اگر وزیر اعظم نریندر مودی کے پہلے ہفتے پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ پانچ سال میں ملک کی شکل ہی بدل جائے گی۔اس ہفتے کے دوران مودی نے جس رفتارسے کچھ بنیادی کام کئے وہ بڑی خصوصیت کے حامل ہیں۔ جس دن انہوں نے حلف اٹھایا،اس سے پہلے والی رات افغانستان میں ہمارے سفارت خانے پر حملہ ہوگیا اور ملک میں ریل کا ایک حادثہ بھی ہوگیا۔انہوں نے کابل اور ہرات میں متعین اپنے سفارت کاروں سے فون پر براہ راست بات کی اورٹرین کے حادثے کے مقام پرریلوے کے وزیرکی دوڑلگوائی ۔انہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب سے پہلے ہی سارک ممالک اور ماریشئس کے سربراہان حکومت کو اس میں شرکت کی دعوت بھیج دی تھی۔ اگر وہ برما اور ایران کے سربراہوں کو بھی بلا لیتے تو سارک کی جو شکل میں پیش کرتا رہا ہوں، وہ بڑی حد تک پوری ہو جاتی۔ ماریشئس سارک کا رکن نہیں ہے، اگر وہ آیا تو برما اور ایران بھی آسکتے تھے۔ بہر حال جو بھی ہوا، یہ غیر معمولی شروعات تھی جس نے مودی کاسیاسی قدکافی اونچا کردیا ہے۔
سب سے بڑی بات یہ تھی کہ حلف برداری کی تقریب میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف بھی شریک ہوئے۔ میاں نوازشریف نے بھارت آکر اپنا قدبھی اونچاکیا،انہوں نے پاکستان کی جمہوریت کا ستون مضبوط کیا۔ یوں تو نریندر مودی کی بات چیت سبھی پڑوسی لیڈروں سے اچھی رہی، لیکن میاں نوازشریف کے ساتھ ٹھیک سے نبھ گئی جو بڑی بات ہے۔ دونوں لیڈروں نے کسی ناپسندیدہ موضوع پر بات نہیں چھیڑی، دونوں نے موقعے کی نزاکت کو سمجھا۔ دونوں سیاست دان اپنے اپنے ملک میںزبر دست اکثریت سے جیتے ہیں، دونوں دکھن پنتھی (درددل رکھنے والے) اورمحب وطن لیڈر ہیں۔ دونوں میں اب بات چیت شروع ہوئی ہے تو یہ دونوں ملکوںکوکافی دور تک لے جائے گی۔ میاںنواز نے کیا خوب کہا کہ اٹل جی نے تار (سلسلہ گفتگو ) جہاں چھوڑا تھا، ہم وہیں سے شروع کریں گے۔ وہ اٹل جی کا دیدارکرنے بھی گئے، اس بات نے بھارتیوںکے دل کو چھو لیا۔ مودی کا یہ بلاوا جنوب ایشیائی ریاستوں '' قدیم آریہ ورت ‘‘ کو سر سبز اور طاقتور بنانے کی ابتدا ہے۔ مودی کا یہ پہلا ہفتہ بھارت ہی نہیں، بیرونی ممالک میںبھی کئی برسوں تک یاد رکھا جائے گا۔ مودی کے وزرا کی پہلی بیٹھک(میٹنگ) میں بلیک منی پر مخصوص جانچ ٹیم (خصوصی معائنہ ٹیم ) بٹھائی گئی ؛ حالانکہ یہ سپریم کورٹ کے حکم کی پیروی تھی لیکن اپنے آپ میں یہ کتنا اچھا اشتراک رہا کہ جس عوامی تحریک نے مودی کی فتح میںفیصلہ کن کردار نبھایا، اس کی مانگ کو پہلے دن ہی قبول کرلیاگیا ۔اپنے ارکان پارلیمنٹ اور وزیروں کو یہ ہدایات دینا بھی قابل تعریف ہے کہ وہ اپنے رشتے داروں کو ذاتی معاون نہ رکھیں۔ ان ذاتی معاونین کی وجہ سے تین غلط کام ہوتے ہیں۔۔۔ سرکاری اصول ٹکڑے ہوتے ہیں، وزیرکا رشتے داراگر اس کا نجی معاون ہوتا ہے تو اس کا رتبہ وزارت کے سیکرٹری سے بھی اونچا ہوجاتا ہے ۔دوسرے اس معاون کے ذریعے بے لگام کرپشن ہو سکتی ہے، بھانڈا پھوٹنے کا ڈر نہیں رہتا۔ تیسرے فرضی معاون کے نام پروزیر اور پارلیمنٹ سرکاری خزانوں کو لو ٹتے رہتے ہیں ۔
لگ بھگ 200ارکان پارلیمنٹ اور وزرا پچھلی سرکار (حکومت) میں اپنے رشتہ داروں کو اپنا ذاتی معاون بنائے ہوئے تھے جبکہ اس عہدے کے لئے سرکار میںقابل ملازمین کی کوئی کمی نہیں تھی ۔ یہ دھندا اس کے باوجود چلتا رہا کہ پچھلے سال راجیہ سبھا(ایوان بالا) کی ایک انجمن(کمیٹی ) نے اس طرح کی تقرری کو غلط قرار دیا تھا۔ مودی کی سخت ہدایات کووزرا اور ارکان پارلیمنٹ کیسے ٹگڑی ماریں گے (نظراندازکریں گے)، یہ دیکھنا پر لطف ہوگا۔ اپنے پہلے ہفتے میں ہی مودی نے وزرا سے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ سرکاری ریوڑیاں اپنے رشتے داروں میں بانٹنے کی ر وایت ختم کردیں۔کوٹا ، پر مٹ اور ٹھیکہ دیتے وقت مکمل دیانت اور دوراندیشی سے کام لیں۔ اگر وہ کچھ کام اس طرح کریں گے تو لوگ انہیں وزیر نہیں مہاتما کہنے لگیں گے۔ جانب داری اور لالچ کے بغیرکوئی سیاست دان کیسے کام کر سکتا ہے؟ اسی لئے میں نے تھوڑے کام کا ذکرکیا ہے۔
مودی کے پہلے ہفتے میں دواورمعاملات بھی چھائے رہے۔۔۔۔ دھارا370 اورسمرتی ایرانی۔ دونوں معاملے اس لائق نہیں تھے کہ انہیں اتنا اچھالا جائے۔دھارا370پر بحث ہو،اس میں کیا برائی ہے؟کسی بھی معاملے پر بھارت میں بحث ہو سکتی ہے، یہی اس کے جمہوری ملک ہونے کا ثبوت ہے، لیکن اس بحث کی ابھی اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ بات میری سمجھ سے بالا ہے۔ دھارا370 رہے یا جائے،کشمیر جہاں ہے وہیں رہے گا۔ ہمارے ملک میں یہ روایت بن گئی ہے کہ ڈگری ہی تعلیم ہے۔کچھ حد تک یہ بات ٹھیک بھی ہے، اگر ٹھیک نہ ہوتی تو ہمارے ملک کے تین لیڈروںکو(ان کے اپنے الفاظ میں) لوگ 'اُلو‘کیسے بناتے؟ لیکن ڈگری ہی تعلیم نہیں ہوتی۔ بادشاہ اکبر،حیدر علی اور چنگیز خاں جیسے شہرۂ آفاق حکمران دستخط کرنا بھی نہیں جانتے تھے۔ خود جواہر لعل نہرو پھسڈی(نالائق) طالب تھے، لیکن عجیب سیاست دان تھے۔ نہرو فیملی کے دیگر دو وزرائے اعظم تو سمرتی ایرانی سے بھی کم پڑھے لکھے تھے لیکن اندرا جی نے پتا نہیں کس کس کوکیسی کیسی پٹی پڑھا کر (سبق سکھاکر) چھوڑا تھا ۔
ان دو اہم معاملات کے علاوہ مودی کے پہلے ہفتے میں جن دس نکاتی کاموں کی فہرست جاری ہوئی وہ بھی بڑی خبر بنی ہے۔ تمام نکات اچھے دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان میں کسی ٹھوس سمت کی جانب راستہ جاتا دکھائی نہیں دیتا۔ ان میں موٹی موٹی اور اچھی اچھی باتیں رس گُلّوں کی طرح بانٹ دی گئی ہیں لیکن آپ جونہی ان کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں تو دل بے اعتمادی اور ناامیدوں سے بھرجاتا ہے۔ نوکر شاہی کو مضبوط کرنے کا کیا مطلب ہے؟ وہ تو پہلے سے ہی بہت مضبوط ہے، ہمارے سربراہ تو نوکر شاہوں کی نوکری کرتے ہیں،کرپشن ان کی ملی بھگت سے ہوتی ہے۔ اسی طرح صحت، تعلیم اور بجلی کے معاملے میں انڈیا اور بھارت ،ایک ہی ملک میں دو ملک بنے ہوئے ہیں۔کیا کوئی مائی کا لال ایسا ہے جو سبھی باشندوں کو برابر تعلیم، برابر علاج اور برابر بجلی پانی دلوا سکے؟ وزیر اعظم بننے کے بعد لگتا ہے مودی ہندی اور بھارتی زبانوں کو بھول گئے؟جس سیڑھی پر چڑھ کر آپ وزیر اعظم بنے ہیں،اسی سیڑھی کو اب نوکر شاہوں کے کباڑ خانے کے حوالے مت کیجئے؟میں پوچھتا ہوںکہ صدر مملکت کو پہلی تحریر مودی نے انگریزی میںکیوں دی ؟غلطی شاید جلد بازی کے سبب ہوئی ہو، لیکن انگریزی کی غلامی کیا 'سونیا گاندھی کی غلامی‘ سے زیادہ بری نہیں ہے؟ وزیر اعظم بن کرکوئی سیاست دان اپنی زبان کٹا لے تو میں کہوں گا کہ یہ سودا بہت مہنگا پڑرہا ہے ۔ یاد رکھیں کہ راج کاج ، تعلیم ، صحت ، بازار ، کاروباراور عدالتوں کا کام اگر ہندوستانی زبانوں میں نہیں ہوگا تو مودی کو من موہن بننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ مودی ذرا مودی بن کر دکھائیں۔