اب سے تقریباً 65 سال پہلے میں نے بھارت کی ایک مغربی ریاست مدھیا پردیش کے سب سے گنجان آباد شہر اِندور میں ایک تحریک شروع کی تھی کہ سارے دکاندار اپنے نام کی تختیاں ہندی میں لگائیں اور انگریزی میں لکھی تختیاں ہٹا دیں۔ دنیا کے صرف ایسے ممالک میں دکانوں اور مکانوں کی تختیاں ان غیرملکی زبانوں میں لکھی ہوتی ہیں جو ان ممالک کے غلام رہے ہوتے ہیں۔ بھارت کو آزاد ہوئے 75سال ہو چکے ہیں لیکن لسانی غلامی نے اب تک بھارت کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ جو حال بھارت کا ہے‘ وہی خطے کے دیگر ممالک مثلاً پاکستان‘ سری لنکا اور میانمار کا بھی ہے جبکہ نیپال‘ بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ممالک میں اس لسانی غلامی کا اثر بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ اس معاملے میں بھارتی پنجاب کی عا م آدمی پارٹی کی سرکار نے کمال کر دیا ہے۔ اس نے اب مادری زبان کے عالمی دن یعنی 21 فروری سے یہ اصول نافذ کر دیا ہے کہ صوبے کی تمام دکانوں پر ناموں کی تختیاں صرف پنجابی زبان میں ہوں گی اور تمام سرکاری ویب سائٹس بھی پنجابی زبان میں ہی ہوں گی اور جو اس اصول کی خلاف ورزی کرے گا‘ اسے 5000 روپے تک جرمانہ بھرنا پڑے گا۔ مادری زبان کے فروغ کے حوالے سے اس سے بھی زیادہ سخت اصول مہاراشٹر میں نافذ ہیں جہاں نام کی تختی اگر مراٹھی زبان اور دیوناگری رسم الخط میں نہیں ہوگی تو سرکارآپ کو ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ٹھوک سکتی ہے۔ تامل ناڈو میں بھی دکان یا مکان کی تختی ماں بولی میں نہ ہونے پر جرمانے کا نظام موجود ہے۔ کرناٹک میں بھی نام کی تختیوں کو کنڑ زبان میں لکھنے کی تحریک زور و شور سے چل چکی ہے۔ اگر تمام ریاستیں اسی طریقے پر عمل کریں تو کتنا اچھا ہو۔ سب کے گھروں اور دکانوں پر ناموں کی تختیاں موٹے موٹے حروف میں اپنی ریاستی زبانوں میں لکھی ہوں۔ نیز اگر کوئی مادری زبان کے ساتھ ساتھ قومی رابطہ زبان ہندی یا کوئی غیرملکی زبان بھی تختی پر لکھنا چاہے تو چھوٹے چھوٹے حروف میں لکھ سکتا ہے۔ اگر یہ اصول پورے ملک میں نافذ ہو جائے تو ایک دوسرے کی زبان سیکھنا بھی کافی آسان ہو جائے گا۔ اگر پنجاب کی عاپ سرکار اتنی ہمت دکھا رہی ہے تو دہلی میں کجریوال کی سرکار یہی پہل کیوں نہیں کرتی؟ دہلی اگر سدھر گئی تو اس کا اثر پورے بھارت پر ہو گا۔ بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں آج کل ووٹ اور نوٹ کے چکر میں بائولی ہوگئی ہیں۔ انہیں سماجی سدھار سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ مدعا یہ ہے کہ زبان کے سوال پر قانون بنانے کی ضرورت ہی کیوں پڑرہی ہے؟ یہ تو ایک مقبول عوامی تحریک بننی چاہیے۔ جیسے پانچ سات سال پہلے میں نے مادری زبان کے فروغ کے لیے ''اپنی زبان میں دستخط‘‘ کی مہم چلائی تھی اور اب تک تقریباً 50لاکھ لوگوں نے اپنے دستخط انگریزی سے بدل کر اپنی مادری زبانوں میں کرنا شروع کر دیے ہیں۔ بھارت کے لوگوں میں اپنی زبان سے محبت کم نہیں ہے لیکن اسے بیدار کرنے کی ذمہ داری بھارت کی سیاسی جماعتیں اور رہنما اپنے ذمے لے لیں تو بھارت کی مادری زبانوں کی عالمی سطح پر پذیرائی کرانے میں دیر نہیں لگے گی۔ بدقسمتی سے بھارت کے سادھو‘ سَنت لوگ بھی زبان کے مدعے پر خاموش رہتے ہیں۔ میں ان سب پر یہ راز اجاگر کردینا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی ملک دنیا میں غیرملکی زبان کے دم پر سپر پاور نہیں بنا ہے۔
امریکہ میں ذات پات کی تقسیم
امریکی ریاست واشنگٹن کے صدر مقام سیئٹل میں ذات پات پر مبنی امتیازی سلوک کو قانونی جرم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ سیئٹل کی سٹی کونسل نے یہ اعلان اس کی اکلوتی ہندوستانی امریکی رکن شمع ساونت کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے کیا ہے۔ سیئٹل کی سٹی کونسل نے اس سلسلے میں ایک آرڈیننس منظور کیا ہے۔ مذکورہ آرڈیننس کے حق میں چھ ووٹ پڑے‘ ایک ممبر نے اس کی مخالفت کی جبکہ دو ممبران ووٹنگ کے وقت ایوان میں موجود ہی نہیں تھے۔ یہ آرڈیننس اب شہری حقوق کے حوالے سے قانون کا حصہ بن گیا ہے جس کی رو سے ذات پات کی بنیاد پر عوامی مقامات‘ روز گار کے مقامات‘ گھروں اور معاہدوں میں امتیازی سلوک کرنے پر پابندی ہوگی۔ اس آرڈیننس نے سیئٹل کو امریکہ کا ایسا پہلا شہر بنا دیا ہے‘ جہاں امتیازی سلوک اب ختم ہو جائے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ آرڈیننس امریکہ میں دبے کچلے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنے میں کتنا مؤثر کردار ادا کرپاتا ہے۔ آرڈیننس کے تئیں حمایت ظاہر کرنے کیلئے سٹی کونسل ہال میں سینکڑوں ہندوستانی امریکی جمع تھے جنہوں نے ہاتھوں میں بینرز اور پوسٹرز اٹھا رکھے تھے اور وہ وہاں بھرپور نعرے بازی کررہے تھے۔ سئیٹل امریکہ کے خوبصورت شہروں میں گنا جاتا ہے۔ میں وہاں رہ چکا ہوں۔ وہاں کے ایک مشہور بازار میں بھارتیوں‘ پاکستانیوں اور نیپالیوں کی کئی دکانیں ہیں۔ اس شہر میں تقریباً پونے دو لاکھ لوگ ایسے ہیں جو جنوبی ایشیائی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ بھارت میں صدیوں سے چلی آرہی ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کی یہ بیماری امریکہ میں کیسے پھیل گئی؟ بیرونی ممالک میں بھی رہ کر بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کے لوگوں میں یہ نام نہاد 'ہندوانہ حرکت‘ کیسے پھیلی ہوئی ہے؟ بھارت کے پڑوسی ممالک میں ذات پات کی تقسیم اور بتوں کی پوجا کو لوگ ہندوانہ حرکت ہی کہتے ہیں لیکن دیکھئے اس حرکت کا کرشمہ کہ یہ بھارت کے پڑوسی ممالک میں بھی اسی شدو مد سے پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ افغانوں میں بھی یہ کسی نہ کسی شکل میں پھیلی ہوئی ہے۔ وہاں بھی قبیلے اور ذات برادری کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اب سے پچاس‘ پچپن سال پہلے جب میں امریکہ میں پڑھتا تھا‘ تب بھارتیوں کی تعداد وہاں کافی کم تھی۔ تب کسی کی ذات پات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی تھی۔ نیویارک کے بازاروں میں دن بھر میں ایک دو بھارتی دِکھ جاتے تھے تو انہیں دیکھ کر دل خوش ہو جاتا تھا لیکن اب تو امریکہ کے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی آپ کو بھارتی لوگ اکثر مل جاتے ہیں۔ ان میں اب آپسی مسابقت‘ حسد اور بغض بھی کافی بڑھ گیا ہے۔ وہ سبھی شعبوں بھی بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ وہاں بھی اب ذات پات کی تقسیم کا زہریلا پودا پنپ رہا ہے۔ اس ضمن میں ''اکویلٹی لیو‘‘ نامی تنظیم نے جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں وہ حیران کرنے والے ہیں۔ اس کے مطابق نوکریوں اور تعلیم میں تو ذات پات کی بنیاد پر امتیاز ہوتا ہی ہے‘ عوامی ٹوائلٹس‘ بسوں‘ ہوٹلوں اور ہسپتالوں میں بھی یہ مرض پھیل رہا ہے۔ سیئٹل سٹی کونسل نے اس پر جو پابندیاں لگائی ہیں‘ انہیں کچھ تنظیموں نے کافی سراہا ہے لیکن کچھ تنظیموں نے شمع ساونت کی اس پہل کی مخالفت بھی کی ہے اور اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اسے امریکہ میں جنوبی ایشیا بالخصوص بھارت کو بدنام کرنے کا ہتھکنڈا بھی تصور کیا جارہا ہے۔ اس معاملے میں سب سے اچھا تو یہ ہوگا کہ ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے حوالے سے اصل اعداد و شمار اور ثبوت اکٹھے کیے جائیں اور اگر وہ مستند ہوں تو ان کے خلاف بھارتی نژاد افراد میں اتنی بیداری پیدا کی جائے کہ قانونی کارروائی کی ضرورت ہی نہ پڑے اور وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذات پات کی اس تقسیم سے اب خود ہی نکل آئیں۔