امریکہ کے شہر ڈیلس کا بین الاقوامی ایئر پورٹ شہر کے جس ٹاؤن میں واقع ہے اس کا نام اروِنگ ہے۔ ہم اسی ٹاؤن میں ہوائی مستقر کے قریب ہی مقیم تھے۔ ہم نے ایک دو بار گھر کے بیک یارڈ سے ٹکٹکی باندھ کے آسمان پر اُڑان بھرتے اور لینڈ کرتے ہوائی جہازوں کو گننے کی کوشش کی‘ ہم نے آنکھ جھپکائی نہ تارِ نظر توڑا مگر پھر بھی نہ گن سکے کہ ایک منٹ کے دوران آسمان سے کتنے طیارے گزرتے ہیں؛ البتہ اتنا معلوم ہوا کہ تقریباً ہر لمحہ کوئی نہ کوئی طیارہ فضا میں بلند ہوتا ہے یا رن وے پر اُترتا ہے۔
اسی نظارے کے دوران ہم نے مختلف ایئر لائنز کے جھنڈوں کو پہچان لیا۔ دل کے کسی گوشے سے ہوک اُٹھی کہ کاش ان جہازوں میں سبز پرچم والا پاکستانی طیارہ بھی دکھائی دیتا۔ اسی کے ساتھ دل میں یہ تجسس بھی ابھرا کہ یہ معلوم کیا جائے کہ ڈیلس ایئر پورٹ پر روزانہ کتنی پروازیں آتی جاتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہاں روزانہ 1800 جہاز لینڈ کرتے یا اڑان بھرتے ہیں۔ اسی طرح روزانہ اس ہوائی اڈے سے دو لاکھ مسافر آتے یا جاتے ہیں۔
امریکہ میں ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ریاست سے دوسری ریاست تک مسافتیں طویل ہیں‘ اس لیے داخلی مسافروں کی بھی ایک بڑی تعداد ہوائی اڈوں پر نظر آتی ہے۔ ایک اور سوال کی طرف بھی ذہن متوجہ ہوا کہ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی مختلف ایئر لائنز کتنے شہروں کے درمیان اُڑتی اور اپنے ملک کیلئے کتنا زرِمبادلہ کماتی ہیں۔ یہ معلوم ہوا تو دل مضطر اور بیتاب ہوا کہ ان معروف اور مشہور ایئر لائنز کے ساتھ موازنے میں ہم بہت پیچھے ہیں۔
دوسری بڑی ایئر لائنز سے قبل ہم اپنی قومی ایئر لائن کے ماضی اور حال پر ایک نظر ڈال لیں تاکہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ دنیا کے بعض چھوٹے ملکوں کی بڑی ایئر لائنز کا گراف دو تین دہائیوں میں کتنی بلندی پر پہنچا اور اتنی ہی دہائیوں میں ہمارا گراف اوپر سے کتنا نیچے آیا ہے۔ ہماری قومی فضائی کمپنی کا آغاز 1946ء میں اورینٹ ایئر ویز کے نام سے ہوا۔ اس وقت اورینٹ ایئر ویز کا مرکزی دفتر کلکتہ میں تھا۔ قیام پاکستان کے وقت یہ ایئر لائن پاکستان منتقل ہو گئی اور اس کا نیا نام پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز طے پایا۔
پی آئی اے نے 1955ء میں اپنی لندن پروازوں کا آغاز کیا۔ اُن دنوں کراچی سے یہ پرواز قاہرہ اور روم سے ہوتی ہوئی لندن پہنچتی تھی۔ یہ پی آئی اے ہی تھی جس نے 1985ء میں امارات ایئر لائن کو مختلف شعبوں میں تربیت دی اور اس کی عملی مدد کی۔ پی آئی اے اُن پہلی چند ایئر لائنز میں تھی جس نے 2005ء میں بوئنگ 777-200LR طیارے حاصل کیے۔ تب پی آئی اے نے ہانگ کانگ سے لندن تک 22گھنٹے 22منٹ نان سٹاپ پرواز کا ریکارڈ قائم کیا۔ مراد یہ کہ ہم نے کیسے کیسے سنگ ہائے میل عبور کیے تھے۔ اس دوران پی آئی اے پر کئی اتار چڑھاؤ آئے تاہم ایئر مارشل نور خان اور ایئر مارشل اصغر خان کے ادوار کو پی آئی اے کے سنہری ادوار سمجھا جاتا ہے۔ ان ادوار میں قومی ایئر لائن نے قابلِ رشک ترقی کی تھی۔ پی آئی اے 2020ء سے قبل تقریباً 30 ممالک کیلئے اپنی پروازیں چلاتی تھی۔ ان ممالک میں ایشیا بالخصوص مشرقِ وسطی‘ یورپ و امریکہ وغیرہ شامل تھے۔ تاہم 30 جون 2020ء کو پی آئی کی پروازوں پر یورپ کیلئے چھ ماہ کی پابندی لگا دی گئی۔ جیسا کہ فارسی میں کہتے ہیں کہ خود کردہ را علاجے نیست۔ یا پھر آسان الفاظ میں اسے اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارنا کہا جاتا ہے‘ اُس زمانے کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں اعلان کیا کہ ہمارے بہت سے ہوا بازوں کے پاس اصلی نہیں جعلی اسناد ہیں اور وہ فلائنگ کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتے۔ اس کے بعد جو ہونا چاہیے تھا وہی ہوا اور پی آئی اے پر مذکورہ بالا پابندی لگا دی گئی۔ چار سال تک ہماری ایئر لائن پر پابندی عائد رہی۔ 29 نومبر 2024ء کو ہوا بازی کی عالمی تنظیم نے پاکستان پر عائد کردہ پابندی برائے یورپ تو اٹھا لی مگر برطانیہ اور امریکہ نے ابھی تک ہماری پروازوں سے پابندی نہیں ہٹائی۔
2020ء میں کوئی سمجھدار وزیر ہوا بازی ہوتا تو وہ خاموشی سے ماہرین کے ذریعے پائلٹس کی اسناد اور تجربہ کی چھان بین کرتا اور جو مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترتے انہیں فارغ کر دیا جاتا اور ان کی جگہ اچھی تعلیم و تربیت والے پائلٹس کو خدمت کا موقع دیا جاتا۔ ہماری ایسی ہی حماقتوں سے پی آئی اے عالمی میدان میں بہت نیچے آ گئی۔ 1985ء میں امارات ایئر لائن کو پی آئی اے نے ہی تربیت دی تھی‘ آج اس کی پروازیں دنیا کے 85 ممالک کے 131شہروں تک مسافروں کو لے جانے اور لانے کی خدمات انجام دیتی ہے۔ امارات ایئر لائن امریکہ کے 13شہروں تک پروازیں چلاتی ہے۔ ہم نے جہاں گردی کے دوران امارات ایئر لائن کی کسی پرواز میں مسافروں کی کمی نہیں دیکھی۔ جہاں تک قطر ایئر لائن کا تعلق ہے‘ انتہائی ماہرانہ منصوبہ بندی کے ذریعے 90ممالک کے 170شہروں تک اس کی پروازیں اڑتی ہیں۔ قطر ایئر لائن امریکہ کے 11شہروں تک براہِ راست پروازیں چلاتی ہے۔ قطر ایئر لائن کا مرکز دوحہ ہے۔ دوحہ انٹر نیشنل ایئر پورٹ ایک بہت بڑے جنکشن کے طور پر زبردست خدمات انجام دیتا ہے اور مغرب سے آنے والی پروازوں کے مسافروں کو اپنی ایئر لائن کے ذریعے مشرق کی طرف لے کر جاتا ہے۔
دوحہ انٹرنیشنل ایئر پورٹ مسافروں کیلئے اپنی خدمات کے لحاظ سے کئی بار بہترین ایئر پورٹ کا ایوارڈ بھی حاصل کر چکا ہے۔ اس ایئر پورٹ کی بہت سی خوبیاں ہیں مگر اہم ترین خوبی یہ ہے کہ اس ایئر پورٹ کا عملہ انتہائی خوش اخلاق اور مددگار ہے۔ اس ہوائی اڈے کے واش رومز اپنی صفائی کے اعتبار سے بہترین ہیں۔ یہاں متعین ورکرز نہایت دلجمعی کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں۔ اگلی پروازوں کیلئے عملے کے کارکنان مسافروں کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں آرام کرنے والے بڑے کمروں میں لے جاتا ہے جہاں بنے ہوئے کیبنوں میں مسافر بیڈ نما کرسیوں پر لیٹ جاتے ہیں‘ اگر نیند آ جائے تو سو بھی سکتے ہیں۔
قطر ایئر لائن کے جہازوں میں بھی عملہ اعلیٰ تربیت یافتہ ہے۔ وہ بھی مسافروں کے آرام کا خیال رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے ٹرکش ایئر لائن پہلے نمبر پر ہے‘ وہ دنیا کے 131ممالک کے 270شہروں تک مسافروں کو لے کر جاتی ہے۔ جس میں 12امریکی شہر بھی شامل ہیں۔ یہ ایئر لائن ان افریقی و لاطینی امریکی شہروں تک بھی فضائی سفر کی سہولت فراہم کرتی ہے جہاں یورپی ایئر لائنز سکیورٹی کے خدشات یا نادیدہ خطرات کی بنا پر اپنی پروازیں نہیں چلاتیں۔ ٹرکش ایئر لائن جدید ترین جہازوں کو اپنے بحری بیڑے میں شامل کرتی رہتی ہے۔ اس ایئر لائن کے پاس ایئر بس کے مختلف ماڈلوں کے علاوہ بوئنگ کے بھی جدید ترین طیارے موجود ہیں۔ ترک حکومت وقتاً فوقتاً پرانے جہازوں کی جگہ نئے طیارے خریدنے کیلئے اپنی ایئر لائن کو فنڈز فراہم کرتی رہتی ہے۔ ٹرکش ایئر لائن پر ہم کئی بار سفر کر چکے ہیں‘ تاہم اس کی تحسین کے ساتھ ساتھ ہم تھوڑی سی تنقید بھی کریں گے۔ اس بار بھی ہمیں ٹرکش ایئر لائن سے سفر کا موقع ملا۔ بلاشبہ نیا استنبول ایئر پورٹ فن تعمیر کا شاہکار ہے مگر ایئر پورٹ کا عملہ معزز مسافروں کی جامہ تلاشی یوں لیتا ہے جیسے وہ مشتبہ لوگ ہوں۔ اسی طرح کیبن کریو بھی اتنا خوش اخلاق نہیں جتنا اسے ہونا چاہیے۔
پی آئی اے کو اگر پروفیشنل طریقے سے چلایا جاتا تو سفارتکاری کا ہنر استعمال کرکے امریکہ کے کم از کم اُن چھ سات شہروں تک‘ جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد آباد ہے‘ براہِ راست پروازیں لے جانے کا اجازت نامہ حاصل کیا جا سکتا تھا مگر سیاسی اکھاڑ بچھاڑ کی بنا پر ہمارے حکمرانوں کے پاس ایسے اہم کاموں کیلئے وقت نہیں۔