خوبصورتی کا راز

تقریباً چار دہائیوں تک شہرت کی بلندیوں پر جلوہ گر ایکٹریس Audrey Hepburnسے اس کی خوبصورتی کا راز پوچھا گیا تو اس نے سوال کے جواب میں انگریزی میں ایک نظم لکھی۔ یہ خوبصورت نظم ایکٹریس کے جنازے میں بڑے سوز سے پڑھی گئی اور حاضرین کی آنکھیں نم کر گئی۔ یہ نظم شیئر کرنے سے پہلے آج کے اخباری قارئین سے آڈری ہیپ برن کا تعارف کروانا ضروری ہے۔ برطانوی ایکٹریس آڈری 4مئی 1929ء کو برسلز میں پیدا ہوئی اور 20جنوری 1993ء کو وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئی۔ آڈری کا تعلق ایک ایلیٹ فیملی سے تھا۔ وہ بلجیم‘ نیدر لینڈ اور انگلینڈ میں پروان چڑھی۔ ابتدائی طور پر اس نے تھیٹر اور ڈانسنگ وغیرہ کی تربیت حاصل کی۔ وہ ایک ایسی حیران کن اداکارہ تھی جو یکایک پہلی بار ایک کامیڈی فلم ''رومن ہالی ڈے‘‘ میں ہیروئن کے طور پر گریگوری پیک کے مقابل طلوع ہوئی اور پہلی پرفارمنس سے ہی فلمی دنیا پر راج کرنے لگی۔ یہ دنیا کی پہلی ایکٹریس ہے جسے سنگل پرفارمنس پر آسکر ایوارڈ‘ گولڈن گلوب ایوارڈ اور اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
رومن ہالی ڈے کے بعد تو گویا فلموں کی قطار لگ گئی۔ 1954ء سے لے کر 1967ء تک آڈری نے اپنی اداکاری کا معیار برقرار رکھتے ہوئے کئی مشہور فلموں میں کلیدی رول ادا کیا۔ ان فلموں میں The Nun's Story کا بہت چرچا ہوا۔ یہ ایک ایسی ایکٹریس تھی جس پر ہر ایوارڈ نثار ہونے کو بے قرار رہتا تھا۔ اس کی کئی فلموں میں پرفارمنس پر اسے بے شمار ایوارڈوں سے نوازا گیا۔ اس کی آخری اداکاری 1990ء میں ڈاکیو منٹری ٹیلی وژن سیریز Gardens of the World with Audrey Hepburnتھی۔
حیرت ناک بات یہ ہے کہ ایک نو عمر لڑکی اچانک دنیا کی عظیم اداکارہ کے مرتبے پر فائز ہو گئی۔ یہ اداکارہ ایک طرف کامیڈی اور مزاحیہ فلموں کی اداکاری میں جلوہ گر تھی مگر دوسری طرف دنیا کے لیے اس کا خاموش پیغام بقول ڈاکٹر خورشید رضوی یہ تھا کہ
مت سمجھو میرے تبسم کو مسّرت کی دلیل
جو مرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں
1954ء میں شہرت کی بلندیوں پر فائز محض 24سالہ لڑکی کے دل میں انسانیت کا درد بھی موجزن تھا۔ وہ اس وقت سے یونیسیف کے ساتھ وابستہ ہو کر دنیا کے غریب اور بے وسیلہ لوگوں کے دکھوں کو بانٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔ 1988ء سے لے کر 1992ء تک آڈری نے افریقہ‘ جنوبی امریکہ اور ایشیا کے غریب ترین طبقات کے پاس جا کر دکھی لوگوں کے زخموں پر بنفسِ نفیس مرہم رکھا اور اُن کے غموں میں کمی لانے اور اُن کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ آڈری اس وقت تک ایوارڈوں اور میڈلوں کی دنیا سے بہت ماورا ہو چکی تھی؛ تاہم 1992ء میں اسے امریکہ کا صدارتی ایوارڈ'' میڈل آف فریڈم‘‘ اس کی یونیسیف کی فلاحی سفیر کے طور پر ادا کی گئی خدمات کے اعتراف کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس ایوارڈ کے صرف ایک ماہ بعد آڈری 63برس کی عمر میں سوئٹزر لینڈ کے گھر میں دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔
اب آئیے اس نظم کی طرف جو آڈری نے ''خوبصورتی کا راز‘‘ بتانے کے لیے انگریزی میں لکھی تھی۔ اس نظم کی چند سطور کا ہم نے اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے‘ ملاحظہ فرمائیے:
ہونٹوں کی دلکشی کا راز یہ ہے کہ ان سے زندگی کی خوشیوں سے محروم لوگوں کے لیے ہمدردی و غمخواری کے پھول جھڑنے چاہئیں
اگر تم خوبصورت آنکھیں چاہتے ہوتو لوگوں کی آنکھوں میں جھانک کراُن کے من میں بسی ہوئی خوبصورتی کی فراخ دلی سے تعریف کرو
اگر دلکش بال چاہتے ہو تو پھر کسی معصوم بچے کو اُن کے اندر پیار سے ہاتھ پھیرنے دو
اگر تم دبلے پتلے اور سمارٹ نظر آنا چاہتے ہو تو پھر اپنے کھانے کو غریبوں کے ساتھ بانٹ کر کھاؤ
ٹوٹے ہوئے دل اور مشکلات میں گھرے لوگ اگر تم سے رجوع کریں تواُن کی محبت کے ساتھ دلجوئی کرو‘ اس سے تمہاری پرکشش شخصیت میں اور اضافہ ہوگا
جب تم بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھو گے تو تمہیں محسوس ہو گا کہ تمہارے دو ہاتھ ہیں ایک اپنی مدد اور دوسرا ضرورتمندوں کی مدد کے لیے
عورت کی خوبصورتی اس کے میک اپ میں نہیں بلکہ محبت و مدد کے اُن روحانی جذبات و احساس میں ہے جو وہ دوسروں کے لیے محسوس کرتی ہے
آڈری ہیپ برن نے کئی دہائیوں تک دلوں پر راج کرنے کے بعد دنیا سے وقتِ رخصت یہ راز بتا دیا کہ دلوں پر راج کرنا کمال نہیں‘ اصل کمال ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنا ہے۔
اپنے مدّاحوں کو تو آڈری ہیپ برن نے خوبصورتی کا راز بتایا ہے۔ مگر مجھے اس باکمال اداکارہ نے ''زندگی کا راز‘‘ سمجھا دیا ہے۔ زندگی کا مطلب نباتاتی و حیوانی سطح پر زندہ رہنا نہیں بلکہ زندگی وہی ہے جو صرف اپنے ہی نہیں دوسروں کے کام بھی آئے۔
دیکھئے برقی اعظمی برمحل یاد آتے ہیں:
نہ آئے کام کسی کے جو زندگی کیا ہے
بشر نواز نہ ہو جو وہ آدمی کیا ہے
زندگی کے کسی شعبے پر بھی نظر ڈال لیں انہی لوگوں کو اُن کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد یاد رکھا جاتا ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگی کو بشر نوازی کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ کسی نے اپنی زندگی کو قربان کر کے کروڑوں لوگوں کی زندگی کو بچا لیا‘ کسی نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کتے کے کاٹے کا علاج دریافت کرلیا۔ جتنی بھی طبی دریافتیں اور سائنسی ایجادات ہیں وہ سب انسانوں کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہیں۔
البتہ اس دنیا میں ہلاکو اور ہٹلر جیسے انسانوں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے انسانوں کے لیے اس دنیا کو جہنم بنا دیا۔ آج تیسری دنیا کے اکثر حکمرانوں نے انسانوں کے لیے اپنے ملکوں کو عقوبت خانہ بنا رکھا ہے جبکہ کینیڈا کے جسٹن ٹروڈو‘ جرمنی کی انجیلا مرکل اور نیوزی لینڈ کی جیسنڈا آرڈرن جیسے سیاستدان اپنے لیے نہیں خدمتِ عوام کے لیے جیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی الخدمت‘ اخوت اور ایدھی ٹرسٹ جیسی سینکڑوں تنظیمیں فلاحی کاموں میں مگن ہیں جبکہ لاکھوں لوگ خالق کو خوش کرنے کے لیے خلقِ خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔ جہاں تک ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا تعلق ہے انہوں نے مخلوق کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔
آڈری ہیپ برن کی نظم ''خوبصورتی کا راز‘‘ کا سبق یہ ہے کہ اپنے گرد و پیش کو بھول کر خوشیوں سے محروم لوگوں کے غم بانٹو اور اُن کے چہروں پر مسرت و شادمانی لانے کے لیے اُن کی ہر ممکن مدد کرو۔ یہی خوبصورتی اور یہی زندگی کا راز ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں