"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت: قابلِ توجہ چار واقعات

گزشتہ چند روز سے بھارت میں ہوئے چار واقعات نے خصوصی توجہ حاصل کی ہے؛ شمال مشرق کی تین ریاستوں کے چناوی نتائج، الیکشن کمشنر کی تقرری، اڈانی‘ ہنڈنبرگ تنازع کے جانچ اور جی20 کے وزرائے خارجہ کا اجلاس۔ بھارت میں جی 20 وزرائے خارجہ کا اجلاس دیگر تین واقعات کے مقابلے میں کم توجہ مائل کرسکا ہے لیکن اس میں بھارت کے دو طرفہ مفادات کو اچھی طرح سے ایڈٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس اجلاس میں یوکرین کا مسئلہ چھایا رہا، روس اور امریکہ کی آپس کی الزام تراشی کے باعث کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں ہوا لیکن پہلی بار ہم نے دیکھا کہ یوکرین جنگ کے بعد روس اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوئی۔ بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی نے جی 20 ممالک کے وزرائے خارجہ سے اختلافات کو ایک طرف رکھنے کی درخواست کی تھی؛ تاہم اس کے باوجود اجلاس میں کشیدگی کی فضا برقرار رہی اور امریکہ اور روس کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے گئے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ یہ اجلاس روس کی بلااشتعال اور بلاجواز جنگ کی وجہ سے متاثر ہوا ہے جبکہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے امریکہ اور یورپ پر بلیک میلنگ اور دھمکیاں دینے کے الزامات لگائے۔ بھارتیہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ ہم نے کوشش کی لیکن ملکوں کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ تھا۔ اس اجلاس میں غذائی تحفظ، ترقیاتی تعاون، دہشت گردی اور انسانی امداد سے متعلق بھی سیشن شامل تھے جو جی 20 کی صدارت کے دوران بھارتی ترجیحات کی عکاسی کرتے ہیں ۔بھارت اس اجلاس میں ترقی پذیر ممالک کو متاثر کرنے والے دیگر مسائل پر توجہ مبذول کرانا چاہتا تھا لیکن اجلاس کے بعد کہا گیا کہ یوکرین کے معاملے پر موجود اختلافات کی وجہ سے مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ البتہ بھارت کے لیے یہ خوش آئند بات رہی کہ نئی دہلی میں ہوئے اس اجلاس میں بھارت کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ سے کئی غیر ملکی رہنماؤں کی آپسی ملاقات میں کئی نئے تعلقات پیدا ہوئے۔ جہاں تک تری پورہ، ناگالینڈ اور منی پور کے انتخابات کا تعلق ہے توان تینوں راجیوں میں بھاجپا کا بول بالا ہوگیا ہے۔ منی پور میں بھاجپااقتدار میں شامل ہو جائے گی۔ دوسرے الفاظ میں شمال مشرق میں بھاجپا کا بڑھتا ہوا غلبہ بھارت کے قومی اتحاد کے لیے اچھا اشارہ ہے۔ اس سے ایک تو بھارت کے شمال مشرقی راجیوں میں جو علیحدگی پسند رجحانات گرم رہتے ہیں، وہ اب نرم پڑ جائیں گے‘ ان کی حوصلہ شکنی میں کانگرس سے بڑا کردار بھاجپا کا ہوگا۔ دوسرا‘ بھاجپا کے اپنے خاکے کو بدلنے میں ان چناؤ کا اہم کردار رہاہے۔ بھاجپا اور نریندر مودی کو 'ہندوتوا‘ کا کٹر پیروکار مانا جاتا ہے لیکن شمال مشرقی راجیوں کے عیسائیوں کی حمایت ان کی اس شبیہ کو کافی نرم کر دے گی۔ گوا اور شمال مشرق کے عیسائیوں کی یہ حمایت بھاجپا کے لیے دنیا کے عیسائی ممالک میں بھی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ شمال مشرق کی یہ ریاستیں آبادی کے لحاظ سے چھوٹی ہیں لیکن ان میں بھاجپا کی جیت 2024ء کے عام چناؤ کو متاثر ضرور کرے گی۔ اس سے پہلے جن راجیوں میں صوبائی اسمبلیوں کے چناؤ ہونے ہیں ، ا ن میں بھی بھاجپا کے کارکنوں کا جوش بڑھے گا۔ ان انتخابات کی جیت پر نریندر مودی نے جو بھاشن دیا‘ وہ کافی متوازن اور مدلل تھا۔ گزشتہ روز بھارتیہ سپریم کورٹ نے جو دو فیصلے دیے ہیں جن سے بھارت کی عدلیہ کی عزت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے وزیراعظم، اپوزیشن لیڈر اور چیف جسٹس‘ ان تین ارکان کی مشاورت کو لازمی کہا ہے۔ لیکن یہ بھی کہہ دیا کہ یہ اہتمام پارلیمنٹ کے قانون کے ذریعے نافذ کیا جانا چاہئے۔ قانون بننے تک عدالت کا فیصلہ مؤثر ہوگا۔ اس فیصلے سے الیکشن کمیشن کی اعتمادیت میں اضافہ ہوگا۔ جہاں تک اڈانی‘ ہنڈنبرگ تنازع کا سوال ہے، اس معاملے میں اپوزیشن مودی سرکارکی کافی کھنچائی کررہی تھی۔ ہنڈنبرگ نے اڈانی گروپ کے بارے میں 32000 الفاظ پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے نتائج میں 88 سوالات بھی شامل تھے۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اڈانی گروپ کئی دہائیوں سے سٹاک میں ہیرا پھیری اور اکاؤنٹ فراڈ میں ملوث رہا ہے۔ ''سیبی‘‘ (سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا) نے اس معاملے پر جانچ تو بٹھائی ہے لیکن مودی سرکار کی خاموشی اپوزیشن کو کافی پریشان کررہی تھی۔ اب بھارتیہ سپریم کورٹ کے سابق جج اے ایم سپرے کی صدارت میں جن پانچ لوگوں کی کمیٹی بنی ہے‘ وہ اگلے دو ماہ میں سارے معاملے کی جانچ کرکے سپریم کورٹ کو اپنی رپورٹ دے گی۔ اس کمیٹی کے ممبران کافی نامور، مستند اور باشعور لوگ ہیں۔اس کے باوجود اپوزیشن اب بھی پارلیمانی کمیٹی سے جانچ کی مانگ پر اڑی ہوئی ہے کیونکہ اس کے مطابق یہ معاملہ سیاسی مفاد اور استحصال سے متعلق ہے۔ کانگرس نے اڈانی گروپ کے خلاف ملک گیر ''پردہ فاش‘‘ ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ کانگرسی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ پردہ فاش ریلیوں میں وزیراعظم مودی اور اڈانی گروپ کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا جائے گا مگر ابھی تک وہ اس سکینڈل کو اچھالنے اور اس میں ہوا بھرنے میں ناکام ہے۔
خارجہ پالیسی اور بھارت کی استادی
جی20اورکواڈ کے حالیہ اجلاس بھارت میں منعقد ہوئے۔ان اجلاسوں سے بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی اور حکومت کی شبیہ تو خوب چمکی اور بھارت کے کئی ممالک کے ساتھ آپسی تعلقات بہتر بھی ہوئے لیکن جی 20 نے کوئی خاص فیصلے کیے ہوں‘ ایسا نہیں لگتا۔ یہ گروپ روس‘ یوکرین جنگ رکوانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ دہشت گردی اور ریاستی ظلم و جبر کو روکنے پردو الگ الگ ملاقاتوں میں تفصیلی بحث ہوئی لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ شاید کچھ نہیں! سبھی ممالک کے وزرائے خزانہ اور وزرائے خارجہ نے دونوں مدعوں پر جم کر بھاشن جھاڑے لیکن انہوں نے کیا کوئی ایسی ٹھوس پہل کی، جس سے دہشت گردی اور ظلم و استحصال ختم ہوسکے یا ان پر کچھ قابو پایا جا سکے؟ ان دونوں مدعوں پر رٹی رٹائی عبارت پھر سے پڑھ دی گئی ہے۔ کیا دنیا کے کسی ملک میں کوئی ایسی سرکار ہے جس کے نیتا یہ دعویٰ کر سکیں کہ وہ اقتدار میں آنے اور بنے رہنے کے لیے سام، دام، دنڈ، بھید کا سہارا نہیں لیتے؟ تانا شاہی اور فوجی سرکاریں اس معاملے میں مطلق العنان ہوتی ہی ہیں‘ جمہوری سرکاریں بھی کم نہیں ہوتیں۔ چناؤ جمہوریت کے لیے سانس لینے والی نالی کی مانند ہیں۔ اس سانس لینے والی نالی کو چالو رکھنے کے لیے بے تحاشا رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کرپشن کے بغیر کیسے جمع کی جا سکتی ہے؟ دنیا کے درجنوں صدور اور وزرائے اعظم آخر جیل میں بند کیوں کیے جاتے ہیں؟ وہ بے ایمانی کرتے ہیں تو ان کی اس مہم میں ان کے نوکر شاہ اور سرمایہ دار ان کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔ جی 20 کانفرنس میں اس طرح کی بے ایمانیوں سے بچنے کے لیے اقدامات پر کیا کوئی ٹھوس سجھاؤ سامنے آئے؟ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جن ممالک نے آگ اُگلی‘ وہ خود ہی دہشت گردی کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے وہ دہشت گردی کیا، کسی بھی برے سے برے ہتھکنڈے کا استعمال کر سکتے ہیں۔ جی 20اور چوگٹے (امریکہ، بھارت، جاپان، آسٹریلیا) کی کانفرنسوں میں یوکرین کا مسئلہ سب سے اہم بنا رہا۔ روسی اور امریکی وزیر خارجہ دہلی میں ملے لیکن وہ کسی حل کی طرف نہیں بڑھ سکے۔ اس معاملے میں بھارت کی پالیسی کافی لچکدار اور عملی رہی۔ اس نے روس کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات بنائے رکھنے کی پوری کوشش کی اور امریکہ کے ساتھ بھی۔ نہرو کی نان الائنمنٹ پالیسی کے مقابلے میں موجودہ بھارت کی نان الائنمنٹ پالیسی کچھ مختلف ہے۔ اب یہ دونوں طرف ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔ رام اور راون‘ دونوں کی جے ! چین کے ساتھ بھی دوستی اور دشمنی ‘دونوں طرح کے تیور بنائے رکھنے کی استادی آج کل بھارت جم کردکھا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں