بھارت بھر میں ''آئیکر‘‘ یعنی انکم ٹیکس فارم بھرنے والوں کی تعداد سات کروڑ کے آس پاس ہے لیکن ان میں سے مشکل سے تین کروڑ لوگ ہی ٹیکس دیتے ہیں۔ کیا بھارت جیسے 140کروڑ افراد کے دیش میں اڑھائی‘ تین کروڑ لوگ ہی اس لائق ہیں کہ سرکار ان سے ٹیکس وصول سکتی ہے؟ کیا یہ اڑھائی‘ تین کروڑ لوگ بھی اپنا ٹیکس پوری ایمانداری سے چکاتے ہیں؟ نہیں‘ بالکل نہیں!پورے بھارت میں ایمانداری سے پورا ٹیکس چکانے والے لوگوں کو ڈھونڈ نکالنا تقریباً ناممکن ہے، یعنی جوٹیکس بھرتے ہیں،وہ بھی ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ جونہیں بھرتے اور جو بھرتے ہیں‘ وہ سب ٹیکس چور بنادیے جاتے ہیں۔ بھارت کا ٹیکس نظام ہی ایسا ہے کہ جو ہرشہری کو چور بننے پر مجبور کردیتا ہے۔ ہر موٹی آمدنی والامالدار آدمی ایسے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی پناہ لیتا ہے جو اسے ٹیکس چوری کے نئے نئے گر سکھاتا ہے۔ اس سچائی کو اگر بھارتیہ سرکاریں قبول کرلیں تو بھارت میں ٹیکس نظام میں اتنا سدھار ہو سکتا ہے کہ کم سے کم 30 کروڑ لوگ ٹیکس بھرنے لگیں۔ بھارت میں 30‘ 40 کروڑ لوگ ایسے ہیں جنہیں ہم متوسط طبقہ مانتے ہیں۔ متوسط طبقے کاہر شہری ٹیکس دینا چاہے گا لیکن اگر انکم ٹیکس 10 سے 15فیصد سے شروع ہوگا تو لوگوں کے لیے اپنا پیٹ بھرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس کے بجائے انکم ٹیکس کی شرح ایک دم گھٹا دی جائے تو اتنے زیادہ لوگ ٹیکس بھرنے لگیں گے کہ وہ ٹیکس آمدن موجود ہ ٹیکس کولیکشن یعنی11 لاکھ کروڑ روپے سے ڈیڑھ‘ دو گنا تک بڑھ سکتی ہے۔ اس سے لوگو ں میں ذمہ داری کا جذبہ بھی پیدا ہوگا اور سرکار کی جوابدہی بھی بڑھے گی۔ عام آدمی پر بھارتیہ نوکر شاہی کا رعب دبدبہ بھی گھٹے گا۔ کئی ممالک ایسے ہیں جن میں آمدنی پر کوئی ٹیکس ہی نہیں لگتا۔کانگریسی نیتا اور سابق مرکزی وزیر وسنت ساٹھے اور میں نے تقریباً 35 سال پہلے ایک مہم شروع کی تھی جس میں ہماری مانگ تھی کہ آئیکر یعنی انکم ٹیکس کو ختم کیا جائے اور اس کی جگہ ''جائیکر ‘‘ یعنی خرچ ٹیکس لگایا جائے، جائیکر کا مطلب ہے کہ اس پیسے پر ٹیکس لگایاجائے جو جیب سے باہرنکل جاتا ہے۔ آنے والا پیسہ ٹیکس فری ہو اور جانے والا ٹیکس نیٹ میں ہو،یعنی کسی بھی شخص کی آمدنی پر نہیں بلکہ اس کے خرچ پر ٹیکس لگایا جائے۔ اس سے کئی فائدے ہوں گے۔ پہلا تو یہی کہ ٹیکس چوری کی عادت پر لگام لگے گی۔ دوسرا، لوگوں اپنے خرچ گھٹائیں گے، اس سے کفایت شعاری کا فروغ ہو گا، صارفیت اور فضول خرچی گھٹے گی اور بچت بڑھے گی۔ تیسرا، محکمۂ انکم ٹیکس بند ہو گا‘ جس سے سرکار کا کروڑوں روپیہ برباد ہونے سے بچے گا۔ چوتھا، شہریوں کا سر درد گھٹے گا۔ پانچواں،ڈیجیٹل نظام کی وجہ سے ہر خریداری پر صارفین کا ٹیکس فوری کٹ جائے گا۔ ابھی ٹیکس چوری کے باوجود اکیلے گوڑگاؤں میں مختلف کمپنیوں پر 13 ہزار کروڑ روپے کا انکم ٹیکس بقایا ہے۔ پورے بھارت میں اس مالی سال میں صرف 11لاکھ 35ہزار کروڑ روپے کا انکم ٹیکس وصول کیاگیا ہے۔ یہ بات سبھی مانتے ہیں کہ انکم ٹیکس کی مار سے بچنے کے لیے ٹیکس دہندگان کو کافی ناانصافی اور غیر قانونی ہتھکنڈوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور انکم ٹیکس بھرنے کا عمل بھی اپنے آپ میں بڑا سر درد ہے۔ خرچ پر اگر ٹیکس لگے گا تو آمدنی میں جو پیسہ بڑھے گا ‘لوگ اسے لوگ بینکوں میں رکھیں گے۔وہ پیسہ کام دھندوں میں لگے گا‘ اس سے ملک میں پیداوار اور روزگار میں اضافہ ہوگا۔ ٹیکس کا حساب دینے میں جو مغز ماری اور رشوت وغیرہ کے خرچ ہوتے ہیں‘ ان سے بھی راحت ملے گی۔ تقریباً سات کروڑ لوگ جوہر سال ٹیکس بھرتے ہیں‘ وہ سرکار کے شکرگزار ہوں گے۔ لاکھوں سرکاری اہلکاروں کو بھی راحت ملے گی جنہیں ٹیکس کی گنتی کرنا پڑتی ہے یا ٹیکس چوروں پر نگرانی رکھنا پڑتی ہے۔ نوکری پیشہ افراد اور دکانداروں کو بھی ٹیکس بچانے کے لیے طرح طرح کے داؤ بیچ نہیں لڑانا پڑیں گے۔ تین‘ چار کروڑ لوگ ایسے ہیں جو انکم ٹیکس فارم بھرتے ہیں لیکن ٹیکس نہیں دیتے اور ایسے لوگوں میں چھوٹے کاروباری لوگ زیادہ ہیں۔ بڑے کسان، سیاستدان لوگ اور بڑے صنعت کار ٹیکس چوری کے فن کے گرو ہوتے ہیں۔ وہ اپنے کروڑوں‘ اربوں روپے فرضی کھاتوں یا غیر ملکی بینکوں میں چھپا کر رکھتے ہیں۔ چند سال قبل نوٹ بندی کی مہم اسی نیت سے چلائی گئی تھی کہ حکومت ان رجحانات کوقابو کرے گی لیکن وہ زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ کالا دھن بڑھتا ہی گیا۔ اگر انکم ٹیکس کا رواج ہی ختم کر دیا جائے تو سرے سے کوئی کالا دھن پیدا نہیں ہو گا۔ اس وقت دنیا کے درجن بھرسے زیادہ ملکوں میں انکم ٹیکس ہے ہی نہیں۔ ان میں سعودی عرب، عمان، کویت،بحرین، یو اے ای اور مالدیپ جیسے مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ ان ملکوں میں سیلز ٹیکس یا بھارت کے جی ایس ٹی کی طرح کا ٹیکس ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ ''جائیکر‘‘میں بھی چوری اور چالاکی کے خدشات رہیں گے لیکن انکم ٹیکس کے مقابلے وہ بہت کم ہوں گے۔
سنتوں اور نیتاؤں کی ملی بھگت؟
بی جے پی (بھاجپا) کے صدر جگت پرکاش نڈا کے ایک حالیہ بیان پر بھارتیہ اخباروں اور ٹی وی چینلوں نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ نڈا حکمران پارٹی کے صدر ہیں اور جس مدعے پر انہوں نے بھاجپا سے خطاب کیا ہے‘ وہ مدعا ان سب مدعوں سے زیادہ اہم ہے جو اس وقت بھارت کے دیگر نیتالوگ اٹھا رہے ہیں۔ وہ مدعا ہے: ہندو ریاست،ہندو دھرم‘ گوروؤں اور ہندو‘مسلم جیسے مدعوں پر بیان بازی و غیرہ کا۔ کئی دیگر مدعے جیسے گوتم اڈانی، بی بی سی کی ڈاکیومنٹری، شو سینا، تری پورہ کا الیکشن وغیرہ پر آج کل جم کر 'توتومیں میں‘ کا دور چل رہا ہے۔ لیکن یہ سب وقتی مدعے ہیں؛ البتہ جن مدعوں کی طرف بھاجپا کے صدر پرکاش نڈا نے اشارہ کیا ہے‘ ان کا بھارت کے موجودہ وقت سے ہی نہیں‘ مستقبل سے بھی گہرا تعلق ہے۔ اگر بھارت میں فرقہ وارانہ منافرت پھیل گئی تو 1947ء میں ہندوستان کے صرف دو ٹکڑے ہوئے تھے‘ اب کی بار بھارت کے 100 ٹکڑے ہو جائیں گے۔ اس کے شہر شہر، گاؤں گاؤں اور محلے محلے ٹوٹے ہوئے دکھائی پڑیں گے۔ کچھ بھارتی نوجوان جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور جنہیں تاریخ کا علم بھی نہیں ہے‘ وہ لاکھوں لوگوں کو اپنا گیان بانٹنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ لوگوں نے انہیں ''بابا‘‘ بنا دیا ہے۔ انہیں خود پتا نہیں ہے کہ وہ اپنے بھگتوں سے جو کچھ کہہ رہے ہیں‘ اس کا مطلب کیا ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کا بھی برا نہ چاہتے ہوں لیکن ان کے کتھن سے جو آواز نکلتی ہے‘ وہ بھارت میں تنگ نظر فرقہ پرستی کی آگ پھیلا سکتی ہے۔ جو بھارت کو ہندو ریاست بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ ان باباؤں سے آپ پوچھیں کہ آپ کو ''ہندو‘‘ لفظ کی اصلیت اور مقصد کا بھی کچھ علم ہے؟ اس پر آپ انہیں زیرو نمبر دیں گے۔ بھارتیہ نیتاؤں کا بھی یہی حال ہے۔ آج کل سادھو اور نیتا لوگ اتنے زیادہ ڈرامے باز ہوگئے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی پناہ میں سہولت سے رام ہوجاتے ہیں۔اسے ہی سنسکرت میں اس طرح بیان کیاگیا ہے کہ گدھا اونٹ سے کہتا ہے کہ واہ!کیا خوبصورت شکل ہے تیری ؟ اور اونٹ گدھے سے کہتا ہے کہ کیا پیاری ہے تیری آواز۔ اسی گھال میل کے خلاف پرکاش نڈا نے اپنے ایم پیز کو وارننگ دی ہے کہ اپنے آپ کو پرم پوجیہ، مذہبی اور ہندو دھرم کے سیوک کہلوانے والے بھگوا دھاریوں کو میں نے کئی کرپٹ نیتاؤں کی قدم بوسی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسے سنت جو عصمت دری، ریپ، ٹھگی اور قتل وغیرہ جیسے غلط کاموں کی وجہ سے آج کل جیلوں میں سڑ رہے ہیں‘ ان سنتوں کے آگے دم ہلاتے ہوئے نیتاؤں کو کس نے نہیں دیکھا ؟ سادھو سنت اور نیتا‘ دونوں ہی اپنی دکانیں چلانے کے لیے غیر اعلانیہ گٹھ جوڑ میں بندھے رہتے ہیں۔ یہی گٹھ جوڑ ضرورت پڑنے پر فرقہ پرستی، پیشین گوئیوں اور چمتکاروں کا جال بچھاتا ہے اور عام لوگ اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ بھاجپا کے صدر نے اپنے ایم پیز کو جو سبق دیا ہے وہ سبھی پارٹیوں کے نیتاؤں پر نافذ ہوتا ہے۔ آج کل بے سرو پیر کی بات کرنے والے باباؤں کی خوشامد میں کس پارٹی کے نیتا زمین آسمان ایک کرتے ہوئے دکھائی نہیں پڑ رہے؟ چناؤ کا دور شروع ہو گیا ہے‘ اسی لیے تھوک ووٹ پانے کے لیے جو تگڑم مفید ہو‘ نیتا لوگ اسے آزمانے لگتے ہیں۔ بھاجپا کے صدر نے اپنے ایم پیز کو جو سجھائو اس دور میں دیا ہے‘ اس کے لیے وہ تعریف کے مستحق ہیں۔