وزیر اعظم منموہن سنگھ نے پریس کانفرنس کیابلائی کہ اسے شوک سنگیت کی بزم کہا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا۔رخصتی کے لمحات میں جودرد و کرب مایوسی، کا اظہار ہوتا ہے وہ سب ان کے لب و لہجے سے عیاں تھا ۔میں نے وزیر اعظم اندرا گاندھی سے لے کر اب تک کے وزرائے اعظم کی کانفرنسوں میں حصہ لیا ہے لیکن منموہن سنگھ کی پریس کانفرنس مجھے سب سے منفرد لگی۔ایسا لگا کہ جیسے ہم غم کی کسی محفل میں بیٹھے ہیں اور وہاں کسی باطنی درد و کرب کا اظہار کیا جارہاہو۔اگر منموہن سنگھ جی واقعی لیڈر ہوتے تو اس پریس کانفرنس میں کہیں پھل جھڑیاںچھوٹتیں، تو کہیں پٹاخے پھوٹتے اور دنگل کاسماں ہو تا لیکن منموہن سنگھ ایسے سدھے ہوئے سنت نوکر شاہ ہیںکہ انہوںنے منجمدسوالوں کے سب جواب دے ڈالے۔ہندوستان کے نوجوان صحافیوں کو یہ کہہ کر سلام کیا کہ انہوں نے اپنا فرض نبھایا۔پریس کے لوگوں نے وزیر اعظم کی کرسی پردس سال سے بر اجمان شخص کا مکمل احترام کیا لیکن کھرے کھرے سوال پوچھنے میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کی۔وزیراعظم نے اپنا ابتدائی بیان، جو وہ لکھ کر لائے تھے، پڑھا! وہ بھی انگریزی میں!ان سے کوئی پوچھے کہ یہ ملک ابھی تک آزاد ہوا ہے یا نہیں؟ اگر بھارت کا وزیر اعظم قومی زبان کا استعمال نہیں کر سکتا تو کون کر سکتا ہے؟ ان کے بیان کو کیاپانچ، دس فیصد لوگ بھی سمجھے ہوں گے؟ نہیں سمجھے ہوں گے تو نہ سمجھیں۔ان کا کیا؟ کیا انہیں وزیراعظم،ملک کے لوگوں نے بنایا ہے؟ جنہوں نے بنایا ہے، وہ تو سمجھ رہے ہیںنا؟ کچھ ہندی سوالات کے جواب انہوں نے ہندی میں دینے کی زحمت ضرور کی۔اس کے لئے ان کا شکریہ۔
انہوں نے کہا، اب ملک کا اچھا وقت آنے والا ہے۔ملک کو آئے یا نہیں، ان کا ضرور آنے والا ہے۔یہ جو کانٹوں کا تاج ان کے سر پر'میڈم‘ نے رکھ دیا تھا، اب وہ اترنے والاہے۔اب وہ اپنی بیٹیوں سے بھی عمر میں چھوٹے ایک نوجوان سے ذلیل نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ وہ تیسری بار وزیر اعظم نہیں بننا چاہتے۔فرض کر لیجئے کہ وہ ملک کے بہترین وزیر اعظم ہیں اور سونیاجی کو ان سے بہتر مطیع وفرمانبردار کانگرسی کوئی اور نہیں مل سکتا تو بھی کیا آج ایسا ہی ہوا ہے کہ وہ یا راہول گاندھی یا کوئی دیگر کانگرسی وزیر اعظم بن سکتا ہے؟ وہ گھماپھرا کر کہہ رہے ہیں کہ میں اس ڈوبتے جہاز کی کپتانی نہیں کر سکتا۔انہوں نے راہول کو اس منصب کا پورے طور پر اہل بتایا لیکن نریندر مودی کی تاج پوشی کر دی۔ انہوں نے مودی کی مذمت جتنے زہریلے الفاظ میں کی اس سے پتہ چلتا ہے کہ تیر کتنا گہرا پیوست ہے۔کیا حاضر وزیر اعظم کو اپوزیشن کے امیدوار کے لیے ایسے سخت الفاظ استعمال کرنا چاہئیں؟ اگر منموہن سنگھ لیڈر ہوتے تو وہ عوام کی نبض پہچانتے اور اپنی بات دوسرے طریقے سے کہتے ۔انہوں نے میڈیا پر بار بار نشانہ سادھا کہ وہ ناراض ہو سکتے تھے لیکن صحافیوں نے بڑی وقار و متا نت کا ثبوت دیا۔وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ بدعنوانی اور کرپشن اس لئے اتنی بڑے لگتے ہیں کہ صحافیوں نے ان کا جم کر پرچار وپرسارکیا۔جبکہ وہ توکچھ تھے ہی نہیںجس کا انہوں نے ثبوت دیا۔انہوں نے کہا کہ ان کی سابق حکومت کے وقت یہ گھوٹالے یعنی گھپلے ہوئے تھے لیکن ان کے باوجود عوام نے انہیں جتایا اور دوبارہ حکومت کرنے کا موقع دیا۔یعنی عوام نے گھوٹالے باز حکومت کو نوازا اور صحافی حضرات یو ں ہی شور مچا رہے ہیں۔اتنی سینہ زوری تو راہول جیسا بھولا نوجوان بھی نہیں کر سکتا۔
اس بات کے لئے منموہن سنگھ کی تعریف کرنی پڑے گی کہ انہوں نے اپنی حکومت کی ناکامیوں کو واضح لفظوں میں تسلیم کیا۔
انہوں نے کہا کہ بے روزگاری، مہنگائی اور بدعنوانی روکنے میں انہیں کامیابی نہیں ملی۔کیا ایک ماہر اقتصادیات کے منہ سے ایسی بات زیب دیتی ہے؟ وزیر اعظم کے طور پر انہوں نے کیا کیا؟ یہ تو ان کے مطابق مورخین ہی طے کریں گے لیکن انہوں نے ماہراقتصادیات کے طور پر جو کچھ کیا ہے، کیا وہ انہیں نااہل اور زیاں کار نہیں بنا دیتا ؟ انہوں نے اپنے ڈیڑھ گھنٹے کی بات چیت میںپندرہ سے بیس بار کہا کہ تاریخ داں ہی ان کے کارناموں کا حقیقی مقام متعین کریں گے۔کیوں کہا، انہوں نے یہ باربار؟ جس پر پورا ملک ہی نہیں، ان کی پارٹی بھی ان کے حال پر ماتھا ٹھوک رہی ہے۔وہ تیسری بار حکومت بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور ان کی پارٹی کے کارکنان کہہ رہے ہیں کہ اگر کانگرس کو انتخابات میں سو سیٹیں بھی مل جائیں تو غنیمت ہے۔ انہوں نے باربار کہا کہ وزیر اعظم کے طور پر انہوں نے کبھی توہین محسوس نہیں کی۔انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ وہ استعفیٰ دیں۔ان کی جگہ کوئی لیڈر ہوتا تو اس سوال پر بھڑک اٹھتا۔لیکن انہوں نے نہایت ہی سنجیدہ جواب دیا۔جب راہول نے ان کی کابینہ کی طرف سے پیش کئے گئے آرڈیننس کو'بکواس‘ کہا اور اسے'پھاڑ‘ کر پھینک دینے کے قابل
بتایا، تب منموہن سنگھ کو ایک سنہری موقع ملا تھا۔چاہتے تو اپنے گلے میں پڑے وزیر اعظم کے پتھر کو اتار کر پھینک اور تاریخ میں اپنا نام امر کر سکتے تھے۔لیکن اب وہ تاریخ میں ایک'مجبور وزیر اعظم‘سے زیادہ کیا جانے جائیں گے؟ ان کے جتنی موٹی کھال تو آج تک کسی بھی وزیر اعظم کی نظر نہیں آئی۔
منموہن سنگھ نے اس الزام کو بھی مستردکیا کہ وہ کمزور وزیر اعظم ہیں۔انہوں نے تسلیم کیا کہ 10جن پتھ (وزیراعظم آفس)کی مداخلت ہمیشہ قابل تعریف رہی۔انہوں نے بھارتی حکومت کی روایت کو الٹ دیا۔ جیسے سوویت یونین میں وزیر اعظم نہیں، پارٹی لیڈر سپریم ہوتا ہے، ویسے ہی دس سال بھارت کے بھی گزرے ۔انہوں نے یہ تاریخ رقم کی۔مؤرخ اس کا کریڈٹ ڈاکٹرمنموہن سنگھ کو نہیں دیں گے تو کس کو دیں گے؟ بھارت میں کئی مختصر مدتی وزیر اعظم ہوئے۔وہ اقلیت میں بھی رہے ہیں۔لیکن منموہن سنگھ جیسا کمزور وزیر اعظم نہ تو بھارت کی تاریخ میں کبھی ہوا ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہونے کا امکان ہے۔اس لئے اب دیش ایک مضبوط وزیر اعظم کا انتظار کر رہا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ منموہن حکومت نے کچھ اچھا کیا ہی نہیں۔کئی قابل ذکر کام کئے جیسے حق اطلاعات ، فوڈ بل، کم از کم روزگاروغیرہ لیکن یہ سب کام تو وہ کابینہ سیکرٹری رہتے ہوئے بھی کروا سکتے تھے۔اصل سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے وزیر اعظم رہتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ کا حق ادا کیا؟