"DVP" (space) message & send to 7575

پاکستان کا آنکھوں دیکھا حال

مجھے پاکستان آئے ایک ہفتہ ہو گیا۔ ہم لوگ آئے تھے‘ ایک پاک بھارت بیٹھک میں حصہ لینے تاکہ نریندر مودی اور نواز شریف نے جو شروعات کی ہے‘اسے آگے بڑھا سکیں۔ لیکن اس وقت پاکستان کی سیاست میں اچانک دو بڑے تہلکے مچ گئے۔ ایک تو سرکار نے دہشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور دوسرا لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں زبردست خونریزی ہو گئی۔ یہاں سبھی ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں پچھلے تین چار دن سے سانحہ لاہور چھایا ہوا ہے۔ شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج جس بہادری سے دہشت گردوں کو بھگا رہی ہے‘ یہ تاریخی اورغیرمعمولی کام تھا جو ابتدا میں حاشیہ میں چلا گیا لیکن اب دوبارہ چھانے لگا ہے۔ 
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ یہ سوال اس لیے اُبھر رہا ہے کہ ایسا ہونے کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں تھے۔ تمام پاکستان وزیراعظم نواز شریف اور فوج کا دیوانہ ہو رہا تھا کہ انہوں نے آخرکار دہشت گردوں کو ختم کرنے لئے با قا عدہ لڑائی چھیڑ دی ہے۔لگ بھگ سبھی پارٹیوں اور پارلیمنٹ نے نواز کے اس فیصلے پر مہر لگا دی تھی۔میاںنواز خود اتنے مطمئن تھے کہ اس لڑائی کا اعلان کر کے وہ تاجکستان کے دورہ پر چلے گئے۔لیکن لاہور کے مشہور رہائشی علاقے ماڈل ٹاؤن میں وزیراعظم نوازشریف کا پرانا گھر ہے اور ان کے پاس ہی ڈاکٹر طاہرالقادری کا بھی گھر ہے۔قادری کے گھر کے آس پاس سڑکوں پر کچھ باڑیں لگی ہوئی تھیں۔ جیسا کہ دیگر بڑے لوگوں کے گھر کے آس پاس لگی ہوئی ہیں۔قادری 'پاکستان عوامی تحریک‘پارٹی کے سربراہ ہیں۔ کینیڈا میں رہتے ہیں اور زبردست مقرر ہیں۔ ان کے جلسوں میں لاکھوں لوگ جمع ہو جاتے ہیں‘جیسا کہ انا ہزارے کی بھوک ہڑتال میں ہوتے تھے۔ویسے انا ہزارے اورقادری کی کوئی برابری نہیں۔ قادری 23 جون کو پاکستان آنے والے ہیں۔پتہ نہیں کیوں‘پنجاب سرکار نے قادری کے گھر کے سامنے کی باڑیں ہٹانے کا فیصلہ کیا اور رات دو بجے پولیس ٹوٹ پڑی۔قادری کے سینکڑوں حامیوں نے مخالفت کی۔پولیس نے بے رحمی سے گولیاں چلائیں۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد چودہ ہو گئی ہے اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ لاہور رام لیلا میدان سے بھی بدتر بن گیا۔ اب یہاں سب کو فکر ہے کہ آج کے دن کیا ہوگا ؟
اگر آج کا دن امن سے نکل گیا تو وزیراعظم نوازشریف اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف(وزیر اعلیٰ پنجاب) کا ستارہ بلند ہوتے پھر دیر نہیں لگے گی۔ کیونکہ سارے ملک کی توجہ وزیرستان پر لگی ہوئی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے حامد کرزئی سے بھی بات کی ہے۔کرزئی سے پاکستان کے خارجہ سیکرٹری چوہدری اعجاز اور وزیر اعظم کے خاص سفیر محمود اچکزئی بھی مل آئے ہیں۔اگر یہ دونوں ملک ایک ساتھ ہو جائیں تو دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن ہے۔انہوں نے بھارت سے کہیں زیادہ پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔اب تک وہ 53ہزار لوگوں کو موت کا شکار کر چکے ہیں۔ساری دنیا میں پاکستان‘ دہشت گردوں کے اڈے کے طور پر بدنام ہو چکا ہے۔اگر وزیراعظم نوازشریف اپنے اس مشن میں کامیاب ہو گئے تو وہ پاکستان کے عظیم لیڈر بن جائیں گے۔انہیں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بعد ملک کا سب سے بڑا لیڈر مانا جائے گا۔ ان کے مخالفین بھی ان کی تعریف پر مجبور ہو جائیں گے ۔
اس مشن سے انہیں دیگر کئی ٹھوس فائدے بھی ہوں گے۔ پہلا‘ ادھر پچھلے کچھ مہینوں سے فوج اور وزیراعظم نوازشریف کے بیچ دوریاں بڑھنے لگی تھیں۔فوج کو یہ پسند نہیں تھاکہ وزیراعظم نوازشریف طالبان سے گفتگو چلاتے جائیں۔فوج ان کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے بے چین ہو رہی تھی۔ اب فوج اور حکومت ایک ہی پائدان پر کھڑے ہیں۔ وزیراطلاعات و نشریا ت پرویز رشید نے آج صاف صاف کہا ہے کہ فوجی کارروائی کا فیصلہ سرکار نے کیا ہے اور فوج اس پر تہہ دل سے عمل کر رہی ہے۔دوسرا ‘اس دور میں صرف صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن)کی سر کار ہے۔باقی تین صوبوں میں الگ الگ پارٹیوں کی سرکاریں ہیں۔ اگر یہ فوجی مشن کامیاب ہو گیا تو ان تینوں صوبوںسندھ‘بلوچستان 
اور پختونخوا میں بھی نواز کی مقبولیت بڑھے گی۔ تیسرا‘اگر دہشت گردوں کا خاتمہ ہوتا ہے تو طالبان کمزور پڑیں گے۔ اس کاسیدھا فائدہ افغان سرکار کو ملے گا۔ امریکی واپسی کے بعد وہاں لاقانونیت پھیلنے کا خوف کچھ کم ہو جائے گا۔ چوتھا‘میاں نواز کی اس پہل کا عالمی سطح پر بھی خیرمقدم کیا جائے گا۔ اس مشن سے چین اور بھارت بھی خوش ہوں گے کیونکہ چین کے صوبہ سنکیانگ اور بھارت میں دہشت گردوں نے کافی نقصان پہنچایا ہے ۔ایران اور وسطی ایشیا کے پانچوں جمہوری مسلم ممالک میں بھی پاکستا ن کے امیج میں بہتری آئے گی۔ پانچواں‘اگردہشت گردی کو قابو کیا جا سکا توبھارت پاک تعاون بڑھے گا‘وسطی ایشیاتک راستہ کھلے گا۔اور علاقائی تجارت میں غیر معمولی ترقی ہوگی۔نریندر مودی نے جیسی پہل ابھی کی ہے‘اسے دیکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ سبھی ریاستیںاگلے پانچ سال میں مشترکہ بازار (منڈی) کھڑا کر سکتی ہیں ۔کچھ ہی سالوں میں ہم یورپ کی طرح مشترکہ پارلیمنٹ بھی بنا سکتے ہیں۔
جہاں تک بھارت پاک تعلقات کا سوال ہے‘پچھلے چالیس پچاس سال میں میرا یہ پہلا تجربہ ہے کہ بھارت پاک بیٹھک میں کسی بھی مقرر نے کوئی بھی غیرپسندیدہ بات نہیں کہی ۔میرے ساتھ بھارت کے سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید اور ایک دوسرے سابق وزیر منی شنکر ایّرکے علاوہ کچھ صحافی اور پروفیسر بھی تھے اور پاکستان کی طرف سے تین سابق وزراء اور سابق آرمی چیف اور سابق خفیہ اداروں کے خاص عہدیداران بھی تھے۔سبھی پاکستانی جرنیلوں اور لیڈروں کا ماننا تھا کہ دونوں ملکوںکے بیچ جنگ کا امکان ختم ہو چکا ہے۔اب تو بات چیت ہی صرف ایک چارا ہے۔بھارت کی یہ مانگ ہے کہ پاکستان اس کے خلاف دہشت گردی بند کر ے اور پاکستان کا مطالبہ ہے کہ بھارت پہلے کشمیر کا مسئلہ حل کرے‘ تبھی دونوں ملکوں کے بیچ بات ہوگی۔دونوں ملکوں کے بیچ بات چیت جاری رہے۔ اگر تجارت اور عوام کی سطح پر رابطے بڑھتے چلے جائیں‘جیساکہ سرحدی تنازع کے با وجود بھارت اور چین کے تعلقات بڑھتے چلے جا رہے ہیں تو باہمی تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں۔ یہ بیٹھک سابق وزیرخارجہ خورشید قصوری کے ادارہ'ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ‘نے منظم کی تھی۔پاکستان کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کے ساتھ‘ جو میرے پرانے دوست ہیں‘کھانا اور لمبی بات ہوئی۔دیگر پارٹیوں کے کئی لیڈران اور بڑے افسروں سے بھی ملاقات ہوئی۔یہاں لوگ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ہماری خارجہ سیکرٹری سجاتا سنگھ نے مودی نواز ملاقات پر عجیب بے سروپا سا جھوٹا بیان فوراً جاری کر دیا‘ جس کے سبب پاکستان میں یہ بات ہوئی کہ نواز مودی سے دب گئے۔ وزیراعظم نوازشریف نے صبر رکھا۔وہیں جواب نہیں دیا لیکن وہ بھارت کے دورہ سے مطمئن ہیں۔دہشت گردوں سے نپٹنے کے بعد میاں نواز بھارت پاک مورچے (فرنٹ) پر جم کر کام کریں گے‘ اس کا مجھے کامل یقین ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں