جنوری کے آخری ہفتے میں سامنے آنے والی ہنڈن برگ (Hindenburg) رپورٹ کے بعد سے اڈانی گروپ کی مشکلات کا جو سفر شروع ہوا تھا‘ وہ ہنوز جاری ہے۔ایک اندازے کے مطابق اڈانی گروپ نے 2022ء میں جتنا کمایا تھا‘ اس کا دوگنا ہنڈن برگ رپورٹ ریلیز ہونے کے صرف ایک مہینے کے اندر اندر گنوا بھی دیا ۔ مذکورہ رپورٹ ریلیز ہونے سے پہلے گوتم اڈانی دنیا کے دس امیر ترین افراد کی فہرست میں چوتھے نمبر پر آ چکے تھے۔ اس وقت گوتم اڈانی کی دولت کا تخمینہ تقریباً 116 ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ ہنڈن برگ رپورٹ شائع ہونے کے بعد لیکن اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے شیئرز میں جیسے ایک بھونچال سا آ گیا اور محض 15 دن کے اندر اندر گوتم اڈانی دنیا کے دس امیر ترین افراد کی فہرست سے بھی باہر ہو گئے اوراب دنیا کے 33ویں امیر ترین شخص ہیں۔ اب بھی گوتم اڈانی اور ہنڈنبرگ رپورٹ کے معاملے پر تقریباً ہر روز نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ کا آئندہ اجلاس بھی اسی معاملے کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ اپوزیشن کے پاس بحث کرنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور مدعا ہے ہی نہیں۔ ویسے بھی ایک محاورہ ہے کہ ''بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘یعنی بڑی مشکل سے اپوزیشن کے ہاتھ یہ مدعا لگا ہے‘ وہ اسے اتنی آسانی سے کیسے چھوڑ سکتی ہے۔ اب انگریزی کے ''ہندو‘‘ اخبار میں سری لنکا کے وزیر خارجہ علی صابری کا ایک انٹرویو چھپا ہے‘ جس میں علی صابری نے دعویٰ کیا ہے کہ سری لنکا کی سرکار کے ساتھ گوتم اڈانی کے کولمبو بندرگاہ اور پاور پروجیکٹ کے حوالے سے جو سودے ہوئے ہیں‘ وہ اسی سطح کے ہیں جیسا کہ دو سرکاروں کے درمیان ہوتے ہیں۔ یہ بیان بہت معنی خیز ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ بیان دیتے ہوئے علی صابری کو اس بات کا دھیان رہا یا نہیں کہ گوتم اڈانی اور بھارت سرکار کے تعلقات کو لے کر بھارت میں پہلے ہی بڑا شور مچا ہوا ہے۔ علی صابری نے سری لنکا کو درپیش خوفناک معاشی بحران کے وقت دی جانے والی بھارتی امداد کے لیے مودی سرکار کا شکریہ بھی ادا کیا ہے لیکن انہوں نے مودی اور اڈانی کو ایک دوسرے کا مترادف بھی بنا دیا ہے۔ کوئی حیرانی نہیں کہ علی صابری کے مذکورہ بالا بیان کے بعد بھارت کے اپوزیشن رہنماؤں کے ہاتھ ایک ایسی چھڑی لگ جائے گی جس سے وہ مودی سرکار پر تنقید کے مزید نشتر برسا سکتے ہیں۔ ابھی تک تو بھارتی اپوزیشن صرف گوتم اڈانی کو تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے تھی‘ جس کا اثر شیئر مارکیٹ پر تو پڑا ہی ہے لیکن اب عوام میں بھی یہ مدعا مقبولیت پاتا نظر آ رہا ہے۔ سری لنکا کے وزیر خارجہ علی صابری اپنے بیان میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ گوکہ اڈانی گروپ کے مارکیٹ شیئرز میں اربوں ڈالر زکی کمی ہو چکی ہے لیکن انہیں اڈانی گروپ کی کارکردگی پر پورا بھروسا ہے۔علی صابری شاید یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ انہیں اڈانی گروپ پر اس لیے بھروسا ہے کیونکہ انہیں بھارت سرکار پر بھروسا ہے۔ دوسرے الفاظ میں بھارت سرکار اور اڈانی کو وہ ایک ہی سکے کے دو پہلو سمجھ رہے ہیں۔ جیسا جوش سری لنکا نے اڈانی کے منصوبوں کے حوالے سے دکھایا ہے‘ اسرائیل نے بھی ویسا ہی جوش دکھایا ہے۔ بھارتی اپوزیشن اسرائیل سے ہوئے گوتم اڈانی کے سودوں کو بھی بھارتی وزیراعظم کی اسرائیل یاترا کا نتیجہ قرار دے رہی ہے۔ اسرائیل کی حیفا بندرگاہ سٹریٹجک نقطۂ نظر سے مغربی ایشیا میں بہت اہم مقام رکھتی ہے۔ اڈانی نے اسے 1.2 بلین ڈالر میں خرید لیا ہے۔ اڈانی گروپ نے اندرون اور بیرونِ ملک اس طرح کے کئی دیگر سودے بھی کیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان سودوں سے بھارت کا کوئی نقصان ہوا ہے؟ اگر نہیں ہوا ہے تو اپوزیشن کی طرف سے خواہ مخواہ شور مچانے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا ہے۔ بھارت میں آج تک ایک بھی سرکار ایسی نہیں گزری ہے جس نے بھارتی صنعت کاروں کے ساتھ مکمل عدم تعاون کا راستہ اپنایا ہو۔ وہ اگر بھارتی صنعت کاروں سے عدم تعاون کریں گے تو اس سے بھارت ہی کا نقصان ہی ہو گا۔ سرکار کے تعاون کا مالی فائدہ اسے ضرور ملتا ہے۔ اس کے بغیر بھی سیاست چل نہیں سکتی۔ اگر اڈانی گروپ نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے یا اس کے کسی کام سے بھارت یا بھارتی عوام کا نقصان ہوا ہے تو وہ ضرور سزا کا حقدار ٹھہرے گا۔ اگر اڈانی گروپ نے کوئی جھول کیا ہے تو اس کا نقصان تو اسے اٹھانا ہی ہوگا لیکن اس میں نریندر مودی کیا کریں؟ مودی کچھ بولتے کیوں نہیں؟ ان کی خاموشی اپوزیشن کے موقف کو مزید تقویت دے رہی ہے۔
ملاوٹ خوری کی سزا
بھارت کی دو ادویہ ساز کمپنیوں کے کارناموں سے ساری دنیا میں بھارت کی بدنامی ہورہی ہے۔ اس بدنامی سے بھی زیادہ دردناک بات یہ ہے کہ ان دونوں کمپنیوں 'میڈین فارما اور میرین بائیوٹیک‘ کی دوائیوں سے گیمبیا میں 60 اور ازبکستان میں 16 بچوں کی جان چلی گئی ۔ جب میں نے پہلے پہل یہ خبریں اخباروں میں دیکھیں تو دنگ رہ گیا۔ مجھے لگا کہ بھارت سے اربوں روپے کی دوائیوں کی جو برآمدات ہر سال ہوتی ہیں‘ ان پر اِن واقعات کا کافی برا اثر پڑے گا۔ اس سے بھارت کی مستند دوائیوں پر بھی غیر ملکیوں کے دل میں شک پیدا ہو جائے گا۔ بھارتی دوائیں چونکہ امریکہ اور یورپ کی دوائوں کے مقابلے میں بہت سستی پڑتی ہیں‘ اس لیے دنیا میں اس وقت بھارتی ادویات کی مانگ کافی زیادہ ہے۔ مجھے یہ بھی لگا کہ اس معاملے نے اگر طول پکڑ لیا تو ایشیا اور افریقہ کے جن غریب مریضوں کی خدمت ان دوائیوں سے ہوتی ہے‘ اب وہ بھی اس سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ گیمبیا اور ازبکستان میں بچوں کی اموات کی وجہ کچھ اور رہی ہو۔ تقریباً دو ماہ پہلے جب یہ خبریں سامنے آئیں تو غیر مصدقہ ذرائع سے یہ بھی پتا چلا کہ کہ ان دوائیوں کے نمونوں کی مقامی سطح پر جانچ کی گئی ہے اور وہ ٹھیک پائی گئی ہیں لیکن ان ملکوں کی تحقیقاتی ایجنسیوں نے اب اپنی تحقیقات پوری ہونے پر کہا ہے کہ ان دوائیوں میں کچھ نقصان دہ مائع موجود ہے جس کی وجہ سے یہ ہلاکت خیز ثابت ہوئیں۔ اس نتیجے کی تصدیق اب امریکہ کی ایک تحقیقاتی کمپنی نے بھی کر دی ہے۔ یہ مستند رپورٹس سامنے آنے کے بعد بھارت سرکار نے مذکورہ کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے ان کے کچھ ملازمین کو گرفتار بھی کر لیا ہے لیکن دونوں کمپنیوں کے مالک اور سینئر منیجر تاحال مفرور ہیں۔ اگر ان کو یقین ہے کہ ان کی دوائیوں میں کوئی ملاوٹ نہیں کی گئی ہے تو انہیں ڈرنے کی ضرورت کیا ہے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ملاوٹ مالکوں اور منیجروں کے علم میں لائے بغیر کی گئی ہو۔ اگر ایسا ہے تو ان ملازمین کو سخت ترین سزا دی جانی چاہیے اور اگر ان کمپنیوں کے مالکان اور منتظمین بھی اس جان لیوا ملاوٹ خوری کے ذمہ دار ہیں تو ان کی سزا تو اور بھی سخت ہونی چاہیے۔ ان لوگوں پر چند لاکھ روپے کا جرمانہ بے مطلب ہوگا۔ 76 بچوں کی اموات کا ذمہ دار ہونے کی سزا بھی اتنی خوفناک ہونی چاہیے کہ آئندہ ملاوٹ خوروں کی نیندیں حرام ہو جائیں۔ انہیں یہ سزا جلدی سے جلدی دی جانی چاہیے تاکہ عام لوگوں کو بھی پتا چلے کہ ملاوٹ خوروں کا انجام کیسا ہوتا ہے۔ انہیں جیل کے بند دروازوں کے پیچھے نہیں بلکہ چوراہوں پر لٹکایا جاناچاہیے تاکہ ملاوٹ خور عناصر اس سے عبرت پکڑیں۔ اس کے بعد آپ کو بھارت میں کسی بھی طرح کے ملاوٹ خور ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے۔