پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ تصادم کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کشمیر پر چند ریمارکس کی روشنی میں پاکستانی میڈیا کے کچھ حلقے اس امید بلکہ یقین کا اظہار کر رہے ہیں کہ دونوں ملکوں میں جنگ بندی کرانے کے بعد امریکی صدر بنیادی مسئلہ کشمیر کو بھی حل کرانے کیلئے بھارت پر دباؤ ڈالیں گے۔ لیکن امریکی صدر نے سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہونے سے پہلے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جو بیان دیا تھا اس میں کہیں بھی اس بات کا ذکر موجود نہیں کہ ٹرمپ نے جس طرح تجارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دے کر بھارت اور پاکستان کو جنگ بندی پر راضی کیا تھا اس طرح مداخلت کر کے پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر پر بات چیت پر آمادہ کریں گے۔ یہ درست ہے کہ امریکہ نے کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے اور اس کے حل کیلئے دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات شروع کروانے کیلئے اپنی خدمات پیش کر چکا ہے مگر شروع سے ہی خصوصاً شملہ معاہدہ (1972ء) کے بعد کشمیر پر امریکہ کی ایک پالیسی رہی ہے اور اس پالیسی میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس پالیسی کے تحت امریکہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے مابین ایک دوطرفہ تنازع قرار دیتا ہے جسے دونوں ملکوں کو پُرامن طریقے سے براہِ راست مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر کشمیر پر امریکہ کا یہی مؤقف ہے‘ البتہ کچھ عرصہ سے خصوصاً 1998ء میں پاکستان اور بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد بین الاقوامی برادری کے باقی اہم رکن مثلاً چین‘ روس‘ برطانیہ‘ فرانس اور یورپی یونین کی طرح امریکہ کی مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف پاکستان اور بھارت کی کسی قسم کی پیشرفت کی عدم موجودگی پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے امریکہ کی طرف سے نہ صرف پاکستان اور بھارت میں براہِ راست دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل پر زور دیا جا رہا ہے بلکہ اس کیلئے امریکہ نے سہولت کاری کی بھی پیشکش کی ہے‘ بشرطیکہ دونوں ممالک اس پر اپنی رضامندی کا اظہار کریں۔
2004ء میں 12ویں سارک سمٹ کے موقع پر اسلام آباد میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور سابق صدر پرویز مشرف کے مابین مفاہمت کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے کمپوزٹ ڈائیلاگ کی بنیاد پر مذاکرات کے سلسلے کی بحالی میں دیگر ممالک مثلاً چین‘ روس اور برطانیہ کے علاوہ امریکہ کا بھی ہاتھ تھا۔ امن مذاکرات کے اس سلسلے میں مسئلہ کشمیر پر بھی بات چیت شامل تھی۔ 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی کے واقعہ کی وجہ سے امن مذاکرات کا یہ سلسلہ تعطل کا شکار ہو گیا۔ مگر ان مذاکرات کے چار راؤنڈز کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم ہوئی بلکہ بعض شعبوں مثلاً دوطرفہ تجارت‘ عوامی روابط‘ ریل‘ روڈ اور ہوائی سفر کی سابقہ سہولتوں کی بحالی اور نئے روٹس مثلاً مظفر آباد‘ سرینگر بس سروس کا اجرا اور لائن آف کنٹرول کے آر پار بارڈر ٹریڈ میں دونوں ملکوں کے مابین تعاون میں اضافہ ہوا مگر مسئلہ کشمیر پر کوئی نمایاں پیشرفت نہیں ہوئی۔ 2011ء میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور اُن کے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر منموہن سنگھ کے مابین نیپال میں سارک کی سربراہی کانفرنس کے موقع پر ملاقات کے بعد پاک بھارت مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا مگر باہمی تنازعات خصوصاً کشمیر پر کوئی قابلِ ذکر پیشرفت نہ ہو سکی البتہ مظفر آباد‘ سرینگر بس سروس اور ایل او سی کے آر پار تجارت کا سلسلہ جاری رہا۔
2014ء میں بھارت کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی اور نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ نریندر مودی جن کا بھارت کی ہندو انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے‘ نے انتخابی مہم کے دوران اپنی تقاریر میں اعلان کیا تھا کہ وہ کامیاب ہو کر پاکستان اور چین کو ''سبق‘‘ سکھائیں گے۔ اس زمانے میں پاکستان کے ساتھ کشمیر میں ملنے والی سرحد‘ لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کی فوج کے مابین روزانہ ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کے ساتھ فائرنگ اور چین کے ساتھ بھارت کی ہمالیائی سرحد ایل اے سی (لائن آف ایکچوئل کنٹرول) پر چین کی ''در اندازیوں‘‘ کی خبریں بھارتی میڈیا میں خوب اچھالی جا رہی تھیں۔ نریندر مودی نے اپنی تقریروں میں اس کی ذمہ داری کانگریس کی بزدلانہ پالیسی پر ڈالتے ہوئے دونوں ملکوں کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے کے عزم کا اعلان کیا۔ نتیجتاً مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد بھارت کے نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ رہے۔ 5 اگست 2019ء کو مودی کے مقبوضہ کشمیر میں مکمل طور پر یکطرفہ‘ غیر قانونی اور اشتعال انگیز اقدام نے پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ صرف تجارت بلکہ باہمی روابط‘ ٹرانسپورٹ اور ثقافتی شعبوں میں جو تعاون موجود تھا‘ ختم ہو گیا۔ پہلگام واقعے کے بعد سندھ طاس معاہدے کو معطل کر کے مودی نے پاکستان کے ساتھ تعاون کی جو تھوڑی بہت گنجائش تھی‘ وہ بھی ختم کر دی۔ چھ اور سات مئی کی درمیانی شب کو پاکستان پر حملہ کر کے دونوں ملکوں کے مابین برسوں نہیں بلکہ دہائیوں کی محنت سے باہمی روابط اور مختلف شعبوں میں تعاون کا جو سٹرکچر کھڑا ہوا تھا‘ مودی نے اُس کو تباہ کر دیا۔ چاردن کی جھڑپوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی میں کامیابی پر امریکی صدر نے جو پیغام بھیجا تھا اس میں امید ظاہر کی گئی تھی کہ دونوں کسی غیر جانبدار ملک میں باہمی تنازعات کے حل پر بات چیت کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ اسے ممکن بنانے کیلئے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ ٹرمپ نے ایسی پیشکش کی ہو‘ مگر بھارت نے پہلے کی طرح اس دفعہ بھی امریکی ثالثی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے بلکہ 12مئی کو اپنی قوم سے خطاب کے دوران نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت سے انکار کر دیا۔ اس کے برعکس وزیراعظم شہباز شریف نے بھارت کو کشمیر سمیت تمام متنازع امور پر ایک جامع ڈائیلاگ کی دعوت دی۔ بھارت کی طرف سے کسی مثبت جواب کی توقع نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ کا کیا ردِعمل ہوگا؟ اس سلسلے میں ہمیں پاکستان اور بھارت کے مابین تصادم کے بارے میں امریکہ کی ماضی کی پالیسی یا سفارتی اقدامات کا جائزہ لینا ہو گا۔
امریکہ کی اپروچ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ فوری نوعیت کے اقدامات‘ جن کا مقصد تصادم کو روکنا یا اسے بڑی جنگ میں تبدیل ہونے سے روکنا ہے ‘اس کیلئے پاکستان اور بھارت کے ساتھ بات چیت کیلئے کسی امریکی ایلچی کو روانہ کیا جاتا ہے یا اعلیٰ ترین سطح پر امریکی حکام رابطہ قائم کرتے ہیں۔ جنگ بندی کے بعد امریکہ کی کوشش ہوگی کہ دونوں ملک باہمی تجارت‘ ثقافت یا سپورٹس میں روابط بحال کر کے تعلقات کو معمول پر لائیں۔ جہاں تک کشمیر کے مسئلے کا تعلق ہے تو دنیا کی طرح امریکہ کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ یہ ایک دیرینہ اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس کیلئے کسی ڈیڈ لائن کو مقرر نہیں کیا جا سکتا‘ نہ ہی اس کے حل کی کسی خاکے کے بارے میں قیاس آرائی کی جا سکتی ہے۔ البتہ امریکہ کی نظر میں اس کا ایسا حل ہونا چاہیے جس سے نہ صرف پاکستان اور بھارت مطمئن ہوں بلکہ اس میں کشمیری عوام کے مفادات اور احساسات کا بھی خیال رکھا جائے۔اس پر امریکہ کو بھارت اور پاکستان دونوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور شک کیا جانے لگا کہ سہ فریقی مذاکرات کی حمایت کر کے امریکہ ایک آزاد اور خودمختار کشمیر کے قیام کا راستہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی پیشکش کا بھارت کی طرف سے جواب آنے کے بعد غالب امکان ہے کہ ٹرمپ روایتی امریکی پالیسی کی طرف لوٹ کر صرف پاکستان اور بھارت کے مابین امن کے استحکام پر فوکس کریں گے اور کشمیر کے بارے میں کسی مداخلت کے ارادے سے احتراز کریں گے۔