امریکی صدر جو بائیڈن کے یوکرین کے خفیہ دورے نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ ویسے پہلے بھی کئی امریکی صدور جیسے جارج ڈبلیوبش، براک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ وغیرہ اس طرح کے دوروں پر جنگ زدہ عراق اور افغانستان جا چکے ہیں لیکن اس وقت ان ممالک میں امریکی افواج کا تسلط قائم ہوچکا تھا لیکن یوکرین میں نہ تو امریکی افواج موجود ہیں اور نہ ہی وہاں جنگ بندی ہوئی ہے۔ وہاں اب بھی روسی حملے جاری ہیں۔ یوکرین جنگ کو اب ایک سال ہو چکا ہے اور اندازاً دونوں ممالک کے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ فوجی اب تک اس جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہزاروں گھر منہدم ہوچکے ہیں اور لاکھوں لوگ ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ یوکرین پھر بھی روس کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے‘ خودسپردگی نہیں کر رہا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یوکرین کو امریکہ کی کھلی حمایت ہے۔ امریکہ کی حمایت کا مطلب یہی نہیں کہ امریکہ صرف ڈالر اور اسلحہ یوکرین کو دے رہا ہے، اس کی شہ پر یورپ کے27نیٹو ممالک بھی یوکرین کے تحفظ کے لیے کمربستہ ہیں۔ صدر بائیڈن تو جنگ شروع ہونے کے ایک سال بعد یوکرین پہنچے ہیں لیکن فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، جرمن چانسلر اولف شولز، کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور رشی سوناک بھی یوکرین کے دارالحکومت کیف پہنچ کر صدر ولادیمیر زیلنسکی کی پیٹھ تھپتھپا چکے ہیں۔ صدر بائیڈن کی پولینڈ میں موجودگی کے دوران میڈیا میں یہ چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ وہ یوکرین کا دورہ کر سکتے ہیں لیکن اس کے باجود ان کی یوکرین روانگی نے سب کو حیران کر دیا۔ صدر بائیڈن کے ساتھ صرف دو صحافیوں کو بھی سفر کی اجازت دی گئی جن سے پہلے رازداری کا حلف لیا گیا اور ان کے موبائل فون بھی لے لیے گئے تھے۔ ان صحافیوں کو اس دورے کی خبر شائع کرنے کی اجازت اس وقت تک نہیں ملی جب تک صدر بائیڈن کیف پہنچ نہیں گئے۔ صدر بائیڈن کا کیف پہنچنا اس لیے بھی حیران کن رہا کہ اس وقت روسی حملہ بہت زوروں پر ہے اور صدر بائیڈن کی جان کو کوئی خطرہ بھی لاحق ہو سکتا تھا، اسی لیے یہ دورہ بالکل خفیہ رہا؛ البتہ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے اس دورے سے چند گھنٹے قبل ماسکو کو خبردار کیا تھا کہ صدر بائیڈن کیف جارہے ہیں تاکہ اس جنگ کو ختم کیا جاسکے۔ لیکن بائیڈن نے وہاں جا کر کیا کیا؟ انہوں نے صدر زیلنسکی کی پیٹھ تھپتھپائی اور 500 ملین ڈالر مالیت کے ہتھیار مزید ان کے حوالے کردیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے روس اور چین کو وارننگز بھی دیں۔ امریکی ترجمان نے چین پر الزام لگایا ہے کہ وہ روس کو ہتھیار سپلائی کررہا ہے۔ چین نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ یوکرین کو اشتعال دلانے کے بجائے اسے سمجھانے کا کام کرے۔ فروری کے اوائل میں امریکہ کی جانب سے ایک چینی غبارے کو مار گرائے جانے کے بعد سے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلقات پہلے ہی خراب ہیں۔ دونوں ملکوں نے غصے سے بھرے الفاظ کا تبادلہ کیا، لیکن یکساں طور پر دونوں ہی اس واقعے سے شرمندہ دکھائی دیے اور آگے بڑھنے کے لیے تیار نظر آئے لیکن اب اگر چین پر یوکرین میں روسی افواج کی مدد کے لیے ہتھیار پہنچانے کے الزامات میں شدت آتی ہے تو امریکہ اور چین کے تعلقات بہت زیادہ خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ امریکہ کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ چین روس کی معیشت کو تباہ کرنے والی مغربی پابندیوں سے بچنے میں روس کی مدد کر رہا ہے۔ روس کے ساتھ چین کی تجارت بڑھ رہی ہے اور یہ روسی تیل، گیس اور کوئلے کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے۔دوسری طرف امریکہ سمیت نیٹو کے ارکان یوکرین کو ٹینکوں سمیت مختلف قسم کے ہتھیار، گولہ بارود اور سامان بھیج رہے ہیں۔ امریکہ کے بعض ریپبلکن رہنماصدر بائیڈن کی پالیسیوں کو غلط قرار دے چکے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ صدر بائیڈن نے صدر زیلنسکی کو ایسے مشورے دیے ہوں گے جن سے یہ جنگ بند ہو سکے۔ درحقیقت عالمی سپر پاور بنتے ہوئے چین سے امریکہ نے ایسا ایشو کھڑا کر رکھا ہے کہ وہ اس جنگ کو جاری ہی دیکھنا چاہتا ہے۔ اس سے امریکہ کے ہتھیاروں کی انڈسٹری (scripture industry) بھی بے حد خوش رہتی ہے۔ بھارت کے اب بھی دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات بہت بہتر ہیں۔ اس موقع پر بھارت کا کردار منفرد ہو سکتا ہے لیکن بھارت کے پاس اس سطح کاکوئی لیڈر یا کوئی سفارت کار ہونا ضروری ہے۔
