چند روز قبل ٹیکساس کے ایک شہر کی بڑی مسجد کے باہر ایک ساڑھے چھ فٹ کا گورا امریکی کاؤ بوائے فلیٹ ہیٹ پہنے کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بیگ تھا جس میں شجر کاری کے لیے زیتون کے درخت کی قلمیں تھیں۔ وہ یہ قلمیں تقسیم کر رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ تلقین بھی کر رہا تھا کہ آپ نے گھر کے بیک یارڈ یا اپنے لان میں انہیں ضرور لگانا ہے۔ چند روز کے بعد وہی امریکی پھر نظر آیا‘ اس بار وہ پھولوں کے بیج بانٹ رہا تھا۔
قرآن و حدیث میں زیتون کے مقدس شجر کا بہت تذکرہ آیا ہے۔ سورۃ التین میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''انجیر کی قسم اور زیتون کی اور طور سینا کی اور اس امن والے شہر (مکہ) کی۔ ہم نے انسان کو بہترین انداز سے پیدا کیا ہے‘‘۔ یہ انسان کے ظاہری و باطنی اوصاف کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر امکانات کی ایک وسیع کائنات بس رہی ہے۔ نزول قرآن سے لے کر آج تک ان امکانات کا اظہار وسیع تر علوم اور سائنس کے کرشموں کی صورت میں دنیا کے سامنے آتا چلا جا رہا ہے۔ انجیر و زیتون کے جملہ فوائد احادیث میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے تفسیر قرآن میں اس خیال کا اظہار فرمایا ہے کہ انجیر و زیتون سے مراد شام و فلسطین کے وہ مقامات ہیں جہاں ان پھلوں کے باغات ملتے تھے۔ ان مقامات پر بہت سے انبیاء کرام پیدا ہوئے تھے۔ بعض مفسرین کی تحقیق کے مطابق انجیر اس شہر کا نام تھا جو آج دمشق ہے اور زیتون بیت المقدس کو کہتے تھے۔ طور سینا اس پہاڑ کا نام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رب ذوالجلال سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ طب و سائنس کی جدید ریسرچ کے مطابق یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انجیر کے انسانی صحت کیلئے وسیع تر فوائد ہیں۔آج دنیا بھر کے ڈاکٹر زیتون کے تیل کو دل کیلئے سب سے زیادہ مفید گردانتے ہیں کیونکہ اس میں چکنائی کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ دنیا کے خشک پہاڑوں پر کسی لمبی چوڑی نگہداشت کے بغیر یہ درخت بکثرت اُگتا ہے۔ شجرِ زیتون کے بارے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس کی عمر بہت طویل ہوتی ہے۔500برس سے لے کر ڈیڑھ ہزار برس تک۔
دیکھیے حسن عباسی نے اس حوالے سے کیا بامعنی اور خوبصورت شعر کہا ہے:
مرتی ہوئی زمین کو بچا لانا پڑا مجھے
بادل کی طرح دشت پر آنا پڑا مجھے
اس پس منظر میں مذہبی رجحانات و تعلیمات رکھنے والے امریکیوں کا اس درختوں کی بکثرت کاشت کی طرف لوگوں کو مائل کرنا بہت معنی خیز ہے۔یہ الگ بات کہ ہم دیگر بہت سے کاموں کی طرف زیتون کی کاشت کاری کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ وگرنہ پوٹھوہار‘ بلوچستان اور دیگر کئی علاقوں کے نسبتاً خشک پہاڑ پاکستان میں موجود ہیں۔ ان بنجر و ویران پہاڑوں کو زیتون کے لہلہاتے باغوں میں بدلا جا سکتا ہے اور اربوں کے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
بعد ازاں مجھے معلوم ہوا کہ اس طرح کے درختوں کے شیدائی امریکہ میں کہیں کہیں دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کا کام روزگار تو کوئی اور ہوتا ہے مگر وہ زمین کے حسن کو درختوں‘ پودوں اور پھولوں سے چار چاند لگانے کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔ اپنا اپنا شوق اورذوق ہے۔ یاس یگانہ چنگیزی یاد آتے ہیں: جیسی جس کے گمان میں آئی
