، میں پانی لاتا ہوں۔ چند منٹ کے بعد ہمارا میزبان ایک چھوٹے سے برتن میں پانی لے کر آیا۔ اس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا جس نے ایک اور برتن پکڑا ہوا تھا۔ انہوں نے ادھر نشست پر بیٹھے بیٹھے ہمارے ساتھی کے ہاتھ اس طرح دھلوائے کہ سارا استعمال شدہ پانی نیچے دوسرے برتن میں اکٹھا کر لیا اور اس کا ایک قطرہ بھی نیچے نہ گرنے دیا۔ میں یہ ساراعمل انتہائی غور سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے میزبان سے پوچھا کہ وہ اس گندے پانی کا کیا کرے گا؟ اس نے میری طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ گندا تھوڑی ہے‘ یہ تو اللہ کی رحمت ہے‘ اسے اپنے جانوروں کو پلائیں گے۔ یہ بات سن کر مجھے پنجاب کے ہوٹلوں کے واش بیسن اور پبلک باتھ رومز کی ہر وقت لیک کرتی یا آدھ کھلی ٹونٹیاں بہت یاد آئیں۔
جب مغربی دارفور کے فیلڈ وزٹ میں ریاستی دارالحکومت الجنینہ کے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے تو وہاں ہر بندے کے لیے پانی کی راشننگ تھی۔ پانی ایک ڈرم میں سٹور ہوتا جس سے ہر ایک کو روزانہ ایک بالٹی پانی ملتا جس سے آپ نے پورا دن گزارنا ہوتا۔ وہاں ہم آدھی بالٹی سے نہاتے تھے اور باقی آدھی بالٹی وضو اور دن کے دیگر لوازمات کے لیے استعمال میں لاتے۔ وہاں یہ پتا چلا کہ آدھی بالٹی سے بھی غسل ممکن ہے اور شاور کھول کر غسل کرنا کتنی بڑی عیاشی ہے۔ کوئٹہ شہر میں چند سال پہلے اپنی ٹیم کے لیے ہاسٹل بنایا تو چند دن بعد ہی مالک مکان نے عمارت خالی کرنے کی دھمکی اس بات پر لگائی کہ آپ کے لوگ پانی بہت ضائع کرتے ہیں۔ اس نے آکر باقاعدہ ہمارے آفس منیجر کے ساتھ لڑائی کی کہ آپ کے لڑکے روز ایک ٹینکر پانی گٹر میں بہا دیتے ہیں حالانکہ وہ ٹینکر ہم خود خرید رہے تھے لیکن وہ شخص پانی کے ضائع ہونے کو برداشت نہیں کرپایا تھا کیونکہ وہ پانی کی کمی کے اثرات کو بھگت رہا تھا۔ ہمارے لڑکے نئے تھے اور لاہور سے گئے تھے لہٰذاپانی کے استعمال کی عیاشیاں وہاں بھی جاری تھیں۔ اگرچہ ہم خود پانی کی بچت کے لیے کام کر رہے تھے لیکن اس مالک مکان نے ہماری توجہ مائیکرو مینجمنٹ کی طرف مبذول کرائی جس کے بعد لڑکوں کا پانی کو دیکھنے کا زاویہ ہی بدل گیا۔ مالک مکان کی طرف سے ہمارے لڑکوں پر لگائی گئی فردِ جرم ملاحظہ فرمائیں۔ 1۔ یہ لوگ چھوٹی بالٹی میں پانی بھر کر مگ سے نہانے کی بجائے لمبے شاور لیتے ہیں۔ 2۔ دن میں ایک سے زیادہ دفعہ نہاتے ہیں۔ 3۔ باتھ روموں کے فلش ٹینک بار بار استعمال کرتے ہیں۔ 4۔ واش بیسن پر وضو کرنے کے بجائے ٹونٹی سے وضو کیوں نہیں کرتے تاکہ نیچے بالٹی رکھ لیں اور یہ استعمال شدہ پانی فلش کے لیے استعمال کریں۔ 5۔ ایک وضو سے دو یا اس سے زیادہ نمازیں پڑھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے اور وضو کے وقت پانی کم استعمال کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ 6۔ کچن میں سبزی اور چاول دھونے والا پانی بھی بچا کر فلش یا فرش دھونے میں استعمال کیوں نہیں کرتے؟
پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں میں عام سے عام جگہ پریا کسی بھی سڑک کنارے ہوٹل میں چلے جائیں گلاس صاف بھی ہوگا تو کہیں گے کہ یار! اسے پانی مار کر لاؤ۔ آدھا گلاس پانی اسی میں ضائع ہوجائے گا۔ لان میں بچے پانی کے پائپ سے کھیلتے کھیلتے پوری ٹینکی گٹر میں بہا دیں گے۔ سوسائٹیز میں صبح سویرے ڈرائیور حضرات موٹر چلا کر پائپ سے گاڑیاں دھونے میں مشغول ہوں گے اور اندر صاحب شاور کھول‘ بالٹیوں کے حساب سے پانی ضائع کر رہے ہوں گے۔ کام والی ہوں یا گھر کی خواتین‘ موٹر چلا کر پائپ سے فرش دھو رہی ہوں گی جس سے گھر کے باہر ساری سڑک پر پانی کھڑا ہوگا۔ سردیوں میں ہم ٹونٹی کھول کر گیزر کے گرم پانی کے انتظار میں کئی لٹر صاف پانی واش بیسن کے ذریعے گٹر میں منتقل کر رہے ہوتے ہیں۔ ان باتوں پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس اب مزید وقت نہیں رہا۔ اگر ہم اسی طرح پانی ضائع کرتے رہے تو شہری علاقوں میں بہنے والی ٹونٹیاں ہماری زندگی میں ہی ایک خواب بننے والی ہیں‘‘۔
حاصلِ کلام
یہاں مجھے 1995ء میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں ایک آسٹریلوی پروفیسر کا تحقیقی مقالہ یاد آرہا ہے۔ اس مقالے میں تقریباً یہ ساری باتیں کہی گئی تھیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان پروفیسر صاحب نے یہ باتیں تقریباً تیس سال پہلے کی تھیں، جس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ لوگ کتنا دور کا سوچتے ہیں۔ دوسری اہم بات‘ جس کیلئے میں نے یہ پوسٹ شیئر کی‘ وہ یہ کہ دیگر ممالک میں ان باتوں پر عمل بھی ہو رہا ہے جبکہ ہم ابھی تک کوسوں دور ہیں۔ یہاں ایک چیز کا اضافہ بہت ضروری ہے کہ ٹوتھ پیسٹ اور شیو کرتے وقت بھی بے تحاشا پانی ضائع کیا جاتا ہے۔ اگر آپ دانت صاف کرتے وقت نل کھلا رکھیں تو بارہ سے پندرہ لٹر پانی بہہ جاتا ہے، یہی صورت حال شیو کرتے وقت ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ترقی یافتہ ممالک میں ٹوائلٹ میں لگے فلش میں دو بٹن لگے ہوتے ہیں۔ ایک سے کم پانی نکلتا ہے‘ ایک سے زیادہ۔ بے تحاشا کے بجائے محض ضرورت کے مطابق پانی بہایا جاتا ہے۔ اگر اس قسم کا فلش سسٹم ہمارے ہاں لگ جائے تو اندزہ کریں کہ صرف لاہور شہر میں روزانہ کتنے کروڑلٹر پانی کی بچت ہو سکتی ہے۔ پانی کا سب سے بڑا ضیاع جو ہم کر رہے ہیں‘ وہ کاشتکاری کے دوران ہو رہا ہے۔ ہمارے کسان کھلا پانی کھیتوں میں چھوڑ دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کو ''فلڈ اریگیشن‘‘ کہتے ہیں، صدیوں پرانے اس طریقے سے کم از کم پچاس فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ پتا نہیں ہم کب فواروں کی طرز پر آبپاشی کا نظام (ڈرپ ایریگیشن) اپنانا شروع کریں گے۔ شروع کرنا تو چھوڑیں‘ ہم نے تو ابھی اس طرز کی آبپاشی کا سوچنا بھی شروع نہیں کیا۔ باقیوں کو چھوڑیں‘ آپ اپنے حصے کا پانی بچانے کاکام آج ہی سے شروع کر دیں، اسی طرح سوچ بدلتی ہے اور پھر عادات اور رفتہ رفتہ پورا معاشرہ بدل جاتا ہے۔