امریکہ پلیٹ فارم پر انتظار نہیں کرے گا

بدھ کے روز جب یہ کالم آپ کی نظر سے گزرے گا تو اُس وقت تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرقِ وسطی کے دورے کی پہلی اور سب سے اہم منزل سعودی عرب پہنچ چکے ہوں گے۔ یہ دورہ شروع ہونے سے قبل وائٹ ہاؤس کے ترجمان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تاریخی معاہدے میں اسرائیل بھی شامل ہو گا؟ جس کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ یہ تاریخی ٹرین اسرائیل سے چھوٹ چکی ہے اور امریکہ پلیٹ فارم پر اس کا انتظار نہیں کرے گا۔
گزشتہ چند روز سے دنیا کے سامنے ڈونلڈ ٹرمپ کا مفاہمت پسندانہ رُخ نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ ہفتے سعودی عرب اور ترکیہ کے ساتھ مل کر پاکستان اوربھارت کے درمیان تیزی سے پھیلتی ہوئی جنگ رکوانے کے لیے شٹل ڈپلومیسی سے کام کیا اور پھر صدر ٹرمپ نے دونوں ملکوں کے مابین جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اس طرح دو ایٹمی قوتوں کے مابین بڑی جنگ کے خطرات کو بھرپور دلچسپی لے کر ٹال دیا گیا۔
اس کے علاوہ دنیا کے سامنے یمنی حوثیوں کے ساتھ امریکی معاہدہ بھی ایک خوش گوار حیرت کے طور پر سامنے آیا۔ اس کے بارے میں خود صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا کہ حوثیوں نے ہمارے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے سے اجتناب کا ارادہ ظاہر کیا تو ہم نے بھی اُن پر حملوں کا سلسلہ بند کرنے کا وعدہ کیا۔ امریکہ نے یہ ڈیل اسرائیل کی شمولیت اور رضامندی کے بغیر کی۔ تاہم حوثیوں کی لیڈر شپ نے واضح کیا کہ اسرائیل اس معاہدے میں شامل نہیں‘ لہٰذا اسرائیل کے خلاف ہماری کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک کہ وہ غزہ میں مکمل جنگ بندی نہیں کر دیتا۔
امریکی صدر کے سعودی عرب پہنچنے سے پہلے غزہ میں ایک مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ گزشتہ کئی روز سے حماس اور امریکہ کے درمیان ایک اسرائیلی امریکی یرغمالی کی رہائی کے لیے مذاکرات ہو رہے تھے۔ حماس نے اتوار کے روز 21 سالہ اسرائیلی امریکی سپاہی ایڈن الیگزانڈر کو رہا کر دیا۔ صدر ٹرمپ نے بھی اپنے ٹویٹ میں اس حوالے سے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ یہ عمل اسرائیل اور غزہ کی جنگ رکوانے میں ایک اہم قدم ثابت ہو گا۔ مقبول اسرائیلی جریدےHaaretz کی خبر کے مطابق گزشتہ دنوں ایک اہم امریکی نمائندے سٹیوٹ کاف نے تل ابیب میں حماس کی تحویل میں اسرائیلی یرغمالیوں کے خاندانوں سے ملاقات کی۔ امریکہ کے اس ایلچی نے ان خاندانوں کو بتایا کہ حماس کے ساتھ مذاکرات اور غزہ میں جنگ بندی ہی ان کے پیاروں کی رہائی کے عمل کو تیز کرے گی۔ اگر اس کے برعکس اسرائیل نے اہلِ غزہ کے خلاف مزید طاقت کا استعمال کیا تو اسرائیلی قیدیوں کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔
دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو یہ دھمکیاں دے رہا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے دورے کے بعد بھی یرغمالی رہا نہیں ہوتے تو وہ غزہ پر اندھا دھند حملے کرے گا اور اس وقت تک نہیں رُکے گا جب تک کہ اسے تمام مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو جاتے۔ اس بدمست اسرائیلی فیلِ بے زنجیر کو مزید حماقتوں سے روکنا ان کی ہی ذمہ داری ہے جن کی شہ پر وہ یہاں تک پہنچا ہے۔
اب تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ شرقِ اوسط کے ایجنڈا کے جو کچھ نکات سامنے آئے ہیں ان کے پیشِ نظر امریکی صدر کے اس دورے کا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ سعودی عرب سے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری حاصل کی جائے تاکہ امریکی تجارتی خسارے میں کمی آ سکے۔ شنید یہ ہے کہ سعودی عرب اس موقع پراگلے چار برس کے دوران امریکہ میں 600بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس طرح حالیہ مہینوں میں امریکہ میں سعودی سرمایہ کاری کا مجموعی حجم ایک ہزار ارب ڈالر ہو جائے گا۔
اس دورے کے ایجنڈا میں غزہ میں اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ رکوانا بھی ایک اہم نکتے کے طور پر شامل ہے۔ تاہم سعودی عرب کو عالم اسلام ہی نہیں دنیا کے کروڑوں انسانیت دوست لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کو ایجنڈا کے دیگر نکات میں ضروری شرط قرار دینا چاہیے۔ ڈیل آف دی سنچری کا ایک اہم ترین نکتہ یہ بھی ہے کہ امریکہ سعودی عرب کے ساتھ سویلین نیو کلیئر پروگرام ڈیل بھی کرے گا۔ اب تک کی خبروں کے مطابق یہ تاریخی معاہدہ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات نارمل کرنے سے مشروط نہیں ہو گا۔
سعودی عرب میں دو روز تک مختلف سرمایہ کاری کانفرنسوں میں شرکت اور دیگر دو طرفہ گفت و شنید کے بعد امریکی صدر 15 مئی کو قطر جائیں گے۔ وہاں بھی اسی طرح کے اقتصادی اور سفارتی پروگراموں پر بات چیت ہو گی۔ اکتوبر 2023ء سے لے کر اب تک غزہ پر اسرائیلی حملے رکوانے میں قطر پیش پیش رہا ہے۔ دیگر ملکوں کے ساتھ قطر کی کوششوں سے ہی غزہ اسرائیل کی جنگ بندی ہوئی تھی۔ یقینا وہاں بھی غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت رکوانے کے لیے دونوں ممالک کے مابین بات چیت ہو گی۔ اس وقت بھی اسرائیل غزہ میں نہتے شہریوں پر کبھی بمباری اور کبھی گولہ باری کر رہا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے داخلی راستوں پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے۔ اس جنگ زدہ ریاست میں خوراک کی فراہمی سرخ لائن سے بھی نیچے چلی گئی ہے۔ اگر خدانخواستہ اگلے چند دنوں میں غزہ کے داخلی راستے نہیں کھلتے تو وہاں شدید نوعیت کے قحط کا خدشہ ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کا آخری پڑاؤ متحدہ عرب امارات ہے۔ یہاں وہ تجدیدِ ملاقات کے علاوہ بھی خطے کے امن و امان اور اپنے دورے کے ثمرات و نتائج کو حتمی شکل دیں گے۔ اس سے پہلے امریکہ جنیوا میں چین کے ساتھ تجارتی معاہدہ کر چکا ہے۔ امریکی مندوب کا کہنا ہے کہ اس طرح ہمیں 1200 ارب ڈالر کے خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ دو طرفہ ٹیرف میں بھی کمی کی گئی ہے۔
انڈیا پاکستان جنگ بندی کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ دہائیوں پرانا مسئلہ کشمیر حل کرانے میں مدد دیں گے تاکہ خطے میں مستقل امن قائم ہو۔ امریکی صدر کے عالمی امن کے لیے گزشتہ چند ہفتوں کے اقدامات سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے دورے کے اختتام سے پہلے اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ بندی کو اس طرح سے یقینی بنائیں گے جیسے انہوں نے پاکستان اور بھارت کو سیز فائر پر رضامند کیا تھا۔حالات نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی قیام امن کے لیے تاریخی کردار ادا کریں۔ خطے میں مستقل امن کے لیے اہلِ فلسطین کی خود مختار ریاست کا قیام ازبسکہ ضروری ہے۔ اسرائیل کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ پیغام نہایت واضح ہے کہ امریکہ پلیٹ فارم پر انتظار نہیں کرے گا۔ اسرائیلی عوام کے موڈ سے یہی لگتا ہے کہ وہ نیتن یاہو کو اس پیغام کا مفہوم سمجھنے پر مجبور کر دیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں