اگر کسی خاندان کو اپنے اجداد کا کوئی نامعلوم دفینہ اچانک مل جائے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ تاہم اس قوم کی خوشی کا کیا عالم ہوگا جس کی متاعِ گم گشتہ ایک صدی کے بعد دریافت ہو جائے۔ یہ قومی‘ ادبی و تاریخی خزانہ علامہ اقبالؒ کے معتمدِ خاص چودھری محمد حسین اور اُن کی وفات کے بعد اُن کے خانوادے کی تحویل میں رہا۔ چودھری محمد حسین کے پوتے ڈاکٹر ثاقف نفیس اس قومی امانت کو تقریباً 85 برس کے بعد منظر عام پر لے آئے۔ تاہم اس امانت کو تدوین و ترتیب کے جاں گسل مراحل سے گزار کر قارئین تک پہنچانے کا عظیم کارنامہ ملک کے نامور محقق اور مصنف جناب ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے انجام دیا۔ یہ سب حضرات قوم کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں۔
ذرا دیکھئے علامہ محمد اقبال ایک بزرگ کے لیے دلی جذبات کا یوں اظہار کر رہے ہیں۔ ''میں آپ کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس نگاہ سے کوئی مرید اپنے پیر کو دیکھتا ہے اور وہی محبت و عقیدت اپنے دل میں رکھتا ہوں۔ خدا کرے وہ وقت جلد آئے کہ مجھے آپ سے شرفِ نیاز حاصل ہو اور میں اپنے دل کو چیر کر آپ کے سامنے رکھ دوں‘‘۔
اقبال اتنی محبت و الفت اور عقیدت کا جس شخصیت کے بارے میں اظہار کر رہے ہیں وہ لسان العصر جناب حضرت اکبر الہ آبادی تھے۔ اکبر اس عالمِ رنگ و بُو میں اقبال سے کوئی تیس برس قبل آئے تھے۔ اکبر الہ آبادی اور اقبال کے درمیان تقریباً دس گیارہ برس تک نہایت تیز رفتاری کے ساتھ مراسلت ہوتی رہی۔ ان خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال جنابِ اکبر کے لیے محبت و عقیدت کے بے پایاں جذبات رکھتے تھے جبکہ اکبر اقبال کے لیے دلی محبت و انبساط اور شفقت کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔ اکبر الہ آبادی کی نگاہِ دوربیں نے پہچان لیا کہ اقبال کی صورت میں آسمانِ علم و ادب پر جو آفتاب روشن ہوا ہے اس کی کرنیں نہ صرف مسلمانانِ ہند بلکہ امتِ مسلمہ کو مایوسی و تاریکی سے ضرور نجات دلائیں گی۔
1911ء میں ہی ایک اور خط میں اقبال نے جنابِ اکبر کو لکھا کہ آپ کے خطوط جو میرے پاس محفوظ ہیں بار بار پڑھتا ہوں اور تنہائی میں یہی خاموش کاغذ میرے ندیم ہوتے ہیں۔1914ء کے ایک خط میں اقبال نے لکھا کہ ''حضرت میں آپ کو اپنا مرشدتصور کرتا ہوں‘‘۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی زندگی میں کئی بار یہ اظہار بھی کیا وہ ان خطوط کو مرتب کر کے افادۂ عام کی خاطر شائع کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ وقت گزرتا رہا اور یوں اقبال کے اس دارِ فانی سے کوچ کے بعد یہ خطوط رفتہ رفتہ پردئہ اخفا میں چلے گئے۔ دیکھئے اکبر اور اقبال بیسویں صدی کے دو عظیم عبقری تھے۔ ان دونوں زعما کے درمیان ہونے والی ملّی وعلمی نوعیت کی اس طویل مکاتبت تک رسائی کے لیے تشنگانِ علم اور محبانِ اکبر و اقبال کو ایک صدی تک بے چینی سے انتظار کرنا پڑا۔ نسل در نسل یہ انتظار چلتا رہا۔
جنابِ اکبر الہ آبادی کی رحلت 1921ء میں ہوئی۔ اس کے ٹھیک 103 برس بعد اقبال کے نام اکبر کے یہ133 غیر مطبوعہ خطوط اردو داں‘ فارسی کے رمز شناس اور عربی زبان سے گہری شناسائی رکھنے والے جناب ڈاکٹر زاہدمنیر عامر تک کیسے پہنچے‘ یہ ہم آپ کو کالم کے آخر میں بتائیں گے۔تاہم جب یہ علمی خزانہ ڈاکٹر صاحب تک پہنچا تو وہ فوری طور پر شب و روز اس کی تدوین و ترتیب میں جت گئے۔ یہ کام کسی کمپوزر کو نہیں دیا جا سکتا تھا کیونکہ غیر مطبوعہ ہاتھ سے لکھے ہوئے خطوط کو پڑھنا‘سمجھنا اور کہیں کہیں مدہم عبارتوں کو کمپیوٹر پر ایڈٹ کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ بہرحال اکبر الہ آبادی کے اقبال کے نام خطوط کا یہ خزانہ نئی کتاب ''اکبر بنام اقبال‘‘ میں ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے بصد شوق کروڑوں قدردانوں کی خدمت میں پیش کر دیا ہے۔
اوپر آپ اکبر الہ آبادی کے لیے اقبال کی عقیدت و محبت کا ذکر پڑھ چکے ہیں‘ اب ذرا اکبر الہ آبادی کے اقبال کے لیے محبت و شفقت کے جذبات اُنہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے۔اکبر لکھتے ہیں کہ ''خیر اس بات کی خوشی ہوئی کہ میرے روحانی دوست نے مجھ کو تحفہ عنایت فرمایا...‘‘۔ اقبال نے زعفران کا تحفہ بھیجا تھا۔
19 اکتوبر 1911ء کے خط میں اکبر اقبال کو لکھتے ہیں۔ ''آپ کے دردِ دل اور خوشیِ خاطر کا اندازہ نظم طرابلس سے ہو سکتا ہے۔ خدا آپ کو اور سب مسلمانوں کو شاد کام کرے۔ مسلمانوں کو جمع ہو کر خشوع و خضوع سے دعا کرنی چاہیے‘‘۔تقریباً اپنے ہر خط میں اکبر الہ آبادی اقبال کو غیروں کی ستم ظریفی اور مسلمانوں کی پریشاں حالی کی طرف متوجہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اکبر‘ اقبال کی اپنے لیے عقیدت جاننے کے باوجود ان کے نام اپنے خطوط کا بالعموم ان الفاظ پر اختتام کیا کرتے تھے آپ کا نیاز مند‘ آپ کی دید کا مشتاق وغیرہ۔
اقبال نے اپنے خطبہ علی گڑھ میں اکبر کو اپنی قوم کے دکھوں کی حقیقت کا سب سے بڑا ادراک کرنے والا شاعر کہا تھا۔ اکبر اقبال کے بارے میں ایک شعر میں یوں ارشاد فرماتے ہیں ؎
دعویٰ علم و خرد میں جوش تھا اکبرؔ کو رات
ہو گیا ساکت مگر جب ذکرِ اقبال آ گیا
دیکھئے اقبال اپنے مرشد کے لیے کیا فرماتے ہیں:
رنگ یہ مخصوص ہے اقبالؔ اکبر کے لیے
ہر سخن ور کی یہاں طبعِ رواں جاتی ہے رُک
اقبال کے نام ہر خط میں اکبر الہ آبادی اشتیاقِ ملاقات کا ذکر کرتے۔ تاہم وہ اپنے بڑھاپے اور بیماریوں کے غلبے کی بنا پر لاہور نہ آ سکے۔ البتہ جواں سال اقبال اپنے مرشد سے ملاقات کے لیے تین بار الہ آباد گئے اور خوب دل سے دل کی باتیں ہوئیں جس سے قدرے تسکین ملتی تھی۔
اب آئیے اکبر الہ آبادی کے انتقال کے 103 برس بعد ان کے خطوط بنام اقبال کے منظرِ عام پر آنے کی رودادکی طرف۔ اقبال کے معتمد خاص چودھری محمد حسین صاحب کے پاس اکبر کے تحریر کردہ وہ سارے خطوط اصل حالت میں محفوظ تھے۔ اُس زمانے میں فوٹو سٹیٹ مشین تو نہ تھی تاہم احتیاط کے نقطۂ نظر سے ان خطوط کی چودھری صاحب کے اپنے ہاتھ سے تیار کردہ نقول اب تک موجود ہیں۔چودھری محمد حسین صاحب علامہ اقبال کے 1938ء میں انتقال کے بعد 12 برس تک حیات رہے مگر انہوں نے بھی ان خطوط کی اشاعت کا کوئی اہتمام نہ کیا اور 1950ء میں ان کی وفات کے بعد سے لے کر 2024ء تک ان کا خانوادہ بھی اس عظیم تاریخی و ادبی امانت کو قوم کے سپرد نہ کر سکا۔
بالآخر اقبال کی وفات کے تقریباً 85 برس بعد ڈاکٹر ثاقف نفیس اس قومی ورثے کو اقبال اکیڈمی لے گئے تاہم بعض امور پر عدم اتفاق کی بنا پروہاں اس اثاثے کی اشاعت ممکن نہ ہو سکی۔پھر ڈاکٹر ثاقف نفیس نے ڈاکٹر زاہد منیر صاحب سے ملاقات کی اور یہ کہہ کر کہ آپ ہی اس کام کو انجام دینے کے اہل ہیں‘ لہٰذا یہ ذمہ داری قبول کریں۔ایک سال کی محنت شاقہ کے بعد ڈاکٹر زاہد منیر اس کتاب کو منظر عام پر لے آئے تو بعض ادبی مہربانوں نے سوشل میڈیا پر اس کتاب کے مرتب کے خلاف ایک ناقدانہ و معاندانہ بحث چھیڑ دی ہے۔ ایک صدی کے بعد منظرِ عام پر آنے والی اس اہم کتاب کو کسی کنفیوژن کا شکار کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ تالیف کی شائع کردہ کتاب ''اکبر بنام اقبال‘‘ خوشبو کی طرح مشتاقانِ اکبر و اقبال تک پہنچنی چاہیے۔ہم نے ڈاکٹر ثاقف نفیس صاحب کا موقف جاننے کیلئے ان سے رابطے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہو سکی۔