بھارتی ریاست گجرات کی ریاستی اسمبلی نے متفقہ طور پر جیسی قراردار منظور کی ہے‘ ویسی بھارت کی ہر اسمبلی کو کرنی چاہیے۔ اس قرار دار میں گجرات کے تمام پرائمری سکولوں میں مادری زبان گجراتی کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے‘ اس سے پہلے مرکزی بورڈ سے منسلک سکولوں میں طالب علموں کے لیے گجراتی کو بطور مضمون منتخب کرنے کا آپشن ہوتا تھا۔ اب ان سکولوں میں پہلی سے آٹھویں جماعت تک کے طلبہ کے لیے گجراتی پڑھنا لازمی ہوگا۔ ریاستی حکام کے مطابق اگر کوئی سکول پہلی بار اس بل کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے 50ہزار روپے تک جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ بعد کی خلاف ورزیوں پر ایک سے دو لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا اور جو سکول مسلسل اس اصول کی خلاف ورزی کریں گے‘ ریاستی حکومت ان کی رجسٹریشن ہی منسوخ کردے گی۔ اس بل پر اپوزیشن جماعتوں نے بھی مثبت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ کانگرس کے قانون ساز امیت چاوڈا نے ریاستی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ثانوی اور اعلیٰ سطحوں پر بھی گجراتی کو لازمی مضمون کے طور پر متعارف کرائے۔ کانگرس کے ریاستی ترجمان منیش دوشی نے بھی بل کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ مہاراشٹر اور جنوبی ریاستوں میں مادری زبان کے فروغ کے حوالے سے ایک جیسے قوانین نافذ ہونے لگے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مادری زبان کی اہمیت سال بہ سال بڑھ رہی ہے۔ مجھے امید ہے کہ گجرات حکومت اس بل کو عملاً نافذ کرے گی اور یہ محض کاغذوں تک ہی محدود نہیں رہ جائے گا اور یہ کہ حکومت ادب‘ تھیٹر اور فلموں کے ذریعے بھی گجراتی کی حوصلہ افزائی کرے۔دیگر ریاستوں سے تعلق رکھنے والے لیکن گجرات میں سکونت پذیر طلبہ پر مذکورہ اصول نافذ نہیں ہوگا۔ جبکہ میری رائے یہ ہے کہ غیر گجراتی طلبہ پر بھی یہ اصول نافذ ہونا چاہیے‘ کیونکہ بھارت کے کسی بھی صوبے سے آنے والے طلبہ و طالبات کے لیے گجراتی سیکھنا بہت آسان ہے۔ اس کا رسم الخط تو ایک دو دن میں ہی سیکھا جا سکتا ہے اور جہاں تک زبان کا سوال ہے‘ وہ بھی چند ہفتوں میں سیکھنا مشکل نہیں ہے۔ یہ بات تمام بھارتی زبانوں کے بارے میں نافذ ہوتی ہے کیونکہ تمام ہندوستانی زبانیں سنسکرت سے ماخوذ ہیں۔ یہاں یہ سوال ٹھیک ہے کہ جن افسروں اور تاجروں کو تھوڑے عرصے میں ہی اپنا صوبہ بدلنا پڑتا ہے‘ کیا ان کے بچوں کو زبان کے حوالے سے مشکل پیش نہیں آئے گی؟ وہ کتنی زبانیں سیکھیں گے؟ اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ بچپن میں کئی زبانیں سیکھ لینا بہت آسان ہوتا ہے۔ میں نے فارسی رسم الخط کچھ ہی گھنٹوں میں سیکھ لیا تھا اور انگریزی‘ روسی‘ جرمن اور فارسی جیسی غیرملکی زبانیں سیکھنے میں بھی مجھے چند ہفتے ہی لگے تھے۔ اگر بھارت کے بچوں کے لیے مقامی زبان سیکھنا لازمی قرار دے دیا جائے تو بھارت کے کروڑوں بچے ایک سے زیادہ زبان جاننے و بولنے والے بن جائیں گے۔ جدید بھارت میں کروڑوں لوگ ایک دوسرے کی ریاستوں میں رہتے اور آتے جاتے ہیں۔ یہ عمل قومی یکجہتی کو تقویت بخشے گا اور بھارتی نوجوانوں کی فکری صلاحیتوں کو نئی رفتار دے گا۔ اگر بھارت میں مقامی زبان کی لازمی پڑھائی کا اصول نافذ ہو جائے تو بھارت کے پڑوسی ممالک بھی اس پر عمل کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ نیپال میں نیپالی اور ہندی‘ سری لنکا میں سنہالی اور تامل‘ افغانستان میں پشتو اور دری اور پاکستان میں پنجابی‘ پشتو‘ سندھی اور بلوچی زبانوں کو ایک ساتھ جاننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ ایسا ہونے پر ان ممالک کا اتحاد نہ صرف مضبوط ہوگا بلکہ ان میں باہمی ہم آہنگی میں بھی اضافہ ہوگا۔ جب مادری زبانوں کے تئیں محبت میں اضافہ ہوگا تو ہر قوم کی قومی زبان یا رابطہ زبان کو بھی اس کا مناسب مقام ملے گا۔ بھارت میں انگریزی کی غلامی کیوں بڑھتی جارہی ہے؟ کیونکہ ہم نے اپنی مادری زبانوں کو اپنی پڑھائی میں ملازمہ کا درجہ دے رکھا ہے۔ اسی لیے بھارت میں آج بھی انگریزی ملکہ بنی ہوئی ہے۔ ہمارے بچے بی اے‘ ایم اے کی پڑھائی اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی کام میں ایک انگریزی ہی نہیں‘ بلکہ مختلف غیر ملکی زبانوں سے فیضیاب ہوں‘ یہ بھی ضروری ہے لیکن بچپن سے ہی مادری زبان اور قومی زبان کو نظرانداز کرنا کسی بھی قوم کو سپر پاور یا خوشحال نہیں بنا سکتا۔
روس کا ایک اہم فیصلہ
بھارتی ریاستوں راجستھان اور اُترپردیش کی سرکاریں وہاں انگریزی میڈیم سکولوں کی تعداد میں اضافہ کر رہی ہیں لیکن اُدھر روس کی طرف دیکھیں‘ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اگلے روز ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے مطابق اب روس کے سرکاری کام کاج میں کوئی بھی روسی افسر انگریزی الفاظ کا استعمال نہیں کرے گا۔ اس معاہدے میں انگریزی محاوروں کا استعمال بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے لیکن جس غیرملکی زبان کے الفاظ کا روسی مترادف دستیاب نہیں ہے‘ ان کا مجبوراً استعمال کیا جا سکتا ہے۔ روس ہی نہیں چین‘ جرمنی‘ فرانس اور جاپان جیسے ملکوں میں بھی مقامی زبانوں کی حفاظت کی بڑی مہمات چل پڑی ہیں۔ آج کل دنیا کافی سکڑ گئی ہے‘ سبھی ملکوں میں بین الاقوامی کاروبار‘ ڈپلومیسی‘ آمد و رفت وغیرہ کافی بڑھ گیا ہے۔ اس لیے ان علاقوں سے جڑے لوگوں کو غیرملکی زبانوں کا آنا ضروری ہے لیکن بھارت جیسے انگریزوں کے سابق غلام ممالک میں انگریزی کا تسلط اتنا بڑھ گیا ہے کہ بھارت کی مقامی سو سے زائد زبانیں اب معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ بھارت کے نیتاؤں کی فکر اتنی سطحی ہے کہ وہ ان سو سے زائد زبانوں کے زوال کے نقصانات سے ناواقف ہیں۔ کیا بھاجپائی‘ کیا کانگرسی اور کیا سماج وادی نیتا‘ سبھی انگریزی کی غلامی کررہے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ مادری زبانوں کو ختم کرکے آپ اپنی سنسکرتی روایات کو بچا نہیں سکتے۔ زبان بدلنے سے آدمی کی سوچ بدلتی ہے‘ رشتے بدلنے لگتے ہیں‘ انسان کی شناخت ختم ہو جاتی ہے۔ جن ممالک نے پچھلے کچھ سالوں میں لازوال ترقی کی منازل طے کی ہیں‘ وہ اپنی زبانوں کے ذریعے ہی ترقی کی یہ منازل طے کر سکے ہیں۔ میں دنیا کے بیشتر ممالک میں رہ کر ان کی مقامی زبانوں کو قریب سے دیکھ چکا ہوں‘ ان میں سے کسی بھی ملک کے سکولوں میں غیر ملکی زبان لازمی طورپر نہیں پڑھائی جاتی ہے۔ بھارتی بچوں پر بھی صرف انگریزی نہ لادی جائے‘ انہیں بڑے ہو کر کئی غیر ملکی زبانیں سیکھنے کی چھوٹ ہونی چاہیے لیکن اگر پرائمری کلاسوں میں ان پر انگریزی تھوپی گئی تو یہ ہماری مادری زبان ہندی کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔ انگریزی سیکھنے میں وہ طوطے بن جاتے ہیں اور ان میں احساس کمتری پنپنے لگتا ہے۔ مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے اس بات کو کافی اچھی طرح سمجھا تھا لیکن کیسی بدقسمتی ہے کہ راجستھان میں کانگرس کی سرکار ہے اور اشوک گہلوت جیسے مقامی روایات کے امین نیتا اس کے وزیراعلیٰ ہیں اور انہوں نے اِن سرکاری انگریزی میڈیم سکولوں کا نام مہاتما گاندھی انگلش میڈیم سکول رکھ دیا ہے۔ اشوک گہلوت‘ جو کانگرسی نیتا ہیں اور اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیا ناتھ‘ جو کہ بھاجپا کے نیتا ہیں‘ دونوں ذرا مہاتما گاندھی اور گورو گوالکر کے ان اقوال پر دھیان دیں۔ مہاتما گاندھی: اگر میں تانا شاہ ہوتا تو آج ہی غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا بند کر دیتا اور تمام طالب علموں کو اپنی زبانیں اپنانے پر مجبور کر دیتا اور جو ٹال مٹول کرتے انہیں برخاست کر دیتا۔ گورو گوالکر: آج بھارت کی بدحالی یہ ہے کہ انگریزی مرکزی زبان بن چکی ہے اور تمام مقامی زبانیں غلام بن گئی ہیں‘ اگر ہم آزاد قوم ہیں تو ہمیں انگریزی کی جگہ اپنی زبان لانی چاہئیں۔