وزیر اعظم مودی نے ایک اور بے نظیر مثال قائم کی ہے۔ انہوں نے اپنی سوانح عمری کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کی مخالفت کی ہے۔ کئی صوبوں میںنصابی کتابوں میں مودی کی سوانح عمری شامل کرنے کا خیال اس لیے پروان چڑھ رہا تھا کہ اس سے بچوں میں جوش اور محنت کا جذبہ ابھرے گا۔ ایک چائے بیچنے والا بڑا ہوکر بھارت کا وزیر اعظم بن سکتا ہے‘ یہ بات اپنے طور پر غیر معمولی ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ مودی نے اس سچائی کے با وجود بچوں کو اپنے حالات زندگی پڑھانے کی مخالفت کی ہے۔سچ پوچھیے تو اس فیصلے سے میرے دل میں ان کی عزت بڑھی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اُتھلے آدمی نہیں ہیں۔ان میں کچھ گہرائی ہے۔کئی سیاستدان اپنی سوانح عمری اپنے صوبے کے طلبا پر خود لدوا دیتے ہیںاور کہتے ہیں کہ مودی نے کون سا تیر مارا ہے؟وہ چائے بیچتا تھا‘ ہم بھینس چراتے تھے اور دودھ بیچتے تھے ۔لیکن یہ سادہ لیڈر یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ان کے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگ بھارت میں ہیں۔ یہ ان کی قسمت ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم بن گئے ۔وہ ابھی ریٹائر بھی نہیں ہوئے ہیں۔پتہ نہیں ان کی قسمت میں آگے کیا ہے؟ ایسے دو تین چیف منسٹر ہو چکے ہیں،جو جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔ ملک میں انصاف کا انتظام سخت ہوتا تو کئی وزرائے اعظم اور وزیراعلیٰ رشوت خوری،قتل، ٹھگی، بدکاری وغیرہ کے مجرموں کی طرح سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ ان کے حالات زندگی بچوں کو پڑھانا،ایسا ہی ہوتا جیسے ہرنوں پر گھاس لادنا۔مودی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ زندہ لوگوں کی سوانح عمریاں نہ پڑھائی جائیں‘ اس کے علاوہ ہم یہ نہ بھولیں کہ بڑی کرسی پر بیٹھنااور بڑا آدمی ہونا‘ دو الگ الگ باتیں ہیں۔ گاندھی، جئے پرکاش اور لوہیا تو کسی کرسی پر نہیں بیٹھے‘ کیا کرسی پر بیٹھا کوئی بھی آدمی ان سے بڑا ہوا ہے؟مودی نے بھی اس معاملے میں کوئی تیر نہیں مارا۔ انہیں ان کے ساتھی بھی کل تک مغرور کہتے تھے لیکن بی جے پی کے کارکنان کے درمیان بیٹھ کر انہوںنے کیا کہا؟ یہی کہ کارکن وزیر اعظم سے بھی بڑا ہے۔ کارکن اور کارکنان کے دم پر ہی انہوں نے چنائو جیتا ہے اور وہی بھارت کو 21 صدی کی عظیم طاقت بنائیں گے۔ اگر مودی نے یہ عاجزی قائم رکھی تو حقیقت میں بڑے آدمی بن جا ئیں گے،وزیر اعظم تو وہ بن ہی گئے ہیں، اب وہ اس راستے پر چل پڑے ہیںجس پر مہاجن(بڑے آدمی)چلتے ہیں۔
دلی سپریم کورٹ کے ایک جج نے ایک ایسا فیصلہ دیا ہے،جسے میں ان کی مجبوری تو مان سکتا ہوں لیکن اس فیصلے کی حمایت نہیں کر سکتا کیونکہ یہ معاملہ صرف اس ایک جج کا نہیں،یہ ہماری سبھی عدالتوں کا وتیرہ ہے۔دلی کی عدالت نے یہ مطالبہ رد کر دیا ہے کہ ایل ایل ایم کی بھرتی کا امتحان ہندی میں ہونا چاہیے۔ کچھ ایسے امیدوار ہیں جو انگریزی سمجھ تولیتے ہیں لیکن نہ تو اسے ٹھیک سے لکھ سکتے ہیں نہ بول پاتے ہیں۔بجائے اس کے کہ یونیورسٹیوں کو حکم جاری کیا جاتا کہ وہ اپنی کتابیں اور قانون کی پڑھائی بھارتی زبانوں میں شروع کریں، عدالت نے انگریزی زبان کی غلامی پر مہر لگا دی ہے۔ہماری عدالتیں اب بھی غلامی کے شکنجوں میں جکڑی ہو ئی ہیں۔ عدالتوں کا کام مجرموں کو سلاخوں کے پیچھے بھیجنا ہے لیکن بھارتی عدالتوں نے ایسا کیا جرم کیا ہے کہ وہ خود شکست و ریخت کا شکار ہیں اور انہیں اپنے جلنے کا پتہ ہی نہیں چل رہا۔
یہ جرم ہے ،انگریزی کی غلامی ۔ انگریزی زبان کی غلامی انگریزوں کی غلامی سے بدتر ہے۔انگریزوں کو تو ہم نے واپس انگلستان بھگا دیا لیکن انگریزی کو ہم نے اپنے دل و دماغ میں بٹھا لیا۔ یہ زبان ہمارے ججوں اور وکیلوں کے دماغوں پر حکومت کر تی ہے۔ہمارے جج اور وکیل انگریزوں کے بنائے قوانین کو آج تک اپنی زبانوں میں تبدیل نہیں کر پائے‘ سارے کے سارے قوانین کو اپنی زبان میں تبدیل کرنا تو دور کی بات ہے ۔وہ ابھی تک انگریزی قوانین کو ہم پر تھوپے چلے جارہے ہیں۔ جو نئے بھارتی قوانین بنتے ہیں وہ بھی انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں انصاف ایک جادو ٹونا بن گیا ہے ۔جج اور وکیل کسی مقدمے میں کیا بحث اور کیا فیصلہ کرتے ہیں،موکل کو پتہ ہی نہیں چلتا۔معاملات بھارت کے ہوتے ہیں اور مثالیں انگلینڈ کی پیش کی جاتی ہیں۔جیسے گاؤں میں سیانے چھو منتر کرتے ہیں،ویسے ہی عدالتوں میں مقدمے چلتے رہتے ہیں۔ ذریعہ انگریزی ہونے کے سبب مقدمے بہت طویل وقت لیتے ہیں۔بھارت میں کُل 17 ہزار جج ہیں لیکن 3 کروڑ مقدمے پچھلے تیس چالیس سال سے لٹکے ہوئے ہیں۔ صرف دیر ہی نہیں ہوتی، انصاف کے نام پر غضب کی لوٹ مار بھی ہوتی ہے۔وکیل لوگ ایک ایک حاضری کے لاکھوں روپیہ لیتے ہیں اور جج کروڑوں کی رشوت کھاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ہماری عدالتیںہندی ،اردو یا پنجابی میں کام کرنے لگیں گی تو یہ تاخیر اور یہ لوٹ مار ایک دم بند ہو جائے گی۔ انگریزوں کے بھارت آنے سے بہت پہلے سے بھارت میں انصاف کا انتظام تھا یا نہیں؟ رومن اور گریک لوگ بھارت سے قانون کی تعلیم لیتے رہے ہیں لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری عدالتیں اب بھی انگریزی زبان کی غلامی کیوں کرتی ہیں؟
وزیر اعظم بننے کے بعد نریندر مودی روز ہی ایک دو کام ایسے کررہے ہیں جن کی تعریف کئے بنا نہیں رہا جا سکتا۔مودی کی ہدایت تھی کہ وزرا اور ارکان پارلیمنٹ اپنے رشتے داروں کو ذاتی معاون بنانا بند کر دیں۔اس حکم کا بہت جلد اثر ہوا۔ بارابنکی کی رکن پارلیمنٹ پرینکا سنگھ راوت نے اپنے والد کی نمائندہ کے طور پر جو تعیناتی کی تھی،اسے مسترد کر دیا گیا۔ اب بتائیے،کس کو ہمت پڑے گی کہ وہ وزیراعظم کے احکام کی حکم عدولی کرے؟
بدایوں کے کٹرا سعادت گنج میںجو دکھ بھرا واقعہ پیش آیا،اس کی لپٹیں ابھی بجھی نہیں تھیں کہ اعظم گڑھ اور نوئیڈا میں جبر کے دو مزید واقعات پیش آگئے۔ اتر پردیش میں بالجبر زیادتی کے لگ بھگ دس واقعات روز ہوتے ہیں اور پورے بھارت میں تو ان کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے ۔یہ سینکڑوں ظلم وہ ہیںجن کا پتہ لگ جاتا ہے۔ جن کا پتہ نہیں چلتا،ان کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ بدایوں میں دو لڑکیوں کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا‘ اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔دو وحشی غنڈوں نے ان لڑکیوں کے چاچا پر بندوق تان لی تھی۔کیونکہ چاچانے لڑکیوں کا شور سن کر انہیں بچانے کی کوشش کی تھی۔لڑکیاںرات کے اندھیرے میں کھیتوں
میں رفع حاجت کے لیے گئی تھیں۔اس جبری زیادتی کے بعد ملک میں سینکڑوں اور بھی جبر کے واقعات ہو چکے ہیںلیکن بدایوں کے واقعہ نے ملک میں ایک بار غصہ کی زبردست لہر پیدا کردی ہے۔ اس کی وجہ بدایوں پولیس کی لاپروائی بھی ہے۔ رپورٹ لکھوانے کے بعد پولیس موقع پر پہنچ جاتی تو لڑکیوں کی جان بچ جاتی۔ وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے پولیس والوں کو معطل کر دیا اور زبردستی کرنے والوں کو بھی پکڑ لیا ہے۔کسی سرکار کو جو کرنا چاہیے، وہ یوپی سرکار نے مستعدی سے کیا‘ لیکن اکھلیش سے میں پو چھتا ہوںکہ وہ کیا فقط وزیراعلیٰ ہی ہیں یا قائد بھی ہیں؟اگر لیڈر ہیں تو انہیں سعادت گنج خود جانا چاہیے تھا اور سب سے پہلے جانا چاہیے تھا۔ اس لیے بھی جانا چاہیے تھا کہ مظلوم لڑکیاں شیڈول کاسٹ کی تھیں اور زبردستی کرنے والے اور پولیس والے اسی کاسٹ کے ہیں،جس کے اکھلیش خود ہیں۔اکھلیش کو اس گاؤں میں پہنچ کرمظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہیے تھا۔ اب یہ معاملہ سیاست کے ہاتھ لگ جائے گا۔ وحشی درندوں کو کیسے روکا جائے ،اس کی تدبیر نکا لنے کے بجائے اب سب سیاست دان اپنی اپنی روٹیاں سینکیں گے۔ کوئی یہ نہیں کہے گا کہ زبردستی کرنے والوں کو اتنی سخت سزا دی جائے کہ کسی کے دل میں ریپ کے خیال سے ہی پسینے چھوٹ جائیں۔مرکزی سرکار نے بھی اس معاملہ کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
مجھے نریندر مودی کا ایک بیان آج یاد رہا ہے کہ ملک میں ایٹمی ہتھیار نہیں، غسل خانے چاہئیں۔ بھارت کی 25 کروڑ سے بھی زیادہ عورتوں کو غسل کے لیے اندھیرے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جبری زیادتی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔اس سے بڑھ کر شرم کی بات کیا ہو سکتی ہے؟کیا لیڈران اس پر غور کریں گے؟ ان کے لیے تو بالجبر زیادتی بھی ان کی شطرنج کی ایک گوٹی کی طرح ہے ۔