ایرانی صدر کے انتخاب میں ڈاکٹر حسن روحانی کی فتح ایرانی تاریخ کا ایک نیا باب ثابت ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر روحانی کی فتح غیرمعمولی تھی۔ وہ پہلے دور میں ہی فتح یاب ہوگئے۔ گزشتہ انتخاب میں محمود احمدی نژاد کو انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے لیے دوسرے دور میں جانا پڑا تھا، کیونکہ انہیں پہلے دور میں واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ دوسرے دور میں وہ فتح یاب تو ہوگئے، لیکن ان کی جیت متنازع بن گئی تھی۔ ان پر بڑی دھاندلیوں کے الزامات عائد کیے گئے، ان کی فتح کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے اور کئی ممالک نے بھی اس کو تسلیم نہیں کیا، لیکن روحانی صرف پہلے دور میں ہی نہیں جیتے، زبردست اکثریت سے فتح یاب ہوئے۔ انہیں تقریباً 51فیصد ووٹ ملے، جبکہ ان کے نزدیکی حریف تہران کے میئر باقر کالی باف کو 17فیصد اور سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے عزیزامیدوار سعید جلیلی کو صرف11فیصد ووٹ ملے۔ روحانی کے مقابلے میں جو دیگر پانچ امیدوار کھڑے ہوئے تھے، ان میں ایران کے ایک سے بڑھ کر ایک سورما تھے اور ایسے بھی جنہیں خامنہ ای کی دعائیں حاصل تھیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ روحانی فتح یاب ہوئے؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ دو سابق صدور اکبر ہاشم رفسنجانی اور محمد خاتمی نے انتخاب سے تین دن قبل روحانی کو واضح حمایت دے دی۔ دوسرے مشہور اصلاح پسند امیدوار محمد رضا عارف نے اپنا نام واپس لے لیا اور اپنے ووٹروں سے روحانی کی حمایت کی اپیل کردی۔ تیسرا اور سب سے اہم سبب یہ رہا کہ روحانی نے اپنی انتخابی مہم میں ایرانی عوام کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ضبط اور لچکیلے پن سے کام لیں گے۔ وہ احمدی نژاد کی طرح جارحانہ رویہ نہیں اپنائیں گے۔ وہ ایٹمی سوال پر مغرب سے مذاکرات کا راستہ کھولیں گے اور ایران کے متزلزل اقتصادی نظام کو اپنے پیروں پر کھڑا کریں گے۔ حالانکہ خامنہ ای نے روحانی کی حمایت کا کوئی اشارہ نہیں دیا تھا، پھر بھی وہ جیت گئے۔ خامنہ ای چاہتے تو وہ روحانی کی فتح کو شکست میں تبدیل کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے اس کو باقاعدہ تسلیم کیا اور اس پر اپنی مہر لگائی۔ یوں تو خامنہ ای روحانی کو گزشتہ40برس سے جانتے ہیں اور روحانی ان کے ساتھ قومی سلامتی کے مشیر اور جوہری مذاکرات کار کے طور پر کام بھی کرچکے ہیں۔ روحانی قانون میں گریجویٹ ہیں اور گلاسگو سے نفسیات میں پی ایچ ڈی ہیں۔ وہ کئی غیرملکی زبانیں بھی جانتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر روحانی کو ایرانی عوام نے تو تسلیم کرلیا، لیکن کیا سپریم لیڈر علی خامنہ ای اور ایرانی انقلابی سیکورٹی فورسز پوری طرح ان کا ساتھ دیں گی؟ ایسا تو نہیں ہوگا، جیسا احمدی نژاد اور خامنہ ای میں ٹھن گئی تھی؟ روحانی کا ساتھ دینے میں خاتمی اور رفسنجانی سرفہرست ہیں۔ یہ دونوں خامنہ ای سے خفا ہیں۔ لہٰذا خامنہ ای کے دل میں کوئی بغض آجائے تو حیرت نہیں ہوگی۔ لیکن روحانی سے امید کی جاتی ہے کہ وہ داخلی گروپ ازم میں اُلجھنے کے بجائے ایران کے مسائل کو حل کرنے پر دھیان دیں گے۔ اس وقت ایرانی طومان کی قیمت 60فیصد کم ہوگئی ہے اور مہنگائی 30فیصد بڑھ چکی ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے بڑی بے چینی ہے۔ روحانی کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ایران پر لگی عالمی پابندیوں کو کیسے ہٹایاجائے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر روحانی نے صدر کے طور پر جو بھی اعلانات کیے ہیں اور مغرب اور دیگر ملکوں نے جس طرح ان کی فتح کا خیرمقدم کیا ہے، اس سے کافی امید پیدا ہوتی ہے۔ ڈاکٹر روحانی کے فتح یاب ہوتے ہی روس، چین، فرانس، جرمنی وغیرہ نے ان کا خیرمقدم کیا۔ امریکہ نے انتخابی نتائج پر اطمینان کا اظہار کیا تو برطانیہ نے روحانی کے ایران سے ڈپلومیٹک تعلقات کی پھر سے تجدید کی خواہش کا اظہار کیا۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے تو براہ راست گفتگو کے امکانات بھی ظاہر کر دیے۔ روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاورف نے تو یہاں تک دعویٰ کردیا کہ اگر پابندی ہٹالی جائے تو ایران یورینیم کی افزودگی میں 20فیصد تخفیف کرسکتا ہے، یعنی مغرب کے اس شک کو بے معنی کرسکتا ہے کہ وہ ایٹم بم بنارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر روحانی نے نرمی اور اعتدال کے اشارے دیے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو یک دم منسوخ کرسکتے ہیں۔ ایک تو وہ خود اس کے پرانے حامی رہے ہیں اور دوسرے خامنہ ای اُنہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ سنگین پریشانیوں کے باوجود ایران اپنے موقف پر قائم ہے۔ ایٹمی پابندیاں تو ابھی لگی ہی ہوئی ہیں، ایران پابندیوں کا سامنا اسلامی انقلاب کے دنوں سے ہی کسی نہ کسی شکل میں کررہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بڑے بڑے عرب ممالک میں عوامی انقلاب کی لہر پھیلی ہوئی ہے، لیکن جان لیوا اقتصادی بدحالی کے باوجود عوام ایران میں اسلامی حکومت کو برداشت کیے جارہے ہیں۔ اگر امریکہ اس غلط فہمی میں ہے کہ وہ اعتدال پسند روحانی کو جھکالے گا تو اسے ناکامی ہی ہاتھ آئے گی۔ ہاں، اگر وہ گفتگو شروع کرے اور خامنہ ای کو بھی متفق کرے تو جیسا کہ روحانی نے کہا کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو شفاف بنادیں گے۔ اگر وہ پروگرام شفاف ہوجائے تو ویانا کی عالمی ایٹمی ایجنسی ہی نہیں، خود امریکہ بھی مطمئن ہوسکتا ہے۔ اسرائیل کے جارحانہ رویہ کا آنکھ بند کرکے ساتھ دینے کے بجائے امریکہ کو موقع ملا ہے کہ وہ ایران کی طرف نئی کھڑکیاں کھولے۔ اگر روحانی کے ساتھ امریکہ کام چلاؤ رشتے بھی بنالے تو اسے شام اور فلسطین کے معاملوں میں بھی راحت نصیب ہوگی۔ افغانستان سے امریکی واپسی نہ صرف آسان ہوگی، بلکہ اس کے بعد اس علاقہ میں چاروں ممالک ایران، افغانستان، پاکستان اور ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کا ایک غیرمعمولی سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کے ذریعہ تعمیر جرنج دلارام شاہراہ امریکہ کو افغانستان ہی نہیں، پورے وسطی ایشیا کے ممالک سے جوڑ دے گی۔ اس سلسلہ میں ہندوستان کی خاموشی حیرت انگیز ہے۔ ہمارے وزیرخارجہ سلمان خورشید کو غیرملکی دوروں کی وجہ سے سوچنے کی فرصت نہیں ہے اور وزیراعظم کی دلچسپی صرف بگڑتے اقتصادی نظام میں ہے۔ روحانی کے خیرمقدم میں ہماری حکومت نے چارپانچ دن لگا دیے، جبکہ ایران سے آٹھ دس ہزار کلومیٹر دور کے ممالک نے چار پانچ گھنٹوں میں ہی اپنا ردعمل ظاہر کردیا۔ پاکستان اور ایران کی نئی قیادت کے ساتھ فی الحال گہری حکمت عملی طے کرنا ہندوستان کے لیے بیحد ضروری تو ہے ہی، علاقائی استحکام کے لیے بھی سودمند ہے۔ ایران میں جب نیا سورج طلوع ہورہا ہے تو ہندوستان کااونگھتے رہنا سمجھ میں نہیں آتا۔ (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے‘ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں)