اس وقت پاکستان سمیت ساری دنیا امریکہ کے دوسری بار منتخب ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بلند بانگ دعووں کے بارے میں تبصروں اور تجزیوں میں مصروف ہے‘ مگر اصل فکر انگیز اور قابلِ غور باتیں تو برنی سینڈرز کی ہیں۔ ممتاز امریکی سینیٹر نے کیا کہا ہے‘ اس کے بارے میں تفصیل سے بات کریں گے مگر پہلے ذرا ٹرمپ صاحب کے دعووں کا جائزہ بھی لے لیں۔
نومنتخب امریکی صدر نے سب سے اہم بات یہ کی ہے کہ امریکہ سے غیرقانونی تارکینِ وطن کو بے دخل کیا جائے گا۔ حکومتی سنسر شپ ختم کی جائے گی اور امریکہ میں 150 برس سے نافذ پیدائشی حقِ شہریت کو بھی رد کیا جائے گا۔ امریکہ کو اشیا برآمد کرنے والے ہر ملک پر ٹیرف اور ٹیکسز عائد کیے جائیں گے۔ عوام پر ٹیکس کم اور مہنگائی ختم ہو گی۔ صرف مرد اور عورت ہیں‘ تیسری جنس کوئی نہیں۔ تعلیمی نظام میں تبدیلیاں لائی جائیں گی اور امریکی محکمہ انصاف سے کرپشن کا خاتمہ ہو گا‘ وغیرہ وغیرہ۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وسیع تر ایجنڈے کی کچھ باتیں تو بہت اچھی ہیں اور کچھ باتوں میں بے حد تضاد ہے اور کچھ دعووں کو عملی جامہ پہنانا نہایت دشوار ہو گا۔ جنس کے انتخاب کے آزادانہ حق سے امریکہ میں ہی نہیں بلکہ اس کی اندھا دھند تقلید کرنے والے دیگر ممالک میں بھی معاشرتی ڈھانچے کے درہم برہم ہونے کے شدید خدشات لاحق ہو گئے تھے۔ اب اگر ایک مرد یہ کہتا ہے کہ میں تو دراصل عورت ہوں‘ اسی طرح بہت سی عورتیں مرد ہونے کی دعویدار بن کر سامنے آئیں تو کیا کیا قیامتیں کھڑی ہو جائیں گی‘ آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس کنفیوژن کا خاتمہ بہت ضروری تھا۔
جس طرح لباس و تراش خراش کے بارے میں جب ایک فیشن امریکہ یا یورپ سے چلتا ہے تو پھر اس کا عکس دنیا کے ہر خطے میں دکھائی دیتا ہے اسی طرح جمہوری اور نام نہاد جمہوری ملکوں میں بھی یہ انتخابی فیشن بن گیا ہے کہ ایسے غیرحقیقت پسندانہ نعرے بلند کیے جائیں کہ عوام خود بخود آپ کی طرف یوں کھنچے چلے آئیں جیسے سکے مقناطیس کی طرف لپکتے ہیں۔ عوامی سیاست کا یہی فیشن ٹرمپ نے بھی الیکشن مہم کے دوران اپنائے رکھا۔ ایک طرف ان کا کہنا ہے کہ امریکی عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ کم اور مہنگائی ختم ہو گی اور دوسری طرف وہ چین‘ ویتنام‘ بنگلہ دیش اور پڑوسی ملک کینیڈا وغیرہ سے درآمد کی جانے والی اشیا پر بھاری ٹیکس لگا کر انہیں مزید مہنگا کر دیں گے۔ اگر ان اشیائے صرف کی مینوفیکچرنگ امریکہ میں شروع کر دی جائے گی تو چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی۔
ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک میں صرف قانونی طریقے سے آنے والے لوگوں کو آنے دے اور غیر قانونی طریقے سے آنے والے لوگوں کا ملک میں داخلہ بند کر دے۔ اسی طرح ملک میں چوری چھپے‘ غیرقانونی طریقے سے کام کرنے والوں کو بے دخل کرنے کا بھی ہر ریاست استحقاق رکھتی ہے‘ تاہم اپنا سب کچھ خرچ کر کے امریکہ میں ایک سنہری مستقبل کی تلاش میں آنے والوں کو جرائم پیشہ اور منشیات فروش قرار دینا کسی طرح بھی قرینِ انصاف نہیں۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق امریکہ میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ تک غیرقانونی تارکینِ وطن ہیں۔ ان سب کو امریکہ سے نکال باہر کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ ان میں سے 40 لاکھ کا تعلق میکسیکو سے ہے‘ ساڑھے سات لاکھ بھارتی ہیں‘ اتنے ہی ایل سلوا ڈور کے شہری ہیں۔ غیرقانونی بھارتیوں میں 20 ہزار تو پہلے ہی حراستی کیمپوں میں ہیں۔ ان سب غیرقانونی تارکین کو اپنے اپنے ملکوں کو واپس بھیجنے پر زرِکثیر صرف ہوگا۔ اس کی ادائیگی کون کرے گا‘ یہ واضح نہیں۔ غیرقانونی تارکین میں پاکستانیوں کی کوئی زیادہ تعداد نہیں۔ ٹرمپ نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو بھی للکارا ہے مگر یہ واضح نہیں کہ ان کا اشارہ کس طرف ہے؟ اگر ان کا اشارہ امریکہ میں ڈیپ سٹیٹ کی طرف ہے تو ٹرمپ سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ اس کی جڑیں بہت ڈیپ ہیں۔
برنی سینڈرز نے جو چونکانے والی باتیں کی ہیں‘ ان کے ذکر سے پہلے ایک بار آپ کو یاد دلا دوں کہ موصوف کون ہیں۔ 83سالہ‘ بار بار منتخب ہونے والے سینیٹر ایک بااصول‘ آزاد سیاستدان اور تھنکر ہیں‘ تاہم ان کی آزادی ویسی ہی ہے جیسے باغ میں صنوبر کی ہوتی ہے۔ ایک طرف سربفلک اور دوسری طرف پابہِ گل ۔ وہ آزادی کے باوجود ڈیمو کریٹک پارٹی سے وابستہ بھی ہیں۔ 2016ء میں انہوں نے ڈیمو کریٹس کی طرف سے صدارتی امیدوار بننے کی ریس میں حصہ لیا تھا مگر اس دوڑ میں انہیں کامیابی نہ ملی تھی۔ امریکی سیاستدانوں میں وہ نہایت پتے کی بات کہنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کے موجودہ انتخاب کے بعد انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ معیشت اور امریکی جمہوریت کے بارے میں نہایت فکر انگیز گفتگو کی ہے۔ سینڈرز نے کہا کہ ہم سب یہ کہتے نہیں تھکتے کہ روس میں جمہوریت نہیں بلکہ Oligarchy ہے‘ یعنی وہاں مٹھی بھر لوگ کروڑوں انسانوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔ اسی حوالے سے صدر پوتن پر تنقید کی جاتی ہے۔ مدبر سیاستدان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور دنیا کے اکثر ممالک میں چند لوگوں کی ہی سیاسی و معاشی حکمرانی رائج ہے۔ 2020ء سے لے کر اب تک دنیا میں پانچ ارب لوگ پہلے سے زیادہ غریب ہوئے ہیں جبکہ دنیا کے پانچ امیر ترین افراد کی دولت ان چار پانچ برسوں میں دو گنا ہو گئی ہے۔ امریکی سینیٹر کی ثقہ معلومات کے مطابق دنیا کے امیر ترین شخص جس کی دولت 427 بلین ڈالر تھی‘ اس میں امریکی الیکشن کے دن سے اب تک 120 بلین ڈالرز کا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ گزشتہ ایک مہینے کے دوران جیف بیزوس کی دولت میں 67 بلین ڈالرز اور تیسرے نمبر کے امیر ترین امریکی کی دولت میں ایک سال کے دوران 90 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ خلاصہ یہ کہ دنیا کے دو‘ چار امیر ترین لوگوں کی دولت میں ناقابلِ یقین اضافہ ہو چکا ہے۔ برنی سینڈرز کے بقول یہ امیر ترین لوگ سیاستدانوں کو بھاری فنڈ دے کر حکومتوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہیں۔ امریکہ میں یہ ارب پتی الیکشن خریدتے ہیں۔ حالیہ انتخاب میں صرف اکیلے ایلون مسک نے ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن فنڈ میں 277 ملین ڈالر دیے تھے۔ یہ لوگ ملین میں فنڈز دے کر ٹریلین کے فائدے اٹھاتے ہیں۔
امریکہ کے اس محبوب و مقبول مدبر نے صرف چند منٹوں کے کلپ میں سرمایہ دارانہ معیشت اور نام نہاد جمہوریت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں ''جمہوری لبادے‘‘ کا تکلف بھی نہیں کیا جاتا۔ جہاں یہ تکلف ہے وہاں بھی نام نہاد انتخابات دولت اور طاقت کی مشترکہ قوت سے دبوچ لیے جاتے ہیں۔ اقبالؒ کی دور اندیشی کی داد دیجیے کہ انہوں نے تقریباً ایک صدی قبل ہی سرمایہ دارانہ معیشت کی اصل حقیقت بھانپ لی تھی:
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات!
''روزِ مکافات‘‘ کی آمد کے آثار تو ہویدا ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس کی جگہ کون لے گا۔ دنیا کمیونزم کے ظالمانہ نظام کا تجربہ کر کے اسے مسترد کر چکی ہے۔ 57 مسلم ممالک میں سے کسی ایک ملک میں بھی اسلامی نظامِ معیشت و سیاست موجود ہوتا تو دنیا کے سامنے بطور ماڈل پیش کیا جا سکتا تھا۔ ساری مسلم دنیا میں کہیں ملوکیت‘ کہیں آمریت اور کہیں نام نہاد جمہوریت کے نام پر چند لوگ ہی طاقت و دولت کے سر چشموں کے مالک و مختار ہیں۔