اب تو کچھ برس سے وسیع تر معنوں میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے دنیا سرگرم عمل ہوئی ہے مگر درختوں اور جنگلوں کے تحفظ کے لیے کثیر تعداد میں لوگوں کے ہاں بہت پہلے سے شعور و ادراک پایا جاتا تھا۔ 1970ء کی دہائی کے اوائل میں بھارت میں ''چپکو موومنٹ‘‘ شروع ہوئی جو برسوں جاری رہی۔ ہندی میں چپکو سے مراد چپک جاؤ۔ یہ موومنٹ ہمالیہ کے دامن میں واقع گڑھوال میں درختوں کی کٹائی کے خلاف بطور احتجاج شروع ہوئی تھی۔ بعد ازاں یہ تحریک بھارت کے مختلف علاقوں تک پھیل گئی۔ تحریک کا یہ نعرہ بہت مقبول ہوا کہ درختوں کو کٹنے نہ دیا جائے بلکہ انہیں زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ 'چپکو‘ کے نام میں استعارہ یہ تھا کہ درختوں سے چمٹ جاؤ انہیں کٹنے نہ دو۔
پورے بھارت میں یہ تحریک پھیلتی چلی گئی اور اس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ نباتات کے مشہور سکالر سندر لال بہوگُنا (Sunderlal Bahuguna) نے اس موومنٹ کی قیادت سنبھال لی۔ چند سال قبل ہی یہ انڈین سکالر 94 برس کی عمر میں فوت ہوا ہے۔ عورتیں بطور خاص اس احتجاجی تحریک میں پیش پیش تھیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ درخت سایہ بھی ہیں‘ ہمارا سہارا اور سرمایہ بھی۔ اگر انہیں نام نہاد ترقیاتی منصوبوں کے لیے کاٹ دیا جائے گا تو یہ ہماری لائف لائن کاٹنے کے مترادف ہوگا۔ اس تحریک کے نتیجے میں 1927ء کے فارسٹ قانون کو منسوخ کر کے 1980ء میں تحفظِ جنگلات کے نام سے انڈین پارلیمنٹ نے نیا قانون منظور کیا اور اسے نافذ کر دیا۔ ایک ہم ہیں کہ پاکستان میں آج تک جنگلات اور شہروں کے اشجار کے لیے کوئی مضبوط و مربوط پالیسی وضع نہیں کر سکے۔ ہر سال بہار و برسات میں ہماری حکومتیں شجر کاری کی مہمات رسمی طور پر چلاتی ہیں۔ کروڑوں درخت لگانے کے دعوے تو کئے جاتے ہیں مگر درختوں سے سجی ہوئی زمین کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے شہر ہیں کہ بے ہنگم طور پر بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ شہر زرعی زمینوں پر تعمیر کئے جاتے ہیں۔ لہلہاتے ہرے بھرے کھیتوں کی جگہ سیمنٹ اور کنکریٹ کے پہاڑ لا کر کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔
ایک کنال یا حد سے حد دو کنال سے اوپر کوئی گھر تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے یہاں زراعت‘ اناج گھر اور پنجاب کی کاشتکاری کا گلا گھونٹ کر بیس بیس اور تیس تیس کنالوں کے ''فارم ہاؤسز‘‘ کے نام پر راحت کدے بنائے جاتے ہیں بلکہ ان کے خریداری کی ترغیب دی جاتی ہے۔ بظاہر پنجاب میں زرعی زمینوں پر نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر ممنوع ہے مگر ایسے امتناعی قوانین ہمارے ہاں موم کی ناک ثابت ہوتے ہیں۔ حالانکہ بعض ترقی یافتہ ممالک میں جنگل تو دور کی بات‘ ایک درخت بھی اس وقت تک نہیں کاٹا جا سکتا جب تک کہ اس علاقے کی سٹی کونسل کے اجلاس میں اس کی اجازت نہیں دی جاتی۔
میری معلومات کے مطابق پاکستان میں تحفظِ اشجار کے لیے کوئی باقاعدہ عوامی تحریک کبھی دیکھنے پڑھنے میں نہیں آئی۔ البتہ وطن عزیز کے ایک ہر دلعزیز بڑے شاعر جناب مجید امجد نے پنجاب کے زرعی شہر ساہیوال میں درختوں کے کٹنے پر ایک لازوال نظم ''توسیع شہر‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی۔ ملاحظہ کیجئے توسیع شہر:
بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانکے پہرے دار
گھنے سہانے چھاؤں چھڑکتے بور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم
گری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل جھڑتے پنجر چھٹتے برگ و بار
سہی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار
آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک اے آدم کی آل