مشینوں کی اتنی جلدی کیوں؟

کمال بلڈوزڈ قانون سازی میں نہیں کمال باہمی اعتماد سازی میں ہے۔ یہ خبر سامنے آئی ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں وزرا نے جناب وزیر اعظم کو الیکشن کمیشن کے ساتھ ٹکرائو کی پالیسی ترک کرنے اور مشاورت کی راہ اپنانے پر قائل کر لیا۔ قربان جائیں اس قائل کرنے اور قائل ہونے کے۔ غالباً ایسے ہی مواقع کے لیے شاعر نے کہا تھا:
تیرا مجبور کر دینا میرا مجبور ہو جانا
حکومت کے وزرا بھی امیرِ شہر کے بڑے رمز آشنا اور مزاج شناس ہیں کہ وہ صرف انہی معاملات پر وزیر اعظم کو 'قائل کر لیتے ہیں‘ جن میں حکومت کا فائدہ ہوتا ہے۔ جیسے الیکشن کمیشن سے مشاورت و مفاہمت، ون پیج پالیسی یا تحریک لبیک پاکستان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر آمادگی؛ تاہم وزرا انہیں پاکستانی عوام پر تازیانے برساتے آئی ایم ایف کے سامنے سابقہ حکومتوں کی طرح حکمت یا جرأت کے ساتھ ڈٹ جانے کی پالیسی اختیار کرنے پر قائل نہیں کر پاتے اور نہ ہی یہ نائبین حکومت کو انیس بیس کا فرق رکھنے والی مضبوط اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گزشتہ چھ ماہ سے حکومتی وزرا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ کبھی عجزونیاز کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور کبھی اُن کا دامن حریفانہ کھینچنے لگتے ہیں۔ اب پھر وزرا نے کمیشن کو راہ پر لانے کے لیے داد فریاد کا طرزِعمل اپنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر جناب وزیراعظم کو بھی قائل کرلیا ہے۔ حکومت کے اس رنگ بدلتے رویے کے بارے میں الیکشن کمیشن بزبانِ شعر یہی کہہ سکتا ہے کہ
ذرا میں لگائے زخم ذرا میں دے مرہم
بڑے عجیب روابط مرے صبا سے ہیں
پُرجوش وزیروں کو اب تک معلوم ہو جانا چاہئے تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کو لبھایا جا سکتا ہے نہ ہی جھکایا جا سکتا ہے۔ 2023ء کے انتخابات میں صرف حکومتی پارٹی ہی سٹیک ہولڈر نہیں اس کے علاوہ تین اور بھی سٹیک ہولڈرز ہیں: الیکشن کمیشن، اپوزیشن اور عوام۔ صاف شفاف الیکشن کا انعقاد حکومت کی نہیں الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔
حکمران جماعت نے جس طرح 17 نومبر کو تمام پارلیمانی روایات اور اپوزیشن کے اعتراضات کو بلڈوز کرتے ہوئے پلک جھپکنے میں متعدد بل کی منظوری حاصل کرلی جن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال اور اوورسیز پاکستانیوں کا حق رائے دہی بھی شامل تھا‘ گزشتہ روز پی ڈی ایم کے اہم اجلاس میں اس کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے انتخابات کے انعقاد کو پری پول دھاندلی قرار دیا ہے۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ اس متنازع قانون سازی سے پہلے اپوزیشن کے اعتراضات پارلیمانی کمیٹیوں میں سنتی اور مفاہمت کی کوئی راہ نکالتی مگر حکومت نے اپوزیشن کو نظر انداز کر دیا۔
سینیٹ کے نام لکھے گئے خط میں الیکشن کمیشن نے ووٹنگ مشین کے بارے میں جن 34 تحفظات کا ذکر کیا تھا اُن کو باقاعدہ اعدادوشمار اور ریسرچ کے ساتھ ایک تحقیقی دستاویز کی شکل دینے کے لیے الیکشن کمیشن نے تین کمیٹیاں تشکیل دی ہیں تاکہ پاکستان کے زمینی حقائق اور عالمی معلومات کی روشنی میں جائزہ لیا جاسکے کہ 2023ء کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے پروگرام کو کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے قائم کردہ پہلی کمیٹی کا نام ٹیکنیکل کمیٹی ہے۔ یہ کمیٹی ووٹنگ مشینوں میں استعمال ہونے والی الیکٹرانک ٹیکنالوجی کا جائزہ لے گی اور دیکھے گی کہ ان ووٹنگ مشینوں کا سب سے اعلیٰ اور محفوظ ترین عالمی ماڈل یا برانڈ کون سا ہے۔ یہ کمیٹی ان مشینوں کی اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک پروڈکشن کے نظام اور سٹوریج کا دقّتِ نظر سے مطالعہ بھی کرے گی۔
دوسری کمیٹی کا نام مالیاتی کمیٹی ہے۔ یہ کمیٹی ان اخراجات کا تخمینہ لگائے گی جو مشینی انتخابات پر ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کا پہلے اندازہ یہ تھا کہ سارے ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر 150 ارب خرچ کرنا پڑیں گے۔ تینوں کمیٹیوں کی مشترکہ رپورٹ کا الیکشن کمیشن جائزہ لے گا اور اِس کی روشنی میں انتخابی لائحہ عمل طے کرے گا۔
آخر حکومت کو کس بات کی جلدی ہے کہ وہ ہر قیمت پر الیکٹرانک ووٹنگ کی متروک ٹیکنالوجی اختیار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ حکومت نے الیکشن کمیشن کے تحفظات دور کیے ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کے اعتراضات کو قابل غور سمجھا ہے۔ اپوزیشن تو 2018ء کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرتی۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کامیابی میں غیبی مدد کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ پھر ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں حکومت کی طرف سے دھاندلی کی گئی جس پر الیکشن کمیشن نے دوبارہ انتخاب کروایا اور ایک انکوائری کمیٹی کو تفتیش کا ٹاسک دیا گیا‘ جس کی انکوائری رپورٹ منظرعام پر آنے سے واضح ہوگیا کہ کس طرح ایک مشیر کی سربراہی میں ڈسکہ کی انتظامیہ نے اپنے دفتروں میں بیٹھ کر حکومتی پارٹی کے حق میں الیکشن چوری کرنے کی واردات کی۔ بیس پریذائیڈنگ افسروں کو اغوا کیا گیا، عورتوں کے پولنگ بوتھوں پر جان بوجھ کر آہستہ پولنگ کروائی گئی، غنڈہ گردی کی حد کردی گئی جس سے دوافرد ہلاک بھی ہوئے۔ اس پس منظر میں اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت پہلے کی طرح اب پھر دھاندلی پر ہی تکیہ کیے ہوئے ہے اور اس کی امیدوں کا انحصار الیکٹرانک مشینوں پر ہے۔
الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ ان مشینوں کے استعمال سے الیکشن فراڈ اور روایتی دھاندلی کا تدارک نہ ہوسکے گا۔ دھاندلی کی متعدد پرانی اشکال جیسے پولنگ بوتھوں پر قبضہ، خواتین پولنگ بوتھوں پر کم ٹرن آئوٹ، دھاندلی کے لیے حکومتی مشینری کا استعمال، بیلٹ فراڈ، ووٹوں کی خریداری، قانون کی عملداری میں خلل اندازی، بد دیانت پولنگ سٹاف، اور سیاسی گروہوں کی پرتشدد کارروائیاں‘ اسی طرح جاری رہیں گی۔
جناب وزیراعظم کو کچھ وزرا اور کئی دوستوں نے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹوں کا سبزباغ دکھایا ہے جو میرے خیال میں ایک سراب سے زیادہ نہیں۔ اگر ملک میں متناسب نمائندگی کا انتخابی نظام رائج ہوتا تو پھر یہ ووٹ کسی پارٹی کی فتح یا شکست پر اثرانداز ہو سکتے تھے۔ ہم خود بھی 20 برس سے زیادہ اوورسیز پاکستانی رہے ہیں اور اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ 90 لاکھ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں میں سے ووٹروں کی تعداد چالیس لاکھ سے زیادہ نہیں۔ ان ووٹروں کی ٹرن آئوٹ اگر پچاس فیصد مان لی جائے اور یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ پونے تین سو حلقوں میں کاسٹ کیے جانے والے 20 لاکھ ووٹوں میں سے 10 لاکھ حکومتی پارٹی کو مل جائیں گے تو بھی حکومتی پارٹی کے امیدوار کو فی سیٹ چند ہزار یا چند سو ووٹ ہی مل پائیں گے۔ اگر ان ووٹوں کو کسی منصوبہ بندی کے تحت چند حلقوں میں ٹرانسفر کیا گیا اور اُن کا غلط استعمال کرکے سیٹیں جیتنے کا پروگرام بنایا گیا تو اس پر شدید ردعمل سامنے آسکتا ہے۔
ادھوری اور غیرتجربہ شدہ الیکٹرانک ووٹنگ ہو بھی گئی تو میرے خیال میں قریہ قریہ‘ کوچہ کوچہ شدید احتجاج ہوگا۔ متنازعہ انتخابات اور تصادم کی سیاست کا جو منظرنامہ ابھر رہا ہے وہ بدامنی اور انارکی کی طرف لے جائے گا۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور اپوزیشن کے ساتھ مل کر غیرمتنازعہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے وگرنہ ایک خوفناک منظرنامہ افق پر منڈلاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جو خدانخواستہ جمہوریت کی گاڑی کو ایک بار پھر پٹڑی سے اتارنے کا سبب بن سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں