آتے دنوں میں گم

ناصر کاظمی نے کہا تھا کہ
یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں
قارئین کرام! مجھے معلوم نہیں کہ ایک ہی دائرے میں گھومتی سیاست سے آپ گھبرائے ہیں یا نہیں، مگر میں تو گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پے در پے سیاسی کالم لکھ کر نہ صرف گھبرا گیا ہوں بلکہ اکتا چکا ہوں۔ ایسے میں ناصر کاظمی یاد آئے اور انہوں نے دل گرفتگی کا علاج بھی تجویز کر دیا‘ لہٰذا میں بھی آپ کو آج کوچۂ سیاست سے باہر لے چلوں گا۔
پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر نامور محقق، معروف ادیب اور اپنا منفرد طرزِ نگارش رکھنے والے نثرنگار ہیں۔ وہ عربی، فارسی اور ترکی زبان کے رمز آشنا ہیں۔ انہوں نے تنقیدی کتب لکھی ہیں اور تحقیقی و ادبی بھی۔ ایک دنیا اُن کے عالمانہ و ادیبانہ کمالات کی معترف ہے۔ اُن کی کتابوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ خود ڈاکٹر صاحب کو اپنی ساری تخلیقات و نگارشات کے نام یاد نہیں ہوں گے؛ تاہم اُن کی تازہ ترین منظرعام پر آنے والی نظمِ جدید کی کتاب ''آتے دنوں میں گم‘‘ نے مجھ جیسے طالب علم کو چونکایا اور ڈاکٹر خورشید رضوی، افتخار عارف اور امجد اسلام امجد جیسی ممتاز علمی و ادبی شخصیات کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ اِن حضرات نے نہایت فراخدلی کے ساتھ اس کتاب پر اپنی قیمتی آرا پیش کی ہیں۔ اسے میری کم علمی سمجھئے کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر شاعر بھی ہیں‘ اور شاعر بھی ایسے کہ جو اپنے دل کی نچلی تہوں میں سنائی دینے والی آہٹوں کو الفاظ و تراکیب کے خوبصورت پیراہنوں سے آراستہ کرکے دلوں پر دستک دینے کے فن سے بخوبی آگاہ ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب سے کئی دہائیوں کی آشنائی کے باوجود اُن کا علمی دبدبہ اور اُن کی نثرنگاری کی نرالی شان کو دیکھتے ہوئے میرے لیے کبھی اس خیال سے اتفاق کرنا آسان نہ تھا کہ وہ نظم جدید کے ایک ایسے شاعر ہیں جن کی نظمیں رمزوایمائیت کے خوش رنگ غلافوں میں لپٹے ہونے کے باوجود مکمل ابلاغ کے وصف سے مزین ہیں۔ اُن کی محبت اور ہجرووصال کی کیفیات کو بیان کرنے والی بعض نظموں کو دیکھ کر یہ گمان یقین میں بدل جاتا ہے کہ اُن کا کبھی کوچۂ جاناں سے بھی گزر ہوا ہوگا۔ اُن کی ایک نظم کا عنوان ہے ''کہاں ہو تم؟‘‘
جھروکے، جب جھکیں تو
نشہ سا چھا جائے منظر پر
کھلیں تو
روشنی ہو بام و در پر
وہ بے باکی تکلم جس میں گم ہو
کہاں ہو تم...؟
ڈاکٹر صاحب کی رومانی شاعری دیکھ کر ہمارے سامنے دو ہی امکانات آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جب اُن سے ہماری بے تکلفی ہوئی اس وقت تک وہ دامن نچوڑ کر فرشتوں کو وضو کرانے کا شرف حاصل کر چکے تھے۔ وہی جو خواجہ میر درد نے کہا تھا:
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
دوسرا امکان یہ ہو سکتا ہے اور یہی امکانِ غالب ہے کہ ڈاکٹر صاحب ریاض خیرآبادی کی طرح کے زاہد باعمل ہیں۔ ریاض خیرآبادی شاعر خمریات کے طور پر مشہور تھے۔ شراب نوشی کے بارے میں انہوں نے جو اشعار کہے‘ وہ کوئی رند بلا نوش ہی کہہ سکتا ہے مگر ساری عمر انہوں نے شراب کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔ ذرا خیرآبادی کا یہ شعر دیکھئے:
اچھی پی لی خراب پی لی
جیسی پائی شراب پی لی
ڈاکٹر صاحب کی نظموں کے عنوانات متنوع ہیں جن میں ایکو پریم، آنکھوں میں چھپے موتی اور مٹھیوں میں بند خواب جیسی رومانٹک نظمیں بھی ہیں اور دورِ جدید کی زندگی کی عکاسی کرتی ہوئی کریڈٹ کارڈ جیسی نظمیں بھی۔ ڈاکٹر صاحب کے تازہ ترین مجموعے کا نام ہے ''آتے دنوں میںگم‘‘ ہے جبکہ لوگ گئے دنوں میں گم ہوتے ہیں۔ آتے دنوں میں گم ہونے کا کنایہ اختیار کرکے ڈاکٹر صاحب نے اس خوبصورت خیال کا اظہار کیا ہے کہ ابھی تک وہ زندگی کی تگ وتاز میں پوری طرح منہمک ہیں اور اُن کا رشتۂ امید ابھی ٹوٹا بھی نہیں۔
دنیا کے مختلف شہروں اور ملکوں کے حوالے سے بھی انہوں نے نہایت خوبصورت نظمیں لکھی ہیں۔ ان نظموں میں اُن شہروں کے بارے میں کوئی سیاحتی معلومات نہیں بلکہ اُن علاقوں اور موسموں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے انہوں نے اپنی باطنی کیفیات کے بحرِ بیکراں کو نظموں کے کوزے میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ قلمبند کیا ہے‘ اور ایک دنیا کی نہیں کئی دنیائوں کی کہانی سنائی ہے جس میں اُن کی باطنی دنیا بھی شامل ہے۔ ایک نظم کا عنوان ہے ''محبت سے پہلے‘‘۔ اس کی چند سطور ملاحظہ کیجئے:
کسی روپ میں دلکشی نے بسیرا کیا ہی نہیں تھا
نئی زندگی اور نئے روز و شب ہیں
نئے سلسلوں میں سجی ہیں بہاریں
محبت سے پہلے تو کچھ بھی نہیں تھا
آنکھوں میں چھپے موتی کی چند سطور ملاحظہ کیجئے:
لیکن کسے فرصت ہے؟
رک کر وہ ہمیں تھامے
اور کون ہے جو روکے؟
ہر ایک کی دنیا کے
اپنے کچھ مسائل ہیں
ڈاکٹر صاحب تو آتے دنوں میں گم ہیں مگر اُن کی یہ نظم پڑھ کر ہمیں بیتے دنوں میں اپنی اپنی دنیائوں کے مسائل یاد آئے ہیں۔ اُن دنوں میں W.H. Davies کی نظم پڑھتے اور دل کو تسلی دیتے کہ زندگی بڑی ستم ظرف ہے۔ ڈیویز کی نظم Leisure کی چند سطریں دیکھئے:
What is the life if, full of care
We have no time to stand and stare?
No time to wait till her mouth can
Enrich that smile her eyes began?
ڈاکٹر زاہد منیر عامر ہمارے پیر بھائی ہیں۔ وہ اور میں ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کے شاگرد ہیں۔ ڈاکٹر صاحب عمر میں مجھ سے چھوٹے مگر مقام و مرتبہ میں مجھ سے بہت بڑے۔ اسی کتاب میں انہوں نے ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کی خدمت میں ہدیۂ تحسین اپنی نظم پارکھ میں پیش کیا ہے:
گزرتے وقت! اس کی مانگ میں عمر گریزاں کا نہ کوئی رنگ بھرتا
چمکتی، وقت کے اس پار تکتی، دور رس آنکھوں کے روشن آئینے میں
بال مت لانا
کہانی کا ہر اک کردار
اپنا راز اس پر کھولتا
زمانے سن!
ابھی وہ بولتا ہے
اگرچہ ڈاکٹر صاحب ''آتے دنوں میں گم‘‘ ہیں مگر انہوں نے نظم جدید میں بھی کلاسیکی زبان کے لب و لہجے کی مہک کو برقرار رکھا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں