نیپال میں نئی سرکار کو بنے مشکل سے دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور اب وہاں کے حکمران گٹھ بندھن میں زبردست اٹھا پٹک ہوگئی ہے۔ اٹھا پٹک بھی جو ہوئی ہے وہ دو کمیونسٹ پارٹیوں کے درمیان ہوئی ہے۔ یہ دونوں کمیونسٹ پارٹیاں پہلے بھی نیپال میں حکومت کر چکی ہیں۔ دونوں کے نیتا اپنے آپ کو تیس مار خاں سمجھتے ہیں۔ حالانکہ پچھلے چناؤ میں یہ دونوں کمیونسٹ پارٹیاں نیپالی کانگرس کے مقابلے پھسڈی ثابت ہوئی تھیں۔ نیپالی کانگرس کو پچھلے چناؤ میں 89 سیٹیں ملی تھیں جبکہ پشپ کمل دہل پراچنڈ کی کمیونسٹ پارٹی کو صرف 32 اور کے پی اولی کی ماؤوادی کمیونسٹ پارٹی کو 78 سیٹیں ملی تھیں۔ دونوں کمیونسٹ پارٹیوں نے کچھ دیگر چھوٹی موٹی پارٹیوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر بھان متی کا کنبہ کھڑا کرلیا۔ شیر بہادر دیوبا کی نیپالی کانگرس دھر ی رہ گئی لیکن اب دو ماہ کی حکومت کے بعد ہی دونوں کمیونسٹ پارٹیوں میں اتنے اختلافات پیدا ہوگئے کہ نیپال کے وزیراعظم پراچنڈ نے نیپالی کانگرس کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے اور اب صدر کے عہدے کے لیے اولی کی پارٹی کو نظرانداز کر کے انہوں نے نیپالی کانگرس کے رہنما رام چندر پوڈیل کو صدر کے عہدے کا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ اس بات پر کے پی اولی خفا ہو گئے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پراچنڈ نے حکومت کے اتحاد کے لیے جو معاہدہ ہوا تھا‘ اس کی وعدہ خلافی کی ہے ‘ اسی لیے وہ سرکار سے الگ ہو رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کے ممبران جن میں نائب وزیراعظم سمیت 8 وزرا شامل ہیں‘ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان استعفوں کے باوجود فی الحال پراچنڈ کی سرکار کے گرنے کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ نئے گٹھ بندھن کو اب بھی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے۔ نیپالی پارلیمنٹ میں اس وقت پراچنڈ کے ساتھ 141ارکان ہیں جبکہ سرکار میں بنے رہنے کے لیے انہیں کل 138 ارکان کی ضرورت ہے۔ البتہ دیکھنا یہ ہے کہ صرف تین ممبروں کی اکثریت سے یہ سرکار کتنے دن چلے گی؟ کیونکہ دیگر تقریباً آدھا درجن پارٹیاں اس گٹھ بندھن سے کب کھسک جائیں گی‘ کچھ پتا نہیں۔ انہیں کھسکانے کے لیے بڑے سے بڑے لالچ دیے جا سکتے ہیں۔ نیپالی صدر کا چناؤ 9 مارچ کو ہونا ہے۔ اس ایک ہفتے میں کوئی بھی پارٹی کسی بھی گٹھ بندھن میں آجا سکتی ہے۔ ایسی صورت میں نیپال کی صورت حال اتنی غیر یقینی ہو سکتی ہے کہ صدر کا انتخاب ہی ملتوی کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ کسی بھی جماعت کے پاس واضح اکثریت نہ ہونے سے آئندہ بھی جو حکومت بنے گی‘ وہ اسی طرح کی اتحادی حکومت ہوگی جس کے گرنے کے خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہے گا۔ نیپال کی اس اتھل پتھل میں بھارت کا کردار زیادہ گہرا نہیں ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ دونوں کمیونسٹ پارٹیاں کبھی پوری طرح بھارت مخالف رہی ہیں اور کبھی کبھی مصیبت میں پھنسنے پر بھارت کے ساتھ سہج بننے کی کوشش بھی کرتی رہی ہیں۔ اس بحران زدہ نیپالی سیاست میں چین کا کردار کافی اہم رہنے والا ہے کیونکہ دونوں کمیونسٹ پارٹیاں چین کی حمایتی رہی ہیں۔ البتہ اس سیاسی بحران نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ طاقت اور اقتدار ہی اصل حقیقت ہیں اور نظریات وغیرہ تو سب وقتی باتیں ہیں۔ جب کمیونسٹ پارٹیوں کا اتحاد ہوا تھا اس وقت بھارت کو کسی قدر پریشانی بھی لاحق ہوئی تھی کیونکہ یہ واضح تھا کہ چین کی حمایت دونوں کمیونسٹ پارٹیوں کو حاصل تھی مگر جس طرح یہ ساجھے کی ہنڈیا دو ماہ بعد ہی چوراہے میں پھوٹ گئی ہے‘ اس سے یہی سبق ملتا ہے کہ اقتدار میں کوئی کسی کا ساتھی نہیں ہے۔
نریندر مودی کی توہین
کانگرس کے ترجمان پون کھیڑا نے بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی کے والد کے لیے جس نام کا استعمال کیا ہے، وہ انتہائی قابلِ اعتراض ہے۔ انہوں نے نریندر دامودر داس مودی کی جگہ ''نریندر گوتم داس‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی آج کل جو صنعت کار گوتم اڈانی کا معاملہ چل رہا ہے،اس میں انہوں نے اڈانی کے نام کا استعمال مودی کے والد کی جگہ کردیا۔ دوسرے الفاظ میں یہ تضحیک آمیز بیان اگر غلطی سے بھی دیا گیا ہے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کانگرس کس قدر اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو گئی ہے۔ اسے اب سونیا گاندھی اور راہل گاندھی بھی نہیں بچا سکتے‘ صرف گوتم اڈانی ہی بچا سکتا ہے۔ اسی لیے آج کل سارے کانگرسی اڈانی کے نام کی مالا جپتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سے نام نہاد 'ناخواندہ ہندوتوا‘یہ پروپیگنڈا کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ جواہر لال نہرو اور شیخ عبداللہ حقیقی بھائی تھے۔اس طرح کے بے بنیاد اور فضول و بے تکے بیانات سے آج کل بھارت کی سیاست انتہائی عاجز ہے۔ پہلے پون کھیڑا نے جے پی سی کی تشکیل کے مطالبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا :پارلیمنٹ میں بحث سے کیوں بھاگ رہے ہو؟ جے پی سی سے کیوں ڈرتے ہو؟ یہاں تک کہ پی وی نرسمہا راؤ (کانگرسی رہنما) اور اٹل بہاری واجپائی (بی جے پی رہنما) نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں جے پی سی قائم کیں۔ نریندر 'گوتم داس دامودر داس‘ کو جے پی سی سے کیا مسئلہ ہے؟ پھر پریس کانفرنس میں انہیں پاس بیٹھے ایک شخص سے پوچھتے ہوئے دیکھا گیا کہ گوتم داس ہے یا دامودر داس؟ پھر انھوں نے کہا کہ نام میں دامودر داس ہے لیکن اعمال گوتم داس کے ہیں۔ بعد میں پون کھیڑا نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہاکہ میں واقعی کنفیوز ہو گیا تھا کہ دامودر داس ہے یا گوتم داس۔ یہ اچھا ہوا کہ پون کھیڑا نے اب اپنے بیانات پر معافی مانگ لی ہے اور کہا کہ وہ جملہ انجانے میں ان کے منہ سے نکل گیا تھا۔ لیکن اس کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑا ہے۔ اترپردیش پولیس نے ایک مقامی بی جے پی رہنما کی شکایت پر کھیڑا کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کر لی۔ پولیس اہلکار نے بتایا کہ یہ مقدمہ لکھنؤ کے حضرت گنج پولیس سٹیشن میں دفعہ 153-A (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے)، دفعہ500 (ہتکِ عزت)، دفعہ 504 (امن عامہ کے خلاف اکسانے کے ارادے سے دانستہ طور پر توہین) اور دفعہ 505 (2) (مختلف طبقوں کے درمیان دشمنی، نفرت پیدا کرنے والے یا فروغ دینے والے بیانات) کے تحت درج کی گئی۔اس کے علاوہ ایک دوسری ایف آئی آر بھی کھیڑا کے خلاف درج کی گئی ۔ لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے صرف دو‘ تین گھنٹے میں ہی کھیڑا کو گرفتاری سے آزاد کر دیا، انہیں ضمانت دے دی اور پورے معاملے کی سماعت اگلے ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی۔ اس مقدمے کی پیروی معروف وکیل ابھیشیک سنگھوی نے کی تھی۔ سنگھوی نے بھی پون کھیڑا کے بیان کو نامناسب قرار دیا اور معافی مانگنے کی بات کہی لیکن سنگھوی نے کھیڑا کے حق میں بہت مضبوط دلائل دیے۔ انہوں نے کہا کہ جن پانچ دفعات کے تحت کھیڑا کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں سے ایک دفعہ بھی ان پر نافذ نہیں ہوتی ہے۔ کھیڑا کے بیان سے نہ تو مذہبی منافرت پھیلتی ہے، نہ قومی اتحاد میں خلل پڑتا ہے اور نہ ہی ملک میں بدامنی پھیلتی ہے۔ بھارتیہ سپریم کورٹ نے کھیڑا کو ضمانت پر تو رہا کر دیا ہے لیکن ان کے بیان پر کافی ناراضی کا اظہار کیا ہے، جو درست بھی ہے۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ آسام حکومت کی پولیس نے دہلی حکومت کی مدد سے جو کچھ کیا ہے‘ کیا وہ صحیح ہے؟ کھیڑا کو پولیس نے ہوائی جہاز سے اتار کر گرفتار کیا تھا۔ کیا انہوں نے کوئی ایسا ہی سنگین جرم کیا تھا؟ آسام کے وزیراعلیٰ ہمنتوا بسوا سرما نے یہاں تک کہا کہ بھارت کانگرسیوں کے ایسے ''خوفناک‘‘ بیان کو معاف نہیں کرے گا۔ کانگرسیوں کا ماننا ہے کہ انہوں نے گوتم اڈانی کا نام لے کر مودی کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا جیسا کہ بی بی سی نے نریندر مودی پر فلم بنا کر کیا تھا، اسی لیے آسام اور دہلی پولیس نے یہ غیرمعمولی قدم اٹھایا۔ اس اقدام نے مندرجہ بالا قابلِ اعتراض بیان کو ملک بھر میں طول دیا ہے۔ مایوس اور نااُمیدکانگرسیوں کے انتہا درجے کے بیانات پر آج کل کون توجہ دیتا ہے، لیکن کیا حکمران بی جے پی کے اس طرح کے شدید ردعمل کا اثر اُلٹا نہیں ہوتا ہے؟