"DVP" (space) message & send to 7575

ہمارے اور تمہارے طالبان

پاکستانی فوج نے دہشت گردوں کے خلاف زبردست مشن چلا رکھا ہے ۔اب تک پانچ لاکھ لوگ گھر بار چھوڑ کر شمالی وزیرستان سے باہر نکل چکے ہیں ۔ہر پناہ گزین کو سرکار ہزاروں روپیہ دے رہی ہے اور اُن کی رجسٹریشن بھی کی جا رہی ہے۔ اب ایک دو دن میںفوج زمینی تلاش شروع کرے گی۔ظاہر ہے کہ جگہ جگہ چھپے طالبان کافی تعداد میںمارے جائیں گے۔ وہی بچ پائیں گے‘جو کسی طرح چھپ چھپاکر بھاگ نکلے ہیں۔افغان سرکار کا کہنا ہے کہ ان کی سرحد کے اندر قریب ایک لاکھ لوگ گھس آئے ہیں۔ اس کا اندازہ دونوں سرکاروں کو پہلے سے تھا ۔اس لئے پاکستان نے اپنے پٹھان رکن پارلیمنٹ محمود اچکزئی کو حامد کرزئی سے بات کرنے کیلئے کابل بھیجا تھا۔ کابل سے واپسی کے بعد اچکزئی کے ساتھ میری‘ ان سے سبزیوں پر مشتمل کھانے پر گفتگو ہوئی تھی۔ طالبان کے خلاف جنگ کی پیچید گیوں کو سمجھنے میں اچکزئی نے میری کافی مدد کی ۔
افغانستان بھی پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے لیکن وہ'افغان طالبان‘کو پہلے چھڑانا چاہتا ہے۔پاکستان نے افغانستان کے کئی طالبان لیڈروں کو گرفتار کر رکھاہے۔کرزئی سرکار کاکہنا ہے کہ ہمارے طالبان امن چاہتے ہیں اور افغان سرکار ان سے بات کر رہی ہے جبکہ پاکستان مانتا ہے یہ طالبان افغان سرکار کے مُرغے ہیں۔ یہ اس کے اشارہ پر پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔ خاص طور پر مولانا فضل اللہ گروہ کے طالبان۔ اسی طرح افغان سرکار کا الزام ہے کہ پاکستانی سرکار اپنے کچھ طالبان کا استعمال افغانستان میں گڑبڑی پھیلانے کے لئے کرتی ہے۔اس لئے حامد کرزئی نے جو اچکزئی سے کہا اور جو خط پاکستان کے خارجہ سیکرٹری کو دیا‘ اس میں واضح کہہ دیا ہے کہ اس مشن میںپاکستان کی حمایت کریں گے لیکن ہماری کچھ شرائط ہیں۔
حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ دہشت گرد اور دہشت گردی میں فرق کرنا غلط ہے ۔یہ مشن ہر رنگ کے دہشت گردوں کے خلاف ہونا چاہئے۔نہ کوئی نرم نہ کوئی گرم! نہ کوئی اچھا نہ کوئی برا‘ نہ کوئی ہمارا طالبان نہ کوئی تمہارا طالبان۔ مانا یہ جاتا ہے کہ پاکستانی فوج صرف ان دہشت گردوں کے خلاف ہے‘ جو صرف پاکستان کو تنگ کرتے ہیں۔جو دہشت گرد بھارت اور افغانستان کے خلاف ہیں‘ انہیں کچھ نہیں کہا جاتا۔ کرزئی نے کہا ہے کہ جو چین کے خلاف متحرک ہیں ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔کرزئی نے اس مشن کو علاقائی رنگ دینے کی مانگ کی ہے ‘جو بہت ہی درست اور قابل عمل ہے۔
جن لوگوں نے شروع میں بعض مجاہدین اور طالبان کی‘ قتل و غارت گری کے راستے پر چلنے میں مدد کی‘ انہوں نے کامیاب ہونے پر پاکستان کو ہی نشانہ بنالیا۔ یہ کام امریکہ کے اشارہ پر اس کے مفاد کے لئے کیا گیا تھا۔ کل ملاکر نقصان پاکستان کا ہی ہوا۔اب پاکستان تشدد کی اس سیاست کو اپنے ملک سے رخصت کرنے کا پختہ ارادہ کر لے‘ تبھی یہ خونیں مشن کامیاب ہوگا۔ پاکستان‘ طالبان کے بچے کھچے لوگوں سے بھی بات چیت کا راستہ نکالے ۔اگر طالبان اپنے آپ کو حوالے کر دیں تو انہیں عام معافی دے کر‘ قانون پسند شہری بننے کا موقع دینے کی کوشش کی جائے۔ یہ تبھی ہوگا جب پاکستان ہمارے اور تمہارے طالبان میں فرق کرنا بند کرے گا۔ 
............
میں آج کل پاکستان کے جس ٹی وی چینل پر جاتا ہوں‘کشمیر کا سوال ضرور اٹھا دیا جاتا ہے۔جب میں اینکروں اور دوسرے صاحبان سے پو چھتا ہوں کہ آپ بتائیے کشمیر کا حل کیا ہے تو ان کے پاس کوئی ٹھوس اور قابل عمل واضح جواب نہیں ہوتا۔ ہاں آج کل ایک نئی بات سب کے منہ سے سن رہا ہوں۔کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم ڈنڈے کے زور سے کشمیر لے سکتے ہیں ۔لگ بھگ سبھی دانشور اب پاکستان میں ماننے لگے ہیں کہ کشمیر کا حل بات چیت سے ہی ہو سکتا ہے ۔اس موضوع پر میری بات‘ اُن بڑے فوجیوں سے بھی ہوئی ‘جنہوں نے کبھی تلوار کے زور پر بھارت سے کشمیر چھیننے کی کی کوشش کی تھی۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں یہ ہوا کیسے بدلی اور کیوں بدلی ؟اس کی خاص وجہ مجھے یہ دکھائی پڑتی ہے کہ اب پاکستان کے لوگ تھکان محسوس کر نے لگے ہیں ۔انہوں نے دیکھ لیا کہ چار چار لڑائیاں کر لیںلیکن وہ کشمیر کی انچ زمین بھی نہیں چھین سکے۔ بلکہ اپنے ہزاروں جوان اور گھس پیٹھیے (مداخلت کار) کھو دیے‘ کروڑوں اربوں کا گولا بارود برباد ہوا اورکشمیر کے نام پر ایک ایسی جماعت کھڑی ہوگئی‘جو خود پاکستان کے گلے کو آجاتی ہے۔عسکریت پسندی اور دہشت گردی یہ سب تحریک کشمیر کی دین ہیں۔لوگ کشمیر کا حل اب بھی چاہتے ہیں لیکن گفتگو سے چاہتے ہیں۔اب بات چیت کا راستہ انہیں اس لئے بھی بہتر لگتا ہے کہ ان کے دل سے بھارت کا خوف نکل گیا ہے ۔وہ بھی ایٹمی قوت ہیں‘ جیساکہ بھارت ہے۔ انہیں پہلے ڈر تھا کہ بھارت کئی گنا بڑا ہے۔وہ حملہ کر سکتا ہے‘پاکستان کو توڑ سکتا ہے‘اس سے وہ کشمیر بھی چھین سکتا ہے لیکن اب تو دونوں برابری کی طاقت والے ملک ہو گئے ہیں۔تو اب وہ کیا کریں؟
جب ہر چینل پر مجھ سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ تنازع کشمیر کے دو نہیں چار فریق ہیں۔بھارت اورپاکستان کے علاوہ (مقبوضہ اور آزاد) کشمیر بھی ہیں۔ دونوں کشمیروں کے لوگوں اور لیڈروں کو یہ طے کرنے دو کہ کشمیر کا مستقبل کیسا ہو ؟سب سے پہلے کشمیر کے دونوں حصوں کو ایک دوسرے کے لئے کھول دیا جائے۔کشمیری عوام بھارت یا پاکستان میں ضم نہیں ہونا چاہتے ۔ٹھیک ہے‘ وہ چاہتے ہیں آزادی ۔ آزادی تو انہیں ملنی ہی چاہئے ۔مکمل آزادی۔ویسی ہی آزادی‘ جیسی دلّی اور لاہور کے لوگوں کو ہے۔لیکن آزادی کا مطلب علیحدگی تو نہیں؟ آزادی اور علیحدگی میں ہمیں فرق کرنا ہوگا۔میں اپنے حریت کے لیڈروں اور پاکستانی کشمیر کے لیڈروں سے بھی کہتا ہوں کہ اگر آپ کشمیر کو آزاد اور خودمختار ریاست بناکر الگ کر دیں گے تو اس کی آزادی ختم ہو جائے گی۔ وہ ہرایک کی کھیتی بن جائے گا۔جس کا جینا حرام ہو جائے گا۔ایسے کشمیر کی سب سے زیادہ مخالفت پاکستان کرے گا۔پاکستان کے کئی وزرائے اعظم سے ہوئی میری نجی بات چیت میںاور عوامی بیانات میں بھی انہوں نے اپنی اس رائے کو نہیں چھپایا۔ انہوں نے صاف صاف کہا ہے کہ آزادی کا تیسرا تصور کشمیر کو نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقت یہی ہے۔ اس لئے دونوں کشمیروں کو مکمل آزادی دے کر خود مختار بنایا جانا چاہئے اور جو کشمیر بھارت اور پاکستان کے بیچ دشمنی کی خندق بن گیا ہے‘اسے دوستی کا پل بنایا جانا چاہئے۔ 
(ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک بھارت کی کونسل برائے خارجہ پالیسی کے چیئرمین ہیں) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں