پاکستان کے لیے نریندر مودی اب بھی ایک پہیلی ہے۔ انہیں بھارت کا وزیر اعظم بنے ایک مہینہ ہو گیا ہے لیکن پاکستان کے لوگ اب بھی ان کے نام کا درست تلفظ نہیں کر سکتے۔کچھ ٹی وی اینکر انہیں' نرِیندر‘ کہتے ہیں اور کچھ انہیں نریندرا اور جو لوگ انگریزی دان ہیں ‘وہ مودی نہیں ' موڈی ‘کہتے ہیں۔کچھ بیدار لوگ‘بھارت سے لوٹے کچھ ماہرین سیاست اورکچھ دانشمند صحافی ہمارے وزیراعظم کا نام درست تلفظ سے ضرورلیتے ہیں لیکن اگر آپ سڑک پرچلتے عا م آدمی سے پو چھیں کہ بھارت کے نئے وزیر اعظم کون ہیں تو وہ آپ کا منہ دیکھنے لگ جاتے ہیں‘کوئی نیا بنا توہے لیکن ہمیں اس کا نام پتہ نہیں ۔
اس کا اشارہ یہ نہیں کہ مودی کے وزیر اعظم بننے کا مطلب پاکستان کے عوام کے لیے کچھ نہیں ہے‘ بلکہ یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے سب سے بڑے پڑوسی ہیں لیکن ان میں ایک دوسرے کے بارے میںاتنی لا علمی پھیلی ہوئی ہے۔ جوبات مودی کے بارے میں سچ ہے‘وہی میاں نواز شریف پر بھی لاگو ہوتی ہے ۔بھارت کے عام آدمی کو بھی پتہ نہیں کہ پاکستان کے وزیر اعظم کا نام کیا ہے ۔ہاں ابھی نواز شریف کے دلی آنے سے کچھ لوگوں کو ان کا نام یاد ہو گیا ہے۔
جہاں تک عقلمند لوگوں کا سوال ہے ‘وہ مودی کو جانتے ہی نہیں ہیں‘ہم سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔ہم مودی کو صرف جانتے ہیں۔وہ اسے جاننے کے عجیب و غریب مطلب بھی اپنے آپ نکال لیتے ہیں۔ انتخابات کے دوران کئی اینکروں نے یہاں تک کہا کہ مودی دہشت گرد ہے ‘وہ انقلاب پسند ہے اور وہ پاکستان کے خلاف پتہ نہیں کیا کیا کر ڈالے گا۔ابھی جب لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں گولیاں چلیں تو وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو 'پنجاب کا نریندر مودی‘ کہا گیا ۔پہلے ان کی برابری طالبانی دہشت گرد مولانافضل اللہ سے کی جاتی تھی۔چناؤ کے دوران مودی کیلئے جن الفاظ کا استعمال پاکستان میں ہوتا تھا ‘انہیں یہاں دہرانا بھی مناسب نہیں ہے لیکن مودی کے وزیر اعظم بننے پر اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے ان کی حلف برداری میں شرکت کرنے سے کافی فرق پڑ گیا ہے۔
جونہی میاں نوازشریف کو مودی کا دعوت نامہ ملا‘ٹی وی چینلوں اور اخباروں کا لہجہ نرم پڑ گیا۔میاں نوازشریف نے بھارت جانے کا فیصلہ کرنے میں تین چار دن لگائے ۔اس بیچ میں رواجی چلن کے مطابق ماحول کو بنا دیا گیا۔ پاکستان کے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ بھارت کا وزیر اعظم تقریب حلف برداری میں بلا سکتا ہے ۔وہ بھولے نہیں تھے کہ پچھلے سال مئی کے مہینے میں میاں نواز شریف نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں ہندوستانی وزیر اعظم کو دعوت دی تھی لیکن وہ آئے نہیں۔میں اس وقت اسلام آباد میں ہی تھا۔ہم نے وہ موقع کھویا ‘کیونکہ ہمارے یہاں سربراہ غائب تھے لیکن مودی نے اپنی طرف سے دعوت دے کر جرأت مندانہ پہل کی اور پورے پاکستان کے ذہن کو متاثر کیا۔اب پاکستان کے صحافی بھارت کے وزیر اعظم کے بارے میں بات کرتے ہوئے کافی محتاط ہو گئے ہیں ۔
جہاں تک پاکستان کی پالیسی بنانے والوں کا سوال ہے ‘میری بات یہاں وزیراعظم نواز شریف‘ مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز‘خارجہ سیکرٹری چوہدری اعجازاحمد‘ کئی وفاقی وزراء اور کئی اپوزیشن لیڈروں سے بھی ہوئی۔مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ان میں سے لگ بھگ ہر شخص نے ہمارے وزیر اعظم کو'مودی جی‘ یا 'مودی صاحب‘کہا۔جن لوگوں نے مجھے 'یو ٹیوب‘پر مودی کے ساتھ بولتے ہوئے سنا تھا‘وہ مجھ سے کہتے تھے 'آپ کے نریندر بھائی‘سے ہم یہ امید کرتے ہیں ‘وہ امید کرتے ہیں۔ان سب کی رائے ایک ہی تھی۔وہ نریندر مودی کو بڑی عزت کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ ان کا ماننا تھاکہ جسے بھارت کے عوام نے واضح اکثریت اور طاقتور حمایت دی ہے‘اس لیڈر کے جائز وقانونی ہونے پر سوالیہ نشان لگانا بے وقوفی ہی ہے ۔ایسے ہی لیڈر کے ساتھ تعلقات کوبہتر کرنے کی بات چیت مفیدہو سکتی ہے ۔
پاکستان کے کچھ مشہور اکیڈمک مقامات پر میری کچھ تقاریر بھی ہوئیں۔وہاں موجود سیاسی ماہروں اور فوجی جرنیلوں نے مجھ سے کئی مضمونوں پر سوال پوچھے لیکن سب سے زیادہ سوال نریندر مودی کے بارے میں پوچھے۔ان کے دل میں ابھی کافی تجسس برقرار ہے ۔ایک پروفیسر نے پوچھا کہ کیا آپ کے وزیر اعظم دائود ابراہیم کو پکڑ کر یہاں سے لے جائیں گے‘ جیساکہ انہوں نے انتخابات کی مہم میں اعلان کیا تھا ۔کیا پاکستان کے بارے میں'مودی جی‘کا نظریہ وہی ہے ‘ جو آر ایس ایس کا ہے یعنی اکھنڈ بھارت کا؟کیا وہ کشمیر کو بھارت کا 'اٹوٹ انگ‘ مانتے ہیں؟کیا کشمیر کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے ؟میں نے ان سے کہا کہ چناؤ مشن جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے‘ویسا ہی بھارت میں ہوتا ہے۔ اس میں کئی باتیں صرف اسی مخصوص وقت کے لیے ہوتی ہیں۔ جہاں تک اکھنڈ بھارت اور کشمیر کا سوال ہے ‘میں نے ان سے بی جے پی کا منشور پڑھنے کی التجا کی۔اس میں سارک کو پھیلانے پر زور دیا گیا ہے اور کشمیر کیا ‘سبھی مدعوں کو بات چیت سے حل کرنے کا عزم ہے۔آرٹیکل 370 ‘ قلم 144 اور رام مندر کے بارے میں بھی سبھی فریقوں کی متفقہ رائے سے حل نکالنے کی بات کہی گئی ہے ۔
ایک سابق سفیر نے پوچھا کہ کیا مودی ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں'پہلے وار کی‘ پالیسی کو ہی چلائیں گے۔مودی کے بارے میں یہاں یہ خوف پھیلا ہوا ہے کہ وہ بڑے سخت آدمی ہیں اور وہ کوئی خطرناک فیصلہ بھی ایک دم کر سکتے ہیں۔میں نے اس وہم کا تدارک کرتے ہوئے انہیں سمجھایا کہ اٹل جی کی پالیسی تھی 'نو فرسٹ یوز‘کی۔مودی اس پر قائم رہیں گے۔کچھ لوگوں نے مودی کی خارجہ پالیسی اور ان کے نوکر شاہی کے دبدبے پر بھی سوال کیے۔میں نے پوچھا‘ نہرو کے علاوہ کون سا وزیراعظم ہمارے یہاں اور آپ کے یہاںخارجہ پالیسی کا علامہ رہا ہے ؟ ہمارے نوکر شاہوں کو پتہ ہے کہ آج کل ان کا 'باس ‘کون ہے‘ اس کے علاوہ سشماسوراج جیسی لائق اور تجربہ کار عورت وزیر خارجہ ہیں۔
کیا مودی بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو فائدہ پہنچانے والے ہیں اور کیا وہ ہندو فرقہ واریت کے ووٹ پر فتح کرکے نہیں آئے ہیں؟ملک کی اگر مکمل ترقی کرنی ہے تو ہر طبقے کا خیال رکھنا ہوگا۔ کسی مخصوص طبقے کے مفادات کا خیال یا دشمنی رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔جہاں تک فرقہ واریت کے ووٹ کا سوال ہے ‘میں نے پاکستانی دانشمندوں کو بتایا کہ ان انتخابات میںفرقہ پرستی کا معاملہ تو دور دور تک نہیں تھا۔یہ ٹھیک ہے کہ اقلیتوں کے زیادہ ووٹ مودی کو نہیں ملے ہیں لیکن ان انتخابات میں مودی کا جادوئی اثر ایسا ہوا ہے کہ لوگوں نے نسل پرستی کی دیوار یں توڑ دیں۔وہ بدعنوان اور جابر سرکار کے خلاف ایک جُٹ ہو گئے ۔اقلیتوں نے بھی اپنا ووٹ انہیں نہیں دیا۔ مودی جیسا مضبوط وزیر اعظم ہی اٹل جی کے مشن کو آگے بڑھا ئے گا اور بھارت پاک تعلقات کو نئی راہ دے گا۔
(باقی صفحہ17 پر)
پاکستانی وزیر اعظم کے خارجہ پالیسی کے صلاح کار سرتاج عزیز نے یہاں پارلیمنٹ میں جو پالیسی کے متعلق تقریر کی‘اسے سن کر یقین ہوتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اب ٹھیک رخ اختیار کر رہی ہے ۔سب سے پہلے بھارت کی بات کریں۔بھارت کی بابت عزیز کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں تب تک امن اور استحکام نہیں آ سکتا‘جب تک بھارت پاک تعلقات کے مزاج ایک نہ ہو جائیں۔یہ اصلی چابی ہے۔اگر اس چابی کو دونوں ملکوں کے سربراہ ٹھیک سے گھما سکیں تو پورا جنوبی ایشیا ایک مضبوط اقتصادی‘سیاسی اور معاشرتی اعلیٰ جماعت میں تبدیل ہو سکتا ہے ۔چھوٹے موٹے با ہمی مسائل اپنی جگہ چاہے کھڑے رہیں‘لیکن ان کے باوجود آپسی تعاون کا چرخہ کبھی جام نہیں ہوگا۔اگر بھارت پاک تعلقات معمول پہ آ جائیں تو پاکستان کو پورے جنوبی ایشیائی ملکوں تک پہنچنے کے لیے زمینی راستہ آسانی سے مل جائے گا ۔بھارت کو پاکستان ہوکر جانے کا راستہ مل جائے تو وہ افغانستان ‘ایران ہی نہیں ‘یورپ اور وسطی ایشیا کے ملکوںتک سڑک کے راستے پہنچ پائے گا۔آلاتِ نقل وحرکت اور مسافروں کے آنے جانے کا خرچ ایک چوتھائی بھی نہیں رہ جائے گا۔جنوب اور وسطی ایشیا کے ان سب ملکوں کے پاس لامحدود خزانہ ہے‘کانی چیزوں کا!اگر اس کا استعمال ہونے لگے تو ڈیڑھ سو کروڑ لوگوں کی غریبی صرف پانچ سال میں دور ہو سکتی ہے۔جنوبی ایشیا دنیا کا سب سے مالدار علاقہ بن سکتا ہے۔
لیکن یہ تبھی ہو سکتا ہے‘ جب تشدد وغارت گری کا راستہ چھوڑا جائے۔ سرتاج عزیز نے اپنے بیان میںصاف صاف کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کو اپنا صوبہ بنانے کی پالیسی پر نہیں چلے گا۔پاک اور افغان تعلق ہمیشہ تکراری اور تنازع میں رہے ہیں‘ اس کے باوجود کہ دونوں مسلم ملک ہیں اور دونوں ملکوں کے لاکھوں لوگ ایک ہی قومیت اور زبان کے ہیں۔اسی طرح بھارت کے ساتھ بھی جنگ کرکے کچھ حاصل کرنے کی پالیسی پاکستان چھوڑ دے تو وہ اپنا کروڑوں اربوں روپیہ فوج پر خرچ کرنے کے بجائے تعلیم ‘صحت اور روزگار پر خرچ کر سکتا ہے ۔اسے پھر امریکہ اور یورپ کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔وہ ایک غیور ریاست بن کر رہے گا ‘ پچھ لگو کی طرح نہیں۔یہ بات بھی سرتاج عزیز نے گھما پھرا کر کہی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ کر کے پاکستان سرکار نے جو امن کی طرف قدم بڑھائے ہیں‘ وہ اس کی خارجہ پالیسی کو بھی کام کرنے کے لائق بنائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر یہاں کی فوج کاگہرا اثر ہوتا ہے۔یہ اچھی بات ہے کہ آج کل سرکار اور فوج ایک جُٹ ہو گئی ہے۔ ان کے تکرار کم ہو گئے ہیں۔اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستانی خارجہ پالیسی اپنی تاریخ میںپہلی بار نئی اور اونچی منزل کی اور بڑھے گی۔
(ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک بھارت کی کونسل برائے خارجہ پالیسی کے چیئرمین ہیں)