ایک انگریزی اخبار کی اس خبر نے مجھے خوش کر دیا کہ سارک ملکوں سے آئے سربراہوں سے وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندی میں گفتگو کی۔ وزیر اعظم نواز شریف، حامد کرزئی، سُشیل کوئرالا وغیرہ ہندی خوب سمجھتے ہیں۔ ان لیڈروں سے میری درجنوں بار بات ہوئی لیکن انہوں نے مجھ سے کبھی انگریزی میں بات نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی دو ملکوں کے سربراہ ملتے ہیں تو وہ دونوں اپنی اپنی ملکی زبان میں بولتے ہیں اور دونوں اطراف کے مترجم اس بات چیت کا ترجمہ کرتے جاتے ہیں۔ سیاسی گفتگو میں ترجمے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ جب تک مترجم ترجمہ کرتے ہیں، بات کرنے والے کو سوچنے کا وقت مل جاتا ہے۔ دوسرا، اگر کوئی غلط الفاظ منہ سے نکل جائے تو مترجم کے سر مڑھ کر خاص بات چیت کرنے والا بچ نکل سکتا ہے۔ تیسرا، بات چیت میں اپنی ملکی زبان کا استعمال اپنے ملک کی روح اور بڑائی کو ظاہر کرتا ہے۔
بھارت کی خوش قسمتی ہے کہ اسے نریندر دامودر مودی جیسا وزیر اعظم مل گیا ہے۔ نریندر بھائی نے اپنے اقتدار کے پہلے ہفتے میں ہی دو ایسے کام کر دیے، جو آج تک کوئی بھی وزیر اعظم نہیں کر سکا۔ سارک سربراہوں کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دینا اور ان سے ملکی زبان میں بات کرنا۔ ان دونوں کاموں کے لیے میں اندرا جی سے لے کر اب تک سبھی وزرائے اعظم کو کہتا رہا ہوں لیکن توجہ نہ دی گئی۔ اکیلے مودی نے، جس زبان میں ووٹ مانگے، اسی میں وہ حکومت چلا رہے ہیں۔ اس سے بڑی دیانتداری اور کیا ہو سکتی ہے۔ گجرات کا یہ سپوت دو اور گجراتی رہنمائوں مہارشی دیانند اور مہاتما گاندھی کے راستے پر چل پڑا ہے۔ یوں تو اٹل جی نے بھی میری التجا پر وزیر خارجہ کے طور پر اقوام متحدہ میں اپنی تقریر ہندی میں کی تھی‘ لیکن وہ خاص انگریزی کا ہندی ترجمہ تھا۔ وزیر اعظم چندر شیکھر نے مالدیپ جاتے وقت ہوائی اڈے پر مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سارک اجتماع میں ہندی میں بولیں گے۔ ان کا وہ ہندی خطاب عجیب اور بنیادی تھا۔ اسے کروڑوں لوگوں نے سنا اور سمجھا‘ لیکن دونوں وزیر اعظم اپنی حکومت میں نہرو کے وقت کے دھارے کو بدل نہ سکے۔
بھارت کو آزاد ہوئے 67 سال ہو چکے لیکن اس ملک میں ایک بھی وزیر اعظم ایسا نہیں ہوا جس نے ملکی شان اور عزت کا خیال رکھا ہو۔ بھارت آزاد ہو گیا اور آپ وزیر اعظم بھی بن گئے لیکن رہے غلام کے غلام۔ غیرملکیوں سے اپنی ملکی زبان میں بات کرنا تو دور کی بات، ہمارے وزرائے اعظم کو اپنی پارلیمنٹ میں بھی انگریزی بولتے ہوئے کبھی شرم نہیں آئی۔ غیرملکی مہمان چاہے چین کا ہو، روس کا، ایران کا، جرمنی کا یا پاکستان کا، ہمارے لیڈر اس سے انگریزی میں ہی بات کرتے رہے۔ ہر غیرملکی مہمان کو حیدر آباد ہاؤس میں شاہی کھانا کھلایا جاتا ہے۔ میں اب تک سینکڑوں شاہی دعوتوں میں شریک ہوا ہوں۔ اس وقت جو تقریر بھارت کی طرف سے کی جاتی تھی، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ان میں سے کبھی کوئی ہندی میں کی گئی ہو۔ غیرملکی حکمران اپنے شاہی طعام پر بات چیت یا تقاریر اپنی ملکی زبان میں ہی کرتے ہیں۔ ان کا فی الفور ترجمہ کبھی کبھار ہی ہندی میں ہوا۔ ورنہ وہ بھی اپنی زبان کا ترجمہ ہمارے پرانے مالکوں انگریزوں کی بولی انگریزی میں کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں سری لنکا اور پاکستان ہمارے جیسے ہیں لیکن نیپال اور افغانستان کا زبانی کردار آزاد اور خود مختار ریاستوں جیسا ہے۔ اگر ہمارے صدر مملکت، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ غیرملکی مہمانوں کے ساتھ ہندی میں بات کریں تو وہ اپنے ساتھ انگریزی کا مترجم کیوں لائیں گے؟ اگر وزیر خارجہ سشما سوراج چینی وزیر خارجہ سے ہندی میں بات کریں گی تو وہ اپنے ساتھ چینی ہندی مترجم کو لائیں گے لیکن اگر سشما بہن انگریزی بولنے پر اَڑی رہیں تو چینی وزیر خارجہ تب بھی چینی میں ہی بولے گا لیکن اپنے ساتھ مترجم انگریزی لائے گا۔
سشما سوراج اگر چاہیں تو نئی تاریخ بنا سکتی ہیں۔ وہ ہندی تحریک میں میرے ساتھ سالوں پہلے کام کر چکی ہیں۔ ڈاکٹر لوہیا اور مدھو لمئے کی زبان پالیسی کو وہ عقیدت سے مانتی رہی ہیں۔ ایک انگریزی اخبار کی یہ خبر اگر درست ہے کہ انہوں نے غیرملکی مہمانوں سے اپنی فارمیلٹی والی بات چیت بھی انگریزی میں کی ہے‘ تو میرے لیے یہ دکھ کی بات ہے۔ میں سمجھ نہیں پاتا کہ سشما جیسی انوکھی اور نہایت ہی قابل عورت بھی انگریزی کی دہشت میں جکڑی ہوئی ہو سکتی ہے۔ مودی جیسا ہر دلعزیز وزیر اعظم اور سشما جیسی وزیر خارجہ آہ۔۔۔کیا جوڑی ہے؟ یہ جوڑی چاہے تو ہندی کو اقوام متحدہ میں بھی چلوا سکتی ہے لیکن اس کے پہلے وزارت خارجہ سے انگریزی
کے بیرونی اثر کو کم کرنا ہو گا اور راج کاج میں ملکی زبانیں لانی ہوں گی۔ سیاسی میدان میں ملکی زبان کے استعمال کا فائدہ ثابت ہے۔ سبھی بین الاقوامی بڑی قوتیں معاہدے اور اپنی قانونی دستاویز اپنی بولی میں تیار کرنے پر زور دیتی ہیں۔ ہاں، اگر کوئی نہایت ہی خفیہ بات چیت کرنی ہو، جس میں مترجم کا رہنا خطرناک ہو سکتا ہو تو وہاں دو سربراہ انگریزی کیا، کسی افلاطونی زبان میں بھی بات کریں تو وہ نامناسب نہیں۔ سشما جی کو چاہیے کہ وہ ہمارے وزارت خارجہ کے افسروں سے ہندی میں بات کریں اور اپنا اندرونی کام کاج جہاں تک ممکن ہو ملکی زبان میں کریں۔ انگریزی کو مکمل خارج نہ کریں لیکن اس کا استعمال امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے پانچ چھ انگریزی بولی والے ملکوں تک محدود رکھیں۔ باقی ضروری ملکوں کے ساتھ اگر ہم ان کی زبانوں میں برتائو کریں گے تو ہماری سیاسی چال میں چار چاند لگ جائیں گے۔ نریندر مودی کی حکومت میں بھارت عظیم طاقت نہیں بنے گا تو کب بنے گا؟
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگر نوین پٹنایک اور جے للتا پہلی ملاقات میں ہی نریندر مودی کے ساتھ اشتراک میں بندھ جاتے تو ان کی ریا ستوں میں ان کی کافی ہیٹی ہوتی۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان سیاستدانوں کا کوئی دین ایمان نہیں۔ چنائو میں جس پارٹی کے خلاف خنجر کھڑکا رہے تھے، اب اسی کے ساتھ جھانجھ بجانے لگے۔ اس لیے اڑیسہ اور تامل ناڈو اتحاد قائم کرنے کے سوال پر خاموش ہیں لیکن اتحاد سے باہر رہ کر انہوں نے حمایت دینے کے لیے بھی منع نہیں کیا‘ یعنی وہ حریف کا کردار نبھانے کو بھی تیار نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ انتخابات کے اکھاڑے میں اترتے وقت صرف جے للتا اور پٹنایک ہی نہیں، ممتا بینرجی، ملایم سنگھ، مایاوتی اور نتیش جیسے صوبائی لیڈر بھی وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھنے لگے تھے لیکن اب بھی ان میں اتنی بردباری نہیں کہ وہ اپنا ایک مشترکہ مورچہ کھڑا کریں۔ بھارتی جمہوریت کی یہ بات عجیب ہے کہ پچھلے دس سال سے ایک طاقتور سرکار نہیں تھی اور اب اگلے دس سال تک طاقتور اپوزیشن نہیں ہو گی۔ سبھی سیاست دان اپنی اپنی گوٹی گرم کرنے میں بھڑے ہوئے ہیں۔ جے للتا اور پٹنایک نے وزیر اعظم کو مالی مدد اور دوسرے مخصوص مطالبات پیش کر دیے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ وہ اتحاد میں شامل ہو کر اپنی ریاستوں کے لیے زیادہ فائدے اٹھاتے اور مرکزی سرکار کو ایک حقیقی نمائندہ بھی دیتے۔
ادھر کانگریس کی حالت اور بھی خستہ ہے۔ اس کے ہارے ہوئے لیڈروں سے کوئی بھی جیتے ہوئے لیڈر ملنا نہیں چاہتے۔ وہ جانتے ہیں کہ کانگریس اتحاد میں شامل ہونا خود کو مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ بھی کوئی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ کرناٹک سے جیتے ہیں، اس لیے ملک ارجن کھڑگے پارلیمنٹ میں کانگریس کے لیڈر ہوں گے۔ کھڑگے کو کون جانتا ہے؟ وہ طاقتور اپوزیشن کا کردار کیسے نبھائیں گے؟ کانگریس میں کمل ناتھ جیسے تجربے کار اور جیوترآدتیہ سندھیا جیسے نوجوان اور ہوشیار رکن پارلیمنٹ ہیں لیکن لگتا ہے کہ یہ جوڑی دوبارہ درباریوں کے چنگل میں پھنس گئی ہے۔ دونوں کو کھڑگے میں اب دوسرے من موہن سنگھ دکھائی پڑ رہے ہیں۔ من موہن جی نے ماں بیٹا پارٹی کو اتنا شیدا بنا لیا ہے کہ پہلے من موہن سے سرکار ختم کروائی اور اب اس دوسرے من موہن سے پارٹی کا پنچ نامہ کروایا جا ئے گا۔ اس دوسرے من موہن پر مبارک!