اپنی بقا کے لیے کانگرس کیا کرے؟
انڈین نیشنل کانگرس کا عظیم الشان اجلاس رائے پور میں ہونے جا رہا ہے۔ اس میں کانگرس کمیٹی کے 1000 ارکان اور تقریباً 15ہزار نمائندے حصہ لیں گے۔ اس اجلاس میں 2024ء میں ہونے والے بھارت کے عام چناؤ کی حکمت عملی طے ہوگی۔ اس حکمت عملی کا پہلا نکتہ یہی ہے کہ کانگرس اور باقی سبھی اپوزیشن جماعتیں ایک ہو کر بھاجپا کی مخالفت کریں جیسا کہ 1967ء کے عام چناؤ میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی پہل پر ہوا تھا۔ اس وقت سبھی کانگرس مخالف پارٹیاں متحد ہو گئی تھیں۔ نہ تو نیتاؤں کے ذاتی عزائم آڑے آئے تھے اور نہ ہی نظریات کی رکاوٹیں کھڑی ہوئی تھیں۔ اس اتحاد کو کچھ راجیوں میں کامیابی ضرور مل گئی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ وہ سرکاریں کتنے دن تک چل پائی تھیں؟ یہ تجربہ 1977ء میں بھی ہوا جب ایمرجنسی کے بعد مرار جی ڈیسائی اور چرن سنگھ کی سرکاریں بنی تھیں۔ اس سے بھی زیادہ تلخ حادثہ ہوا وشو ناتھ پرتاپ سنگھ اور چندر شیکھر کی سرکاروں کے دنوں میں۔ اپوزیشن پارٹیوں کے غیر فطری اتحادوں کے مضر اثرات اتنے تکلیف دہ رہے ہیں کہ بھارت کے عوام اب ان سے اُوب چکے ہیں۔ کیا کانگرس ایک مصنوعی اتحاد سے 2024ء میں عوام کو متاثر کر سکے گی؟ اور کیا عوام اس سے متاثر ہو کر نریندر مودی کو اقتدار سے بے دخل کر دیں گے؟ اس کے علاوہ پچھلے گٹھ بندھنوں کے وقت ایمرجنسی نے 'بو فورس‘ جیسا کردار ادا کیا تھا، یعنی ایسا بڑا مدعا جس نے راجیو گاندھی کی حکومت کو چلتا کیا تھا۔ ایسا کوئی مدعا ابھی تک اپوزیشن کے ہاتھ میں نہیں لگا ہے۔ جہاں تک گوتم اڈانی کے معاملے کا سوال ہے اپوزیشن اسے ابھی تک 'بو فورس سکینڈل‘ کی شکل نہیں دے پائی ہے۔ اس کے علاوہ آج اپوزیشن کے پاس رام منوہر لوہیا، جے پرکاش، چندر شیکھر اور وی پی سنگھ جیسا کوئی لیڈر بھی نہیں ہے۔ نتیش کمار میں وہ امکان تھوڑا بہت ضرور ہے‘ جبھی وہ 2005ء سے اب تک بہار کے وزیراعلیٰ ہیں‘ لیکن کانگرس اپنے سامنے کسی دوسرے کو کیوں ٹکنے دے گی؟ اس کے لیے تو راہل گاندھی ہی سب سے بڑا نیتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کی کوئی بھی اہم قومی و صوبائی پارٹی راہل گاندھی کو اپنا نیتا ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ راہل نے 'بھارت جوڑو یاترا‘ کے ذریعے تھوڑا بہت 'آتم شکتن‘ یعنی اپنی امیج بلڈنگ ضرور کی ہے لیکن کانگرس کے اپنے کارکنوں کے دلوں میں بھی راہل کو لے کر کسی قدر غم و غصہ ہے۔ کانگرسی نیتا جے رام رمیش کا یہ کہنا بالکل ٹھیک ہے کہ کانگرس کے بغیر اپوزیشن کا اتحاد ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ آج بھی بھارت کے ہر شہر اور ہر گاؤں میں کانگرس کے کارکنان موجود ہیں۔ بلاشبہ یہی اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ دوسری طرف مودی سرکار چاہے بھارت میں کوئی انقلابی اور بنیادی تبدیلی ابھی تک نہیں لا پائی ہے لیکن اس نے اب بھی بھارت کی بیشتر عوام کے دلوں پر اپنا سکہ جما رکھا ہے۔ رائے عامہ کے ایک حالیہ سروے میں ایک لاکھ بیس ہزار لوگوں میں سے صرف نو فیصد نے کہا ہے کہ وہ راہل گاندھی کو بھارت کا اگلا وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے مقابلے مودی کو پھر سے بھارت کا وزیراعظم دیکھنے کے خواہشمندوں کی تعداد اس سے دگنی سے بھی زیادہ ہے۔ کانگرس جیسی عظیم پارٹی کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے پاس نہ آج کوئی قابلِ ذکر نیتا ہے اور نہ ہی کوئی پُرکشش پالیسی ہے۔ اس کے پاس تو ''غریبی ہٹائو‘‘ جیسا کوئی فرضی نعرہ تک نہیں ہے۔