بھارتی سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج ایس عبدالنذیر کو سرکار نے آندھرا پردیش کا گورنر مقرر کردیا ہے۔ اس تقرری پر اپوزیشن ہنگامہ کررہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ججوں کو پھسلانے کا یہ سب سے اچھا طریقہ ہے۔ پہلے ان سے اپنے حق میں فیصلہ کروائو اور پھر انعام کے طورپر انہیں گورنر ‘سفیر یا راجیہ سبھا کا ممبر بنوا دو۔ جو اپوزیشن مودی پر یہ الزام لگارہی ہے ‘ کیا اس نے اپنے پچھلے کارناموں پر نظر ڈالی ہے؟اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے زمانے کے کئی گورنروں ‘سفیروں اور ایم پیز سے میری جان پہچان رہی ہے جو پہلے یا تو جج یا نوکر شاہ یا ایڈیٹر رہے ہیں۔ انہوں نے جج یا ایڈیٹر یا نوکر شاہ کے طورپر سرکار کا حصہ بننا قبول کیا ہے تو سرکار نے انہیں مذکورہ عہدہ دے کر انعام سے نوازا ہے۔ وہ لوگ سمجھتے رہے ہیں کہ وہ انعام پا کر مطمئن ہوئے ہیں۔لیکن ان کی توہین کا اس سے بڑا سرٹیفکیٹ کیا ہوسکتا ہے۔ اگر انہوں نے عدالت میں بالکل ٹھیک ٹھیک فیصلہ دیا ہے‘ اگر انہوں نے غیر جانبدار اور بغیر ڈرے ایڈیٹوریل لکھے ہیں۔نیز اگر کسی نوکرشاہ نے ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کئے ہیں تو بھی یہ سرکاری انعامات پانے والوں کی ایمانداری پر لوگوں کو شک ہونے لگتا ہے۔ یہ شک تب اور بھی تگڑا ہو جاتا ہے اگر وہ انعام ملا ہو۔ ایسے انعامات اور نوازشوں سے پارلیمانی جمہوریت کی روایت متاثر ہوتی ہے۔ کیونکہ جمہوریت اور عدل و انصاف کے نظام کو اپنی اپنی حدود ہی میں رہنا چاہیے۔ اور اہلِ صحافت کو تو اپنے تئیں اور بھی زیادہ سختی برتنی چاہئے۔اگر ایڈیٹر اوررپورٹر ان عہدوں کیلئے رال ٹپکاتے رہے تو وہ صحافت کیا خاک کریں گے۔ میرے کئی پترکار دوست مختلف سرکاروں میں منتری ‘ سفیر اور پردھان منتریوں کے سرکاری صلاح کار بھی بنے۔ ان میں سے کئیوں نے قابل تعریف کام بھی کئے لیکن اس طرح کے کئی سرکاری عہدے مختلف پردھان منتریوں کے ذریعے پچھلے 60‘65سال میں مجھے کئی بار تجویزکئے گئے لیکن میرا دل کبھی نہیں مانا کہ میں ہاں کروں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایڈیٹر‘ ججوں اور نوکرشاہوں کی صلاحیت سے سرکاریں فائدہ نہ اٹھائیں۔ضرور اٹھائیں لیکن ان کے ریٹائر ہوتے ہی اگر انہیں تقرریاں ملتی ہیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرکار ان کی صلاحیت کافائدہ اٹھانے کے بجائے انہوں نے سرکار کی جو خوشامد کی ہے ‘ وہ اس کا فائدہ انہیں دے رہی ہے۔ اس سے داتا اور پاتا‘ دونوں کے وقار پر آنچ آتی ہے۔ تو ہونا کیا چاہئے ؟ ہونا یہ چاہئے کہ اپنے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد پانچ سال تک کسی بھی جج ‘ صحافی اور نوکرشاہ کو کوئی سرکاری عہدہ یا پارٹی عہدہ نہیں دیا جانا چاہئے۔بھارت میں نوکرشاہوں پر پہلے دو سال کی پابندی تھی لیکن اسے گھٹا کر اب ایک سال کردیا گیا ہے۔ موجودہ وقت میں کتنے ہی نوکرشاہ منتری اور گورنر بنے ہوئے ہیں یہ ہماری پارٹیوں اور سرکاروں کے فکری دیوالیہ پن کی بھی علامت ہے۔
ایشیائی معیشتوں پر بنی مشکل
جنوبی ایشیا کے خطے میں گزشتہ برس سے معاشی بحران نے پنجے گاڑ رکھے ہیں اور مضبوط سمجھی جانے والی کئی معیشتیں اس کے سامنے تحلیل ہوتی نظر آتی ہیں۔ سری لنکا دیوالیہ ہو چکا‘ اونچی برآمدات اور زرِمبادلہ کے بھرے ہوئے خزانے والا بنگلہ دیش قرض مانگنے کو آئی ایم ایف کے پاس جا پہنچا‘جبکہ31 دسمبر 2014 ء کے بعد سے بھارتی روپے کی قد رمیں 25 فیصد گراوٹ آئی ہے اورروپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے نریندر مودی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اپوزیشن رہنما مودی حکومت کو ا س بات کی یاد دہانی کرا رہے ہیں کہ 2014ء میں اقتدار میں آنے سے قبل بی جے پی کس طرح اس وقت کانگریس حکومت کو روپے میں گراوٹ کی وجہ سے تنقید کا ہدف بنا رہی تھی۔جو ایشیائی معیشتیں مشکلات کا شکار ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہو چکا ہے جس کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں بڑی کمی کی وجہ سے حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنا پڑ رہے ہیں لیکن مہنگائی اس حد تک بڑھ رہی ہے کہ عام لوگوں کا روزانہ کا گزارا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ سرکار نے حال ہی میں ایک سپلیمنٹری بجٹ میں شہریوں پر طرح طرح کے نئے ٹیکس تھوپ دیے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف نے ایسا کرنے کو کہا ہے اور معاشی مشکلات کی وجہ سے پاکستان کے لیے ان شرائط کو رد کرنا آسان نہ تھا۔غیر ملکی کرنسی کا بھنڈار تقریباً خالی ہوگیاہے‘اس لیے آئی ایم ایف کے قرض کی ضرورت پڑی ہے اور آئی ایم ایف پاکستان کو 1.1 بلین ڈالر کا قرض دینے کو تیار ہے لیکن اس کی شرط ہے کہ سرکار پہلے اپنی آمدنی بڑھائے اور قرض میں ڈوبی سرکار کا اب ایک ہی نعرہ ہے ' مرتا کیا نہیں کرتا‘۔اس دوران جب ملک کی معیشت اتنے خوفناک حالات میں ہے لیکن پاکستان کی سیاست کا حال بالکل بے حال ہے۔ سابق پردھان منتری عمران خان اور پردھان منتری شہباز شریف کے درمیان تلواریں کھنچی ہوئی ہیں۔ عمران کی گرفتاری کی خبر آندھی کی طرح لاہور کو گھیر ے ہوئے ہے اور ہزاروں لوگ ان کے گھر پر جمع ہیں تاکہ انہیں کوئی گرفتار نہ کر سکے۔ایسا لگتا ہے کہ سرکار کا جتنا دھیان اپنے ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو ابھارنے میں لگا ہے اس سے زیادہ عمران کے ساتھ دنگل کرنے میں لگاہواہے ۔اس سے بھی بڑی فکر کی بات یہ ہے کہ مختلف گروہ مہنگائی اور دیگر مسائل کو لے کر حکومت کو گھونسا دکھانے لگے ہیں۔ اگر اس موقع پر شہباز سرکار میں دم ہوتو پاک بھارت کاروبار پھر سے شروع کرے ۔آئی ایم ایف نے بنگلہ دیش کے لیے تو فوری طور پر 4.7 ارب ڈالر کے قرضوں کی منظوری دے دی مگر سری لنکا اور پاکستان کی معیشت کہیں زیادہ خراب ہونے کے باوجود آئی ایم ایف کے قرضوں کی حتمی منظوری ابھی نہیں مل سکی۔اس طرح بنگلہ دیش ان تین ایشیائی ممالک میں سے فنڈ لینے والا پہلا ملک بن گیا ہے‘ جس نے معاشی مشکلات کے باعث گزشتہ برس قرض کی درخواست دی تھی۔بنگلہ دیش کو آئی ایم ایف کی توسیعی کریڈٹ سہولت اور متعلقہ انتظامات کے تحت تقریبا 3.3 ارب ڈالر ملیں گے جس میں سے تقریباً 47.6 کروڑ ڈالر فوری طور پر ادا کیے جائیں گے۔بنگلہ دیش کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 30 جون کو ختم ہونے والے گزشتہ مالی سال میں ریکارڈ 18.7 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا لیکن مرکزی بینک کو توقع ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک خسارہ کم ہو کر تقریباً 6.8 ارب ڈالر رہ جائے گا۔آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کی فضا کو بہتر بنانے کی خاطر اپنی نئی تشکیل کردہ سہولت کے تحت تقریباً 1.4ارب ڈالر کی منظوری بھی دی۔ اس مد میں رقم حاصل کرنے والا یہ پہلا ایشیائی ملک بن گیا ہے۔