بھارت کے اخبارات میں چھپے د و بیانات پر آپ کی توجہ جائے تو آپ کوخوشی اور دُکھ ایک ساتھ ہو ں گے۔ خوشی دینے والا بیان توراشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے لیڈر موہن بھاگوت کا ہے اور تکلیف دہ بیان راہل گاندھی کا ہے۔ موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں 70 فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے‘جبکہ انگلینڈ میں اُس وقت 17 فیصد انگریز تعلیم یافتہ تھے۔ انگریزوں نے‘ خاص طور پر لارڈ میکالے نے جو تعلیمی نظام بھارت میں چلایا‘ اُس کی وجہ سے ہندوستان میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد گھٹتی چلی گئی۔ آج بھارت میں خواندہ افراد کی تعداد لگ بھگ 77 فیصد ہے جبکہ چین‘ جاپان‘ سری لنکا اور ایران میں خواندہ افراد کی تعداد 90 سے 99 فیصد ہے۔ بھارت کے یہ 77 فیصد لوگ صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ نہیں مانے جا سکتے ہیں۔ ان کی اکثریت نے بی اے‘ ایم اے پاس نہیں کیا ہے۔ یہ صرف پڑھے لکھے ہیں یعنی صرف حروف اور لفظوں کو جانتے پہچانتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد بھی ان لوگوں کی پچھلے 15‘20برسوں میں بڑھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے بھارت کا موجودہ تعلیمی نظام۔ اس میں آج کل بڑی ٹھگی چل رہی ہے۔ سٹوڈنٹس کی فیس کئی کالجوں میں 50‘ 50 ہزار روپے ماہانہ ہوگئی ہے جبکہ سرکاری سکولوں میں کوئی فیس نہیں ہوتی تھی۔ سارے طالب علموں کو کھانا‘ کپڑا اور رہائش کی سہولتیں مفت دستیاب ہوتی تھی۔ میں خود چتور گڑھ کے آریہ گروکل میں کچھ وقت تک پڑھا ہوں۔ بھارت کا موجودہ تعلیمی نظام بھارت کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا کام کرتا ہے۔ایک ٹکڑا انگریزی دان لوگوں اور دوسرا سوبھاشاؤں کا! انگریزی ٹکڑا اونچی جات بن گیا ہے۔ وہی اس غلامی کے ڈھانچے کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ وہ خود نقلچی ہے اور ہر سال وہ لاکھوں نقلچیوں کو پیدا کرتارہتا ہے۔ ان میں سے جو ذرا زیادہ استاد ہیں وہ امریکہ اور برطانیہ میں جاکر خوب کمارہے ہیں۔ بھاگوت جی نے طب کی لوٹ پاٹ کی طرف بھی ہماری توجہ مبذول کرائی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ بھارت کے ڈاکٹر لوگ مریضوں سے کوئی فیس نہیں لیتے تھے۔ 60‘70 سال پہلے مجھے خود اس کا تجربہ رہاہے۔ ویدوں کومریض لوگ یا تو دوا کا پیسہ دیتے تھے یا وہاں رکھے چندے کے ڈبے میں کچھ رقم ڈال دیتے تھے۔ موہن بھاگوت کے قول سے سبق لے کر اگر مودی سرکار بھارت کی تعلیمی پالیسی اور طبی نظام میں کوئی بنیادی بدلاؤ کرسکے تو بھارت کے لوگوں کے لیے اس کا یہ مستقل احسان ہوگا۔ راہل گاندھی نے لندن میں کہا کہ سنگھ اور بھاجپا بھارت میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلاتے ہیں۔ کیا راہل گاندھی کو اس تازہ خبر کی بھنک پڑی ہے کہ شملہ کے ایک مندر میں‘ جسے وشوا ہندو پریشد چلاتی ہے‘ ایک غیر ہندو جوڑے کی شادی ہوئی ہے۔ اس شادی میں دُلہا انجینئر اور دلہن ایم ٹیک ہے۔ ایک غیر ہندو مذہبی رہنما نے اپنی مذہبی رسومات کے مطابق یہ شادی کرائی ہے۔ راہل کو موہن بھاگوت کے اس قول پر بھی دھیان دینا چاہئے کہ بھارت کے ہندو اور غیر ہندو کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ بھارت کا کوئی بھی نیتا اتنا پڑھا لکھا نہیں ہے کہ اسے کیمبرج یا آکسفورڈ یونیورسٹی بھاشن دینے کے لیے باقاعدہ بلائے لیکن کچھ بھارتیہ نژاد کانگرسی سٹوڈنٹس یا تنظیموں نے آپ کو بلالیا تو اس موقع کا آپ کو صحیح استعمال ہی کرنا چاہئے۔
راہل : خودی کو کربلند اتنا ...
راہل گاندھی کا بھاشن پہلے کیمبرج یونیورسٹی میں ہوا‘ پھربرطانوی پارلیمنٹ میں ہوا اور پھر لندن کے چیتھم ہائوس میں ہوا۔ ان تینوں اداروں میں مَیں پچھلے 50‘ 55 سال سے جاتا رہا ہوں۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ بھارت کے نیتائوں میں ایک نیتا اتنا قابل نکلا کہ ان عالمی شہرت یافتہ اداروں میں بھاشن دینے کے لیے اسے بلایا گیا۔ میرا سینا فخر سے پھول گیا لیکن سچ یہ ہے کہ ان اداروں کے ڈیبیٹنگ ہالز کو کوئی بھی کرائے پر بک کرسکتا ہے۔ راہل گاندھی اپوزیشن کے نیتا ہیں اور پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ اس ناتے سرکار پر تنقید کرنے کا انہیں پورا حق ہے لیکن یہ کام بڑی ہوشیاری سے کیا جاناچاہئے۔ ایسی انتہا پسند باتیں نہیں کہی جانی چاہئیں جن سے ملک کی شبیہ بگڑتی ہو۔حالانکہ بھاجپا کے ترجمان ضرورت سے زیادہ پریشان معلوم ہوتے ہیں۔ کیا انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ غیر ملکی لوگ راہل کی باتوں کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتے‘جتنا بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ لوگ دے دیتے ہیں۔ راہل گاندھی کی اس بات سے متفق نہیں ہوا جا سکتا ہے کہ بھارت کی جمہوریت خطرے میں ہے۔ اگر بھاجپا پر مودی کے شکنجے کی طرح وہ اشارہ کر رہے ہیں تو وہ ٹھیک ہے لیکن کیا جواہر لال نہرو‘ اندرا گاندھی اور سونیا گاندھی دور میں ایسا ہی نہیں تھا؟اور اب تک کانگرس بالکل پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن گئی ہے۔ بھارت کی سبھی پارٹیاں اب کانگرس کے ہی طرز پر چل پڑی ہیں۔ اس کے باوجود بھارت میں جمہوریت زندہ ہے۔ اس سچائی کا ثبوت یہ حقیقت ہے کہ ہر پانچ‘ دس سال میں ادھر ہماری سرکاریں الٹتی‘ پلٹتی رہی ہیں۔ اگر بھارت میں تاناشاہی ہوتی تو راہل گاندھی‘ نریندر مودی اور چھوٹے موٹے نیتائوں کے کئی بے تکے بیانات کو بھارتی اخبار اور ٹی وی چینل شائع کرسکتے تھے۔ جمہوریت کی ہتیا تو اندرا گاندھی کی ایمرجنسی میں ہی ہوئی تھی۔ کیا ویسی حالت آج بھارت میں ہے؟ راہل کو امریکہ اور یورپ کے ممالک سے یہ کہنا کہ وہ بھارت کی جمہوریت کو بچائیں‘ اپنی حیثیت کو مضحکہ خیز بنانا ہے۔ معلوم نہیں ہر بھاشن سے پہلے راہل کو کون غیر پختہ صلاح کار گمراہ کردیتا ہے ؟ کانگرس ختم ہو رہی ہے۔ کچھ بھاجپائیوں کایہ کہنا غیر مناسب ہے۔ کانگرس کا مضبوط ہونا بھارت کی جمہوریت کے لیے بہت ضروری ہے‘لیکن راہل کا یہ کہنا کہ آر ایس ایس فرقہ پرستی والی اور تاناشاہی تنظیم ہے‘ یہ بھی غلط ہے سنگھ پرمکھ موہن بھاگوت نے ادھر مسلم نیتائوں‘ دانشوروں اور مولانائوںکو مرکزی دھارے میں لانے کی جیسی کوشش کی ہے‘ کسی پارٹی کے نیتا نے نہیں کی ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ سنگھ میں انٹرنل چنائو نہیں ہوتے لیکن راہل بتائیں کہ کس پارٹی‘ سنگٹھن میں اندرونی چنائو ہوتے ہیں؟ جن تنظیموں کو عام چنائو نہیں لڑنے ہیں‘ ان کے اندر چنائو لازمی کیوں ہو؟ کیا سنگھ کوئی سیاسی پارٹی ہے؟ راہل نے کہاکہ پارلیمنٹ میں انہیں بولنے کی اجازت نہیں ملتی۔ کچھ حد تک یہ ٹھیک ہے لیکن آپ کے بولنے میں کوئی دم تو ہوناچاہئے۔اپوزیشن کو جتنی اجازت ملتی ہے کیا وہ اس کا صحیح استعمال کرپاتی ہے ؟ مجھے یاد ہے کہ 1965-66 ء میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کو پارلیمنٹ میں پانچ منٹ کا بھی موقع ملتا تھا تو بھی اسی میں اندرا سرکار کو وہ تھرا دیتے تھے۔ اس موقع پر مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یادآرہا ہے :
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے