بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور میں پارٹی کے 85ویں کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کانگرس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے بہت ہی باوقار انداز سے اپنے سیاسی کیریئر کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ کنونشن سے اپنے خطاب میں ان کا یہ کہنا تھا کہ 'بھارت جوڑو یاترا‘ کے ساتھ اس اننگ کا خوشگوار خاتمہ ہوا ہے۔ سونیا گاندھی کا اتنا کہنا تھا کہ ان کے سیاسی ریٹائرمنٹ سے متعلق قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے دور کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا ذکر بھی کافی کھل کر کیا‘ ان کا کہنا تھا کہ 1998ء میں کانگریس کی صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک‘ ان 25 سالوں میں ہم نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور سخت مایوسی کا وقت بھی دیکھا ہے۔ انہوں نے اس سفر میں ساتھ دینے والے اپنے حامیوں اور ساتھیوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔دوسری طرف کانگرسیوں کی سونیا گاندھی کے لیے عقیدت بھی کمال کی ہے۔ وہ سونیا گاندھی کے اس اعلان کے باوجود بار بار کہہ رہے ہیں کہ اسے سونیا جی کا سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیوں سمجھا جا رہا ہے‘ وہ اب بھی کانگرس کی سب سے بڑی سیاسی رہنما ہیں۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ سونیا گاندھی کے لیے کانگرسیوں میں کتنی اندھی عقیدت موجود ہے۔ کیا کبھی اٹل جی یا ایڈوانی جی کے لیے ایسی عقیدت کا جذبہ بھاجپا میں دیکھا گیا ہے؟ سبھی جمہوری ممالک کی سیاسی پارٹیاں وقتاً فوقتاً اپنے سیاسی رہنما تبدیل کرتی رہتی ہیں لیکن کانگرس کو آزادی کے بعد موروثیت نے ایسا گھیرا ہے کہ وہ پارٹی نہیں‘ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن گئی ہے۔ جیسا کہ بھارت کی دیگر صوبائی پارٹیاں ہیں۔ اب کانگرس دیگر سیاسی جماعتوں سے یہ کہہ رہی ہے کہ مودی مخالف مورچہ اُسی کی قیادت میں بنایا جانا چاہیے۔ بقول کانگرسی رہنما اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کانگرس کے بغیر کوئی گٹھ بندھن بنے گا تو مودی کو ہٹانا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس طرح ووٹ بٹ جائیں گے۔ لیکن ترنمول کانگرس‘ عام آدمی پارٹی‘ بھارت راشٹر سمتی‘ سماج وادی پارٹی‘ کمیونسٹ پارٹی وغیرہ کیا کانگرس کو اپنی رہنما جماعت تسلیم کر لیں گی؟ ملک ارجن کھرگے تو کانگرس کے برائے نام صدر ہیں‘ جماعت کی اصلی کمان تو اب بھی راہل گاندھی کے ہاتھ میں ہے۔ کیا ان سبھی پارٹیوں کے سینئر رہنما راہل گاندھی کو اپنا رہبر مان لیں گے؟ وہ راہل گاندھی کو ضرور اپنا رہنما مان لیتے‘ اصل مدعا مگر یہ ہے کہ راہل میں آخر ایسی کیا خصوصیت ہے کہ اُسے رہنما تسلیم کیا جائے؟ ملک ارجن کھرگے کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ 2004ء سے 2014ء تک کئی پارٹیوں نے کانگرس کے ساتھ کامیاب گٹھ بندھن کیا ہوا تھا لیکن اُس وقت کانگرس اقتدار میں تھی اور اب یہ امید بھی نہیں ہے کہ پارلیمنٹ میں اس وقت اس کے جتنے ممبر ہیں‘ 2024ء میں نئے انتخابات کے بعد بھی اتنے رہ پائیں گے۔ کانگرس کے صدر کا یہ کہنا کہ 2024ء میں بھاجپا کے اسمبلی ممبران کی تعداد 100سے بھی نیچے چلی جائے گی‘ محض ایک خیالی بات ہی ہے۔ جو پارٹیاں کانگرس کے ساتھ مل کر 2024ء کا چناؤ لڑنا چاہتی ہیں‘ ان میں غضب کا لالچ موجود ہے۔ کانگرس ان پر تکیہ کیے بیٹھی ہے لیکن کیا کانگرس یہ بھول گئی کہ نتیش کا جنتا دَل‘ شرد پوار کی این سی پی اور ڈی ایم کے جیسی پارٹیاں کب پلٹا کھا جاتی ہیں اور کب ادھر سے اُدھر کھسک جاتی ہیں‘ کسی کو کچھ پتا نہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کا مورچہ بننے میں جتنی دیر لگے گی‘ وہ اتنا ہی کمزور اور ناقابلِ اعتبار ہوگا۔ اپوزیشن پارٹیوں کا مورچہ کسی طرح بن بھی گیا تو بھی وہ نریندر مودی کی مہربانی کے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اگر مودی سرکار اپوزیشن پر ویسی ہی مہربانی کردے جیسی کہ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگا کر کی تھی یا راجیو گاندھی نے بوفورس کے ذریعے کی تھی تو بھارت کی مفلوج اپوزیشن میں تھوڑی بہت جان ضرور پڑ سکتی ہے۔ بھارت کی سیاست سے نظریے کا خاتمے تو بہت پہلے ہو گیا تھا ‘ اب بھارتی اپوزیشن جماعتوں کے پاس نہ کوئی مدعا ہے‘ نہ کوئی پالیسی ہے اور ہی کوئی سیاسی رہنما ہے۔ وہ بس قسمت کے بھروسے جھول رہی ہے۔
کانگرس: ڈھاک کے وہی تین پات!
کانگرس کا 85واں کنونشن ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ رائے پور میں وہ کچھ ہو گیا‘ جس کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے‘ بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ کانگرس کے وہی ڈھاک کے تین پات! اندرا گاندھی کے زمانے سے بھارت کی اس عظیم پارٹی کے آسمان سے اندرونی جمہوریت کا جو سورج غروب ہوا تھا‘ وہ اب بھی غروب ہی ہے۔ اس میں کانگرس کی موجودہ قیادت کا قصور اتنا نہیں ہے جتنا اس کے پیروکاروں کا ہے۔ راہل گاندھی کا تو ماننا ہے کہ کانگرس کی ورکنگ کمیٹی چناؤ کے ذریعے مقررہونی چاہیے لیکن رائے پور اجلاس میں پارٹی کی ڈسپلنری کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ یہ تقرری کانگرس کے صدر ملک ارجن کھرگے ہی کریں گے۔ جن دو تین رہنماؤں نے شروع میں تھوڑی ہمت کی اور کہا کہ ورکنگ کمیٹی کے لیے چناؤ کروائے جائیں‘ بعد میں انہوں نے بھی جھنڈ کے آگے سر جھکا دیا۔ کھرگے نے بھی کہہ دیا کہ وہ سونیا گاندھی‘ راہل اور پریانکا سے صلاح کرکے ورکنگ کمیٹی کا اعلان کریں گے۔ کانگرس کے اصلی مالک تو یہ ماں‘ بیٹا اور بیٹی ہی ہیں۔ باقی سب لوگ تو کانگرس کے انگریزی مخفف نام‘ این سی کو ظاہرکرتے ہیں۔ این سی کا مطلب ہوا ''نوکر چاکر کانگرس‘‘۔ یہ تینوں اُس میٹنگ سے جان بوجھ کر غیر حاضر رہے‘ جس میٹنگ میں ڈسپلنری کمیٹی‘ ورکنگ کمیٹی کے مدعے پر غور کر رہی تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ وہاں موجود تمام نام نہاد لیڈروں کی ہمت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے دم پر کوئی فیصلہ کر سکیں لیکن اس حقیقت کے باوجود یہ سچائی قابلِ تعریف ہے کہ تین بزرگ رہنماؤں نے ورکنگ کمیٹی کے چناؤ کی درخواست کی۔ اس مدعے پر ڈھائی گھنٹے بحث چلی۔ یہ بحث کچھ امید پیدا کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سونیا گاندھی خاندان تھوڑی چھوٹ دے دے تو کانگرس کی داخلی جمہوریت پھر سے زندگی ہو سکتی ہے۔ راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت کی دلیل کافی جان لیوا تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب کانگرس کی صوبائی اور قومی کمیٹیوں کے چناؤ ہی نہیں ہوتے ہیں تو ورکنگ کمیٹی کے چناؤ کیسے کروائے جا سکتے ہیں۔ کچھ حد تک یہ ٹھیک بھی ہے‘ کیوں کہ کانگرس ابھی اگلے سال کے عام چناؤ کی تیاری کرے یا اندرونی کشمکش میں الجھ جائے؟ اس اجلاس کا یہ فیصلہ بھی اسی سمت میں ہے کہ اب کی بار 50فیصد سیٹیں نچلی ذات والوں‘ عورتوں‘ پسماندہ اقلیتوں اور 50سال سے کم عمر کے لوگوں کے لیے رکھی جائیں گی۔ جیسے راہل گاندھی نے نریندر مودی کی نقل کر کے اپنی داڑھی بڑھالی ہے‘ اسی طرح سیاسی چالوں میں بھی کانگرس مودی کی پیروی کرتی نظر آتی ہے۔ مودی نے پچھلی بار پسماندہ علاقے کے ایک فرد کو صدر بنایا اور اس بار ایک قبائلی خاتون کو یہ عہدہ دے دیا اور اب کانگرس بھی بھاجپا کا مقابلہ کرنے اور اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے یہی حکمت عملی اپنا رہی ہے۔