ہم پیچھے کیوں رہ گئے؟

پروفیسر زبیر بن عمر صدیقی وسیع المطالعہ شخصیت ہیں۔ برسوں سے ڈیلس‘ امریکہ میں مقیم ہیں۔ وہ ایک ایسے طائر ہیں کہ جن کی آنکھ دوران ِپرواز بھی اپنے نشیمن‘ پاکستان پر رہتی ہے۔ لکھتے ہیں: ''برادرِ عزیز‘ کبھی مشکل سوالات کا جواب دینے کی سعی بھی فرمائیں۔ ہم بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہیں‘ سبب کیا ہے؟‘‘ صدیقی صاحب نے نہایت فکر انگیز سوالات اٹھائے ہیں۔ ہمارے اتنا پیچھے رہ جانے کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا دشمن کے خلاف گرم گفتاری اور طعنہ بازی کے تیر چلانے سے ہم کامیاب ہو سکتے ہیں؟ حقیقت پسندی اور حق گوئی کا تقاضا کیا ہے؟ ہمیں اپنے بارے میں کوئی اِدِّعا نہیں مگر...
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
آج ہم سیاسی‘ معاشی‘ اخلاقی اور سماجی حوالوں ے پستی کے جس درجے پر پہنچ چکے ہیں وہاں ہم دفعتاً نہیں پہنچے۔ انحطاط کی ڈھلان پر بالارادہ اور بلاارادہ لڑھکنے بلکہ لڑھکتے چلے جانے کے اسباب گزشتہ 75 برس کی قومی کہانی میں بہ آسانی جلی سرخیوں کے ساتھ قدم قدم پر نوشتہ ہائے دیوار کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نہ صرف ممتاز شاعر بلکہ دلِ دردمند رکھنے والے دانشور ہیں۔ انہوں نے ہماری خستہ حالی اور درماندگی کی تشخیص ایک آزاد نظم کی درج ذیل سطور میں کی ہے:
لیکن بھلا حادثہ ایک دم کب ہوا ہے
بہت دیر سے اس سربمہر آتشیں راز کا گنگ فیتہ
خموشی سے جلتا رہا تھا
فنا کے گرجتے ہوئے آبشاروں کے اوپر تنا
رسیوں کا پل
گلتا چلا جا رہا تھا
ہم پروفیسر صاحب کے سوالات کے جواب دینے کی ہر ممکن سعی کریں گے مگر پہلے آج کے ملکی منظرنامے پر ایک نظر ڈال لیں۔ اگلے روز پاکستان کے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے تسلیم کر لیا ہے کہ زرِمبادلہ کے ذخائر 6.7 ارب ڈالر کی انتہائی نچلی سطح پر آ گئے ہیں۔ یہ زرمبادلہ آئندہ تین ماہ کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کے نفاذ کے باوجود کوئی بڑا مالیاتی پیکیج نہیں ملا۔ دو روز قبل وزیر خزانہ نے سعودی سفیر سے اسلام آباد میں ملاقات کی اور سعودی عرب کے 3 ارب ڈالر ڈپازٹ میں توسیع پر اظہارِ تشکر کیا۔ اسحق ڈار نے ساتھ ہی مزید 3 ارب ڈالر نقد اور ایک ارب ڈالر کا تیل ایک سال کے لیے ادھار فراہم کرنے کی درخواست کی۔
مجھے حتمی طور پر معلوم نہیں کہ اس موقع پر سعودی سفیر نواف المالکی نے جواباً اسحق ڈار کو سرزمینِ حجاز کا وہ مشہور مقولہ مسکراتے ہوئے سنایا یا نہیں۔ مقولہ یہ ہے:
اِذا أخوک العسل لا تاکل کل
یعنی اگر تمہارا بھائی شہد ہے تو سارے کا سارا نہ کھا جائو۔
جناب ِڈار کشکولِ گدائی لے کر ان دنوں کبھی امریکی سفیر کے در پر‘ کبھی چینی سفیر کے دروازے پر اور کبھی ڈچ سفیر کے درِ دولت پر دستک دیتے نظر آتے ہیں۔ اُن کے چہرے پر اضطراب اور خدشات کی لہریں دیکھی جا سکتی ہیں اور اہلِ نظر انہیں پڑھ بھی سکتے ہیں۔ کیا یہ حالت ہوتی ہے ایک ایٹمی قوت کی؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
نومبر کے پہلے ہفتے میں وزیرِ خزانہ نے کہا تھا کہ پاکستان نے چین اور سعودی عرب کی جانب سے 13 ارب ڈالر کے مالیاتی پیکیج کے بارے میں مثبت اشارے ملے ہیں۔ اس میں 5.7 بلین ڈالر کے نئے قرضے بھی شامل ہیں۔ مالیاتی پیکیج کے تحت سعودی عرب سے 4.2 ارب ڈالر اور چین سے 8.8 بلین ڈالر آنے تھے۔ یہ ڈار صاحب کی خوش فہمی تھی جس کی بنا پر وہ بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے۔ گویا :
اُس اعتراف سے رس گُھل رہا ہے کانوں میں
وہ اعتراف جو اُس نے ابھی کیا بھی نہیں
اس ساری پیچیدہ معاشی صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے حکومت ادویات کے سالٹ اور سبزیوں کی درآمد کے لیے بھی تاجروں کو ڈالر نہیں دے رہی۔ کراچی بندرگاہ پر سینکڑوں کنٹینرز میں پیاز‘ ادرک اور صنعتی سامان وصول کرنے کے لیے بینک مطلوبہ زرِمبادلہ فراہم نہیں کر رہے۔ ان پریشان کن حالات میں 16 فیصد پاکستانی خطِ غربت سے بھی نیچے بھوک کی شدّت سے بے حال ہیں۔ان دنوں چینی صدر شی جن پنگ سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ ایشیا میں نئی اقتصادی صف بندیاں وجود میں آ رہی ہیں مگر ہم ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور دھمکیوں کے کھیل میں مگن ہیں۔ اب آئیے ان فکرانگیز سوالات کی طرف جو کالم کے آغاز میں اٹھائے گئے تھے۔
ہمارے اتنے پیچھے رہ جانے کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں؛ تاہم سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے چند ہی برس بعد سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی حکومت پر شب خون مارا۔ اس مار دھاڑ کا کہیں کہیں عدلیہ نے بھی ساتھ دیا۔ ہمارا پڑوسی ملک کہ جو ہمارے ساتھ آزاد ہوا تھا اس نے اداروں کو مضبوط کیا‘ جمہوریت کی آبیاری کی جبکہ ہم نے ہر آنے والے حاکم کی چاکری کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ ان حکمرانوں نے آئین کے تقدس کو پامال کیا اور اقتصادی و خارجہ امور کی پالیسیوں کے تسلسل کوبرقرار نہ رکھا۔
مختصر یہ کہ قائداعظمؒ کی وفات کے بعد محلاتی سازشوں کے تانے بانے بُنے گئے اور جمہوریت کو چلنے نہ دیا گیا۔ قانون کی حکمرانی کے گن تو بہت گائے گئے مگر 1958 ء میں ہی ایوب خان نے 1956 ء کے متفقہ جمہوری آئین کی بساط لپیٹ دی اور وہ خود 11 برس تک مختار ِکل کی حیثیت سے اقتدار پر قابض رہے اور جاتے جاتے اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کے حوالے کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر کے چلے گئے۔ یحییٰ خان نے ملک و قوم کے ساتھ کیا کچھ کیا وہ جاننے کے لیے جسٹس حمود الرحمن کی مفصل رپورٹ کے چند صفحات پر نظر ڈالنے سے آپ کو سب کچھ معلوم ہو جائے گا کہ ہماری درماندگی کے اصل اسباب کیا ہیں۔
اقتدار کی رسہ کشی کے علاوہ ہم اس وژن سے ہی محروم رہے کہ جو حقیقی آزادی و خودمختاری کی منزل کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے حکمران گزشتہ پندرہ بیس برس سے لیپ ٹاپ بانٹتے رہے جبکہ آج سے 60 برس قبل انڈیا نے انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی اسی فیوچر وژن کے مطابق بنیاد رکھی جس پر امریکہ نے ہارورڈ اور پرنسٹن میں ایسے ادارے قائم کیے تھے۔ آج امریکہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ سعودی عرب سے پٹرول‘ جاپان سے گاڑیاں اور کوریا سے ٹیلی وژن امپورٹ کرتا ہے جبکہ بھارت سے وہ تعلیم یافتہ نوجوان خاص طور پر انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سات کیمپسز سے آئی ٹی ماہرین امریکہ درآمد کرتا ہے۔ یہ ماہرین امریکی آئی ٹی ٹیکنالوجی میں زبردست انقلاب لے آئے ہیں۔
اُن کے مقابلے میں وہاں پاکستانی آئی ٹی ماہرین آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ زراعت‘ صنعت اور ٹیکنالوجی جیسے بہت سے شعبوں میں یارانِ تیزگام نے محمل کو جا لیا ہے اور ہم ابھی تک تخت نشینی کی جنگ میں اپنی تمام صلاحیتیں برباد کر رہے ہیں۔ ہم پیچھے اس لیے رہ گئے ہیں کیونکہ ہم خطِ مستقیم میں آگے بڑھنے کے بجائے ایک ہی دائرے میں سفر کر رہے ہیں۔ اور انہی غلطیوں کو شد و مد کے ساتھ دہرا رہے ہیں جن کی بنا پر ہم اس حالت کو پہنچے ہیں۔ جب تک ہمیں احساسِ زیاں نہیں ہو گا اس وقت تک کارِ آشیاں بندی کا آغاز بھی نہیں ہو سکا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں