خوشی کے آنسو

آنسو ایک طرح کے نہیں کئی اقسام کے ہوتے ہیں۔ خوشی کے آنسو‘ غم کے آنسو‘ فراق کے آنسو‘ ملاقات کے آنسو‘ اداسی کے آنسو اور بلاسبب آنسو۔ آج ہم صرف خوشی کے آنسوئوں کی بات کریں گے۔ اتوار کے روز پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچ کو دیکھنے کے لیے جہاں ہزاروں پاکستانی اور بھارتی دبئی سٹیڈیم میں تھے وہاں پاکستانی ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے والد بھی موجود تھے۔ جونہی میچ میں پاکستانی ٹیم کو بابر اعظم کی کپتانی میں تاریخی فتح نصیب ہوئی تو فرطِ مسرت اور شدتِ جذبات سے بابر اعظم کے والد اعظم صدیقی کی آنکھوں میں لگاتار آنسو چھلک پڑے۔ اس موقع پر اُن کے ارد گرد موجود بہت سے پاکستانی شائقین نے انہیں گلے لگا جذباتی انداز میں مبارک باد دی تو بابر اعظم کے والد نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا دی کہ یہ سب میرے مولا کا کرم ہے۔ اُن کے کپتان بیٹے نے نہ صرف اپنے باپ کا سر فخر سے بلند کر دیا بلکہ ساری دنیا میں پاکستان کو سربلند اور سرفراز بھی کیا ہے۔
وہ پاکستان کے پہلے کپتان ہیں جنہوں نے ورلڈ کپ میں بھارت کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ شکست بھی کوئی ایسی ویسی نہیں‘ حیران کن اور غیرمعمولی شکست‘ بھارت کو پاکستان نے دس وکٹوں سے شکست دی۔ پاکستان ون ڈے اور ٹی20 ورلڈ کپ میں اب تک بھارت کے خلاف 13 میچز کھیلا ہے اور اسے 12 میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اتوار کے روز ہونے والا ورلڈ کپ کا یہ 13واں میچ تھا جس میں پاکستان کو عظیم الشان کامیابی حاصل ہوئی۔ پاکستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی ہیں وہاں وہاں فتح کا جشن منایا گیا۔ پاکستانیوں کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ قومی سربلندی اور مسرت کا کوئی لمحہ آئے تو وہ پچھلے سارے غم بھول کر خوشی کا جشن منانے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
میچ کے بعد بعض نہایت مثبت مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔ شکست کے بعد سٹیڈیم میں ہی بھارتی ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان سے گلے ملے اور انہیں کامیابی پر مبارکباد دی۔ بعدازاں ایک پریس کانفرنس میں بھی کوہلی نے پاکستانی ٹیم کی برتری کی تعریف کی۔ عظیم خوشی کے اس موقع پر پاکستان کے سابق کپتان انضمام الحق نے فاتح کپتان اور ساری ٹیم کو نہایت فراخدلی کے ساتھ مبارکباد دی۔ سابق کپتان نے کہا کہ یہ فتح دیکھنے کے لیے وہ گزشتہ تیس برس سے انتظار کی گھڑیاں گن رہے تھے‘ اگر بابر اعظم اسی طرح کھیلتا رہا تو یہ دنیائے کرکٹ کے سارے ریکارڈ توڑ دے گا۔
کرکٹ سے عشق ہر پاکستانی کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ کیا شہری کیا دیہاتی‘ کیا بوڑھا کیا جوان کیا بچہ ہر کوئی اس کا دیوانہ ہے۔ لڑکیاں تو بطورِ خاص پاکستان کی فتح کے لیے سٹیڈیم کے اندر اور گھروں میں انتہائی پرجوش دکھائی دیتی ہیں۔ کرکٹ سیاست دانوں کو بھی متحد کر دیتی ہے۔ کرکٹ کا جب کوئی میچ ہوتا ہے بالخصوص بھارت کے ساتھ تو سارے سیاست دان فرقِ من و تو مٹا دیتے ہیں اور حکومت سے لے کر اپوزیشن تک سب کے سب سیاست کو بھول کر ٹیلی ویژن سکرینوں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی ٹیم کی فتح کے لیے عاجزی کے ساتھ دعائیں کرتے ہیں۔ اپنی ٹیم کی کامیابی کے لیے منبر و محراب بھی دعائوں سے گونج اٹھتے ہیں۔ کاش یہ کرکٹ یک جہتی ہماری سیاست و معاشرت کا بھی حصہ بن جائے۔ یہاں جو برسراقتدار آتا ہے وہ اپنی جماعتی سیاست چمکانے کے لیے ماضی کی ہر کامیابی اور پالیسی کو ملیامیٹ کرنے پر تل جاتا ہے اور یوں سیاست معیشت کی بربادی کا باعث بن جاتی ہے۔
میں کرکٹ کا کوئی ایکسپرٹ تو نہیں‘ تاہم اس کھیل کے ایک ناظر کی حیثیت سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ماضی قریب کے ادوار کے برعکس اس مرتبہ یوں محسوس ہوا کہ کپتان بابر اعظم کے پاس مکمل فری ہینڈ تھا جسے انہوں نے نہایت مہارت اور دانش مندی سے استعمال کیا۔ ورلڈ کپ میں جب پاک بھارت ٹیمیں آمنے سامنے آتی ہیں تو دونوں انڈر پریشر ہوتی ہیں تاہم اس مرتبہ میچ کے آغاز سے ہی پاکستانی ٹیم ہر طرح کے دبائو سے آزاد دکھائی دی اور اُس نے میچ کی ابتدا سے لے کر انتہا تک بھارتی ٹیم کو مسلسل پریشر میں رکھا۔ ہمارے خیال میں اس تاریخی کامیابی میں جس چیز نے فیصلہ کن کردار ادا کیا وہ ٹیم کا پرجوش اعتماد تھا۔ یوں تو کرکٹ ٹیم کا ہر کھلاڑی ہمارے مقدر کا ستارہ ہے تاہم بابر اعظم‘ شاہین آفریدی اور محمد رضوان اس میچ کے ہیرو تھے۔
بھارت سے تاریخی فتح حاصل کرنے کے بعد سب سے اہم سوال یہ تھا کہ کیا پاکستان اسی جوش و جذبے اور تسلسل کو قائم رکھ پائے گا یا نہیں؟ بھارت کے بعد منگل کے روز پاکستان کا دوسرا بڑا ٹاکرا نیوزی لینڈ سے ہوا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم جس طرح پاکستان آکر واپس چلی گئی اور جس طرح وہاں کی ہردلعزیز وزیراعظم جیسنڈا نے ہمارے وزیراعظم‘ سابق کرکٹ کپتان‘ عمران خان کی یقین دہانی کو بھی ٹھکرا دیا اور راتوں رات اپنی ٹیم کو واپس اپنے وطن بلا لیا اُس سے پاکستانیوں کے دل زخمی تھے‘ لہٰذا پاکستان نیوزی لینڈ کو بے رخی کا مزہ چکھانا چاہتا تھا۔ منگل کی شب دبئی سٹیڈیم میں نیوزی لینڈ اور پاکستان کے مابین میچ میں بہت تھرل تھا۔
اس بار شاہین آفریدی کی جگہ حارث رئوف نے کرشمہ دکھایا اور نیوزی لینڈ کی 4 وکٹیں لے لیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم 134 رنز سے زیادہ نہ بنا سکی تاہم اس بار اوپر نیچے پاکستان کی پانچ وکٹیں گر گئیں تو ایک مرتبہ سٹیڈیم کے اندر اور دنیا بھر میں پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز اور دعائوں میں رقت و عاجزی بہت بڑھ گئی تاہم آصف علی اور شعیب ملک نے گھبرائے بغیر چوکوں چھکوں سے بابراور رضوان والا کارنامہ کر دکھایا۔ ان دو میچوں میں مختلف کھلاڑیوں کی بہترین پرفارمنس اور تمام کھلاڑیوں کی عمدہ فیلڈنگ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی ٹیم مہارت‘ مشاورت اور جامعیت میں بے مثال ہے۔ بائولر ایک نہیں کئی ہیں۔ اسی طرح بیٹسمین بھی بہت ہیں۔ جس بات نے ساری قوم کو زبردست حوصلہ عطا کیا ہے وہ یہ ہے کہ ساری ٹیم ذوقِ یقیں سے سرشار ہے اور کپتان بابر اعظم میں عاجزی و انکساری ہے غرور و تکبر نہیں۔
کئی برس تک نمبر ون رہنے والی ٹینس سٹار ماریہ شراپوا کی بائیوگرافی پڑھ کر مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ چار سال کی عمر میں اس نے پہلی مرتبہ ٹینس کا ریکٹ ہاتھ میں پکڑا تو بچی کا ٹینس کے لیے شوق ذوق دیکھ کر اس کے والد نے پہلے اسے ماسکو میں تربیت دلوائی اور پھر قرض لے کر ننھی ماریہ کو صرف سات برس کی عمر میں فلوریڈا (امریکا)لے آیا اور پھر محنت مزدوری کرکے ماریہ کو نمبر ون ٹینس سٹار بنوا دیا۔ مجھے یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ بابر کے والد اعظم صدیقی نے بھی اپنے بیٹے کے کرکٹ کے ذوق و شوق کی دل و جان سے آبیاری کی اور ہر مرحلے پر اپنے بیٹے کی حوصلہ افزائی کی۔ اُسی بیٹے نے اتوار کے روز باپ کا سر فخر سے بلند کر دیا تو شارجہ سٹیڈیم میں بیٹھے اعظم صدیقی کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑے۔ بقول ساحر لدھیانوی ع
خوشی بھی یاد آتی ہے تو آنسو بن کے آتی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں