بزرگ افراد اور ریاست کی ذمہ داری

بڑھاپا ایک ایسا فطری عمل ہے جس سے ہر کسی کو ایک نہ ایک دن گزرنا پڑتا ہے۔ معمر افراد کے لیے زندگی کی گاڑی ایک خاص عمر کے بعد توجہ کی دگنی مستحق ہو جاتی ہے اور مناسب توجہ نہ ملے تو انہیں صحت‘ غذا‘ رہائش‘ تفریح اور آمدنی کے مسائل درپیش آنے لگتے ہیں۔ دنیا بھر کی آبادی ماضی کے مقابلے میں تیز رفتاری سے بوڑھی ہو رہی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اس وقت دنیا میں معمر افراد کی آبادی 1.4 ارب سے کچھ زیادہ ہے جو 2050ء تک نہ صرف 2 ارب ہو جائے گی بلکہ نوجوانوں اور 10سال سے کم عمر کے بچوں سے بھی زیادہ ہو گی۔ ترقی پذیر ممالک میں یہ اضافہ سب سے زیادہ ہوگا۔ اقوام متحدہ کے مطابق آبادی کی بڑھتی عمر 21 ویں صدی کی سب سے اہم سماجی تبدیلی ہوگی۔ اس بڑھتی ہوئی آبادیاتی تبدیلی کا اثر معاشرے کے تقریباً تمام پہلوؤں پر پڑے گا۔
مغربی دنیا نے طویل عرصہ قبل ہی بزرگوں کے مسئلے کو اُن کی ثقافتی ضروریات کے مطابق بھرپور طریقے سے حل کر لیا تھا۔ وہاں تقریباً ہر شہر اور قصبے میں سرکاری اور نجی شعبوں میں ایسے گھر قائم کیے گئے ہیں جہاں بڑی تعداد میں ان بزرگوں کو رکھا جاتا ہے جو اپنی دیکھ بھال کرنے سے قاصرہوں۔ مستقبل قریب میں معمر افراد کی آبادی ایشیا اور خاص طور پر جنوبی ایشیا میں بڑھ جائے گی۔ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک‘ جن میں پاکستان بھی شامل ہے‘ کے شہریوں بالخصوص معمر شہریوں کو صحت اور مناسب دیکھ بھال کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان میں معمر افراد کی ایک بڑی تعداد اپنے خاندان خاص طور پر اپنے بچوں یا پوتوں و نواسوں پر جسمانی صحت اور مالی مدد کے لیے انحصار کرتی ہے جوکہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں زیادہ آسان ہوتا ہے۔ خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتا ہے جو اپنے اراکین کی متنوع ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ اس حقیقت کی وجہ سے گھر کے بزرگ افراد ایشیائی ثقافت میں قابلِ احترام مقام رکھتے ہیں۔ خاندان اپنے اراکین کو خوش گوار اور نتیجہ خیز زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ روایتی طور پر پاکستان میں مشترکہ خاندانی نظام قائم تھا لیکن بڑھتی ہوئی مشینی زندگی اور Urbanization سے خاندان کی اہمیت اور بزرگوں کی دیکھ بھال کی خواہش پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ دوسرے ایشیائی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خاندانی نظام میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ ہمارا معاشرہ تیزی کے ساتھ جوائنٹ فیملی سسٹم سے نیوکلیئر فیملی سسٹم (میاں بیوی اور ان کے بچوں پر مشتمل گھرانا) کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تبدیلی کے اس رجحان کی وجہ متعدد عوامل ہیں جیسے معاشی دباؤ‘ رہنے کی جگہ میں کمی‘ ملازمت کے لیے نقل و حرکت اور بڑھتی ہوئی Urbanization وغیرہ۔ نیو کلیئر فیملی سسٹم دیہی علاقوں کے مقابلے میں شہری علاقوں میں زیادہ ہے حالانکہ یہ بزرگ افراد اپنے زندگی بھر کے تجربات سے سماجی اور خاندانی تنازعات کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اپنے پوتے پوتیوں‘ نواسے نواسیوں کی دیکھ بھال احسن طریقے سے کرتے ہیں۔ ان کے اس عمل کی وجہ سے ماؤں کو ملازمت کرنے میں مدد ملتی ہے جس سے گھر کے معاشی معاملات بہتر ہوتے ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی بزرگوں کو نظر انداز کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور معمر افراد کے لیے حالات خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ ان بزرگوں کی مناسب دیکھ بھال ایک چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ جب تک ہمارے ہاں لوگوں کا زیادہ انحصار ایگریکلچر پر تھا تو اس کی وجہ سے جوائنٹ فیملی سسٹم برقرار تھا کیونکہ ایگری سوسائٹی میں خاندان کے سب افرادکے معاش کا دارومدار زرعی پیداوار پر ہوتا تھا۔ اب چونکہ زرعی پیداور کے ساتھ ساتھ یہاں پر صنعتی پیداوار سے بھی معاش وابستہ ہو گیا ہے جو نیوکلیئر فیملی سسٹم کو اپنانے کا محرک بن رہا ہے‘ جس کومغرب نے انیسویں صدی میں اپنا لیا تھا۔
پاکستان جو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے‘ اس کا موجودہ صحت کا نظام انتہائی کمزور اور بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کا شکار ہے۔ صحت کے شعبے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ قانون سازی کی حد تک معمر افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات کیے گئے ہیں۔ سینئر سٹیزن ایکٹ 2011ء کی منظوری کے بعد سینئر سٹیزن ویلفیئر کونسل کا قیام اور تمام صوبوں میں سینئر سٹیزن ایکٹ اور نیشنل پروگرام فار ہیلتھ کیئر فار ایلڈرز (NPHCE) موجود ہیں۔ سندھ اور پنجاب کے کچھ شہروں میں اولڈ ایج ہومز بھی بنائے گئے تھے لیکن ان کی مستقل نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے وہ معمر افرادکی توجہ کا مرکز نہیں بن سکے اور ویسے بھی ہماری معاشرتی روایات کچھ اس طرح کی ہیں کہ زیادہ تر بزرگ اولڈ ایج ہومز میں داخل ہونے کے بجائے اپنے خاندانوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ معمر افرادکے لیے گھر بنانے کو جتنا بھی معیوب سمجھیں لیکن نیو کلیئر فیملی سسٹم کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اولڈ ایج ہومز کی ضرورت بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ حکومت ان معمر افرادکو ہر گز بے یارومددگار نہیں چھوڑ سکتی اور نہ ہی چھوڑنا چاہیے جن کے بچے بیرونِ ملک رہتے ہیں یا وہ بزرگ شہری جن کے بچے نہیں ہیں‘ ان کی دیکھ بھال کے لیے مناسب رہائش کا ہونا ضروری ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت سب کچھ نہیں کر سکتی لیکن پھر بھی کچھ کام ایسے ہیں جو حکومت کے خصوصی دائرۂ کار میں آتے ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال ان میں سے ایک ہے۔ سول سوسائٹی کو بھی اس سلسلے میں حکومت کی مدد کرتے ہوئے کچھ ذمہ داریاں بانٹنی چاہئیں۔ ماحول انسان کی زندگی اور خاص طور پر بڑھاپے میں جسمانی اور ذہنی صلاحیت کا تعین کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ڈیمینشیا‘ فالج‘ الزائمر یا بڑھتی عمر کی دیگر دائمی بیماریاں اور زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے پیدا ہونے والا معاشی انحصار بچوں کو اپنے والدین کی اتنی دیکھ بھال کرنے سے روکتا ہے جتنا وہ چاہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں غربت‘ ریاست کے زیر اہتمام سماجی تحفظ کی کمی اور صحت کے مسائل کا سامنا معمر افراد کو کرنا پڑرہا ہے۔ اس لیے ہر سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتال میں ایک Geriatric وارڈ ہونا چاہیے جہاں عمر کے ساتھ منسلک بیماریوں میں مبتلا بزرگوں کی طویل مدتی نگہداشت کی جا سکے جن کا گھر میں علاج نہیں کیا جا سکتا۔ تمام بزرگوں کو ہسپتالوں میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ ان کی دیکھ بھال ان کے اہلِ خانہ گھر پر کر سکتے ہیں‘ ان کے لیے رعایتی ادویات اور دیکھ بھال کا انتظام ہونا چاہیے۔ غریب خاندانوں کو ان کے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کے لیے زکوٰۃ فنڈ سے وسائل مہیا کیے جائیں۔ اس سے معمر شہریوں کو اپنے خاندان کے ساتھ رہنے میں مدد ملے گی۔ تنہائی ایک اور مسئلہ ہے جس کا سامنا بزرگوں کو ہوتا ہے۔ ان کا اپنی عمر کے ساتھیوں کے ساتھ اپنے خیالات کا اشتراک کرنا اور مفید تفریحی سرگرمیوں میں شامل ہونا بھی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے اولڈ ایج ڈے کیئر مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں بزرگ لائبریری کی سہولت اور تفریحی پروگراموں سے مستفید ہو سکیں۔ معمر شہریوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت اور سول سوسائٹی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس کے لیے سیاسی عزم اور مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کی فوری ضرورت ہے۔ اس وقت تو شاید کچھ لوگوں کو بزرگوں کے مسائل غیراہم معلوم ہوتے ہوں لیکن اگر ہم مہذب و ترقی یافتہ ملک و قوم بننے کے خواہش مند ہیں تو ہمیں معمر شہریوں کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں