آج آپ ایسی ملاقات کا احوال پڑھیں گے‘جس نے تاریخ بنائی ہے ۔آزاد بھارت کی تاریخ میں آج تک کسی صحافی کی ملاقات کی وجہ سے ایوان کی کارروائی اس طرح ٹھپ نہیں ہوئی‘جیسے کہ ویدک جی کی ملاقات سے ہوئی۔ ٹی وی چینلوں پر شاید ہی کبھی کو ئی صحافی ملک میں دو تین دن اس طرح چھایا رہا۔اس ملاقات اور اس میں کی گئی گفتگوکو ''بھاسکر‘‘ نے آج شائع کیا ہے۔ اسے اپنے ناظرین کیلئے یہاں مکمل صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (بھاسکر)
ڈاکٹر ویدک کی مختصروضاحت:
حافظ سعید سے ملاقا ت اچانک طے ہوئی ۔دو جولائی کی دوپہر کو میں بھارت آنے والا تھا۔ یکم جولائی کی شام‘ کچھ صحافی مجھ سے بات چیت کر رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ آپ بھارت مخالف دہشتگردی کا مدعا اتنے زور سے اٹھا رہے ہیں‘کیاآپ کبھی حافظ سعید سے ملے ؟میں نے کہا نہیں۔ان میں سے لگ بھگ سب کے پاس حافظ سعید کے نمبر تھے۔کسی نے فون ملایا اور ملاقات طے ہو گئی۔صبح سات بجے اس لیے طے ہوئی کہ مجھے لاہور ہوائی اڈے پر دس گیارہ بجے کے بیچ پہنچنا تھا۔میں نے کہہ دیا کہ اگر ملاقات دیر سے ہوئی تو میں نہیں مل سکوں گا۔اس ملاقات کے لئے نہ تو میں نے اپنے کسی سرکاری عہدیدار سے رابطہ کیا اور نہ ہی پاکستان کے کسی لیڈر یا عہدیدار سے! اس سے پہلے پاکستان کے وزیر اعظم ‘وزیر خارجہ‘ خارجہ سیکرٹری اورکئی وفاقی اور صوبائی لیڈروں سے‘ میری ملاقات ہو چکی تھی۔فوج اور دفتر خارجہ کے کئی ریٹائرڈ اعلیٰ عہدیداروں سے بھی مل چکا تھا۔میں پاکستان کے ساتھ ساتھ پڑوسی ملکوں میں درجنوں دفعہ جا چکا ہوں۔پورے 45سال سے میرا سفری رابطہ بنا ہوا ہے۔ کئی پڑوسی ملکوں کے لڑکے‘جو میرے ساتھ بھارت یا بیرونی ملکوں میں پڑھتے تھے‘وہ اپنے اپنے ملک کے لیڈر بھی بن گئے ہیں اور مصنف و پروفیسر بھی !پڑوسی ملکوں کے ٹی وی چینلوں پر اکثر میرے پروگرام ہوتے رہتے ہیں‘وہاں کے اخبار بھی میرے لیکھ شائع کرتے رہتے ہیں۔ پڑوسی ملکوں کی یونیورسٹیوں‘ اکیڈمیوں اور اداروں میں‘ مجھے سیمیناروں میں شرکت کے لئے بلایا جاتا ہے۔اس دفعہ بھی بھارت پاک بات چیت کے ایک دور میں مجھے بلایا گیا تھا۔
پیشے کے اعتبار سے صحافی ہوں‘اس لئے میں ان مواقع کااستعمال صحافت کیلئے کرتا ہوں۔اگر بہت ہی ضرورت ہوتو اس ملاقات کو میں انٹرویو کے طور پر لکھ دیتا ہوں‘ورنہ اپنے لیکھوں میں ان کا استعمال کر لیتا ہو ں۔
جب میں نے حافظ سعید سے ملنے کا وقت طے کیا۔تو وہ بالکل ہی اتفاقیہ تھا۔میرا پہلے سے کوئی پروگرام نہیں تھا۔جب ملاقات طے ہوگئی تو میں نے سوچا کہ چاہے جو بھی ہو‘مجھے ان سے ممبئی حملے کے بارے میں سیدھے سوالات پوچھنا چاہئیں۔یہ انٹرویو کسی خاص اخبار کیلئے طے شدہ نہیں تھا۔میں نے سوچا جس سب سے اچھے اخبار ''بھاسکر‘‘میں برسوں سے لکھ رہا ہوں یہ انٹرویو بھی اسی میں دوں گا۔ اس سے پہلے میں وزیر اعظم میاں نواز شریف سے گفتگو کی تفصیل دوں گا۔ 'بھاسکر‘ میں دو تین لیکھ میرے پاکستانی سفر کے بارے میں چھپ چکے ہیں۔
میں نے ٹویٹر پر نہ تو حافظ سعید کا فوٹو اور نہ ہی انٹرویو پہلے دیا۔انڈیا ٹی وی کے مشہور اینکر جناب رجت شرما صاحب نے کہا کہ آج ہم شام کو حافظ سعید پر ایک گھنٹہ کا مخصوص پروگرام کر رہے ہیں۔ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ وہ کیسے ہیں؟ان کا دماغ کیسے چلتا ہے؟جناب رجت شرما اور ہیمنت شرما کو میں نے دو چار دن پہلے اپنے سب سے ملنے کی بات بتائی تھی۔اگر مجھے مودی سرکار نے بھیجا ہوتا تو اپنے صحافی دوستوں یا اپنی بیوی کو بھی میں کیوں بتاتا؟ اگر یہ ملاقات شاطرانہ یا خفیہ ہوتی تو سدا خفیہ ہی رہتی‘چاہے پھر اس کی مجھ کو کتنی ہی قیمت چکانی پڑتی۔ رجت شرما صاحب کے کہنے پر میں نے اسی وقت ای میل پر حافظ سعید کے فوٹو منگائے اور شاید ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے 'فارورڈ‘کروائے۔دوسرے دن صرف فوٹو ویب سائٹ پر چڑھوائے۔اس سے پہلے کہ ملاقات کو باقاعدہ میں لکھ کر 'بھاسکر‘ کو بھیجتا‘ ہمارے ملک کے کچھ لیڈروں اور چینلوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔کئی مشہور اینکروں کو افسوس تھا کہ ایسا سنہری موقع ان کے ہاتھ کیوں نہیں لگا؟انہیں یہ 'سکوپوں ‘ کا' سکوپ‘ لگا۔میرے لئے یہ کوئی غیرمعمولی حصول نہیں تھا۔ حافظ سعید سے بھی خطرناک لوگوں سے میری ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور وہ پہلے بھی خوب چھپی ہیں۔
حافظ سعید سے گفتگو تو آپ اس ملاقات میں پڑھیں گے ہی‘ مجھے اس بات کی بہت حیرانی ہوئی ہے کہ وہ میرے تیز سوالات سے تھوڑا خفا تو ہوئے لیکن بوکھلائے بالکل بھی نہیں۔اتنا خطرناک آدمی‘ اتنا صابر کیسے رہ سکا؟شروع شروع کے پانچ سات منٹ مجھے ایسا ضرور لگا کہ ماحول بہت متنازعہ ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بات ایک دم بگڑ جائے۔ ان کے بندوق والے کمرے کے اندر اور باہر بھی کھڑے تھے۔ لیکن میں ایسے مناظر افغانستان میں‘ وزیراعظم حفیظ اللہ امین کے ساتھ بھی 35سال پہلے دیکھ چکا ہوں۔گھنٹے بھر کی گفتگو میں کئی اتار چڑھائو آئے لیکن تو تو میں میں کی نوبت نہیں آئی۔ خراب الفاظ کا استعمال نہیں ہوا۔ساری بات چیت کے بعد مجھے لگتا ہے کہ حافظ سعید ایک نہ سمجھ میں آنے والی پہیلی ہے۔
گفتگو ختم ہونے کے بعد وہ مجھے کار تک چھوڑنے آئے‘جیساکہ میاں نواز شریف بھی اکثرکرتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ عدالتیں‘سرکار اور فوج تو اپنا کام کر یںگی ہی لیکن حافظ سعید جیسے لوگوں سے کسی نہ کسی طرح بات چیت جاری رکھی جا سکتی ہے ۔میزورم کے باغی لالڈینگا سے میرا رابطہ رہاتھا‘اس کا فائدہ بھارت کو آخر ملا ہی۔میں سمجھتا ہوں‘ میری اس ملاقات پر اس طرح کا ہنگامہ غیر ضروری تھا۔
کچھ ٹی وی چینلوں نے اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے اپنے عوام کا قیمتی وقت برباد کیا اور میرے کچھ بہت اچھے اور دانشور کانگریسی دوست بھی‘ ان کے بہکاوے میں پھنس گئے ۔سیاسی نظریہ سے دیوالیہ ہوئی کانگریس کو سوار ہونے کے لئے یہی کاغذ کی کشتی ملی۔انہوں نے مودی سرکار پر حملے کرنے کے بہانے بھارتی صحافت کو داغدار کرنے کی کوشش کی ۔مجھے ان کی نادانی پر سخت افسوس ہے ۔انہیں فخر ہونا چاہیے کہ ان کی سرکار‘ ان کی فوج اور ان کے جیسے 'بہادر لیڈر‘ آج تک جس کا بال بھی اکھاڑ نہ سکے‘ایک بوڑھے صحافی نے اسی حافظ سعید کی غار میں گھس کر اس کے دانت گن لیے۔ میں نے اپنی جان کی پروا بھی نہیں کی۔
مجھ پر کیے گئے حملوں کا جواب میںنے جم کر دیا ہے ، کسی صحافی دوست یا کسی سیاستدان کو میری باتوں سے چوٹ پہنچی ہوتو ان سے میری التجا ہے کہ میرا مقصد زبانی تشدد کا بالکل نہیں تھا۔ لیکن اگر میں فی الفور جواب نہیں دیتا تو ان کی غلط فہمی دورکیسے ہوتی ؟ میرے اور حافظ سعید کے درمیان ہونے والی گفتگو یہ ہے۔
حافظ سعید : میں آپ کے لیکھ پڑھتا رہا ہوں اور آپ کے کئی ٹی وی انٹرویوز بھی میں نے دیکھے ہیں لیکن آپ اپنے بارے میں تھوڑا اور بتایئے۔
ڈاکٹر ویدک: میں نے انٹر نیشنل سیاست میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ہے‘ دلی یونیورسٹی کے ایک کالج میں پھر چار سال پولیٹکس سبجیکٹ پڑھایا ‘پھر ایک اخبار اور نیوز ایجنسی کا مؤلف رہا۔ خارجہ پالیسی اور دیگر موضوعات پر میری لگ بھگ درجن بھر کتابیں ہیں۔ صحافت میں پچھلے پچاس پچپن سال سے کر رہا ہوں۔ آپ کے ملک میں پچھلے تیس پینتیس سال سے مسلسل آ رہا ہوں ۔اب آپ مجھے اپنے بارے میں بتائیں گے؟
حافظ سعید :ہاں‘ کیوں نہیں؟ میرا جنم مارچ1948 ء میں ہوا۔ میرے والدین بھارت سے پاکستان آئے تھے ۔
ڈاکٹر ویدک : آپ کیا بہار کے ہیں ‘مہاجر؟
حافظ سعید: میری والدہ روپڑ سے آئی تھیں اور میں پاکستان میں پیدا ہوا۔ اس طرح میرا بھارت سے بھی تعلق ہے ۔
ڈاکٹر ویدک : اگر بھارت سے تعلق ہے تو پھر یہ بتایئے کہ آپ نے بھارت پر ایسے خوفناک حملے کیوں کروائے؟
حافظ سعید : یہ بے بنیاد الزام ہے ۔جب ممبئی کے تاج ہوٹل کی خبر ٹی وی پر آئی تو میں نے کیا دیکھا کہ دو گھنٹے کے اندر میرا نام آنے لگا۔بار بار آنے لگا ۔
ڈاکٹر ویدک : اس کی کچھ تو وجہ ہو گی ؟
حافظ سعید : وجہ بس ایک ہی تھی۔پچھلی سرکار میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی تھی۔ اس کا وزیر داخلہ رحمن ملک میرا دشمن تھا ۔اس نے مجھے زبردستی گرفتار کر لیا۔
ڈاکٹر ویدک : آپ کی ہی سرکار نے آپ کو پکڑ لیا؟ ان کے پاس کچھ ٹھوس ثبوت ضرور ہوں گے؟
حافظ سعید : ثبوت وغیرہ کوئی نہیں تھے۔اسے صرف امریکہ کی غلامی کرنی تھی۔سرکار کا دیوالہ پٹ رہا تھا ۔اسے پیسے چاہئیں تھے۔مجھے پکڑ کر اس نے امریکہ کو خوش کر دیا اور بڑی امداد لے لی۔لیکن میں نے عدالت میں سرکار کو چاروں شانے چت کر دیا۔لاہور کی ہائی کورٹ نے میرے وکیلوں کو باہر کر دیا ‘اس کے باوجود رحمن ملک کی تگڑم ناکام ہو گئی ۔عدالت نے مجھے با عزت بری کر دیا ۔لیکن رحمن ملک نے مجھے پھر گرفتار کر لیا۔میں پھر سپریم کورٹ میں گیا۔وہاں بھی میں جیت گیا ۔میرا کوئی گناہ ثابت نہیں ہوا۔
(باقی صفحہ 13پر)
ڈاکٹر ویدک : یہ آپ کی اپنی عدالتیں ہیں ۔اگر یہ کوئی بین الاقوامی عدالتیںہوتیں تو کچھ اور بات ہوتی۔ میں آپ سے پو چھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا بھی قانون آپ مانتے ہیںیا نہیں؟
حافظ سعید : کیوں نہیں مانتاہوں؟میں تو جہادی ہوں۔
ڈاکٹر ویدک : کیا اللہ تعالی بے قصوروں کے قتل کو جائز مان لے گا؟ اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ اس کی عدالت میں آپ کیا جواب دیں گے؟
حافظ سعید : میں تو جہادی ہوں۔
ڈاکٹر ویدک : میں تو 'جہاد اکبر ‘کو مانتا ہوں۔ اس اونچے درجے کے جہادبارے تو یہی سمجھتا ہوں کہ اس میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
حافظ سعید : آپ پھر مجھ پر الزام لگا رہے ہیں ؟ میرا دہشت گردی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔میں قتل و غارت گری میں یقین نہیں رکھتا۔ میں تو خالص خدمت گار ہوں۔ سکول اورمدارس چلاتا ہوں‘یتیموں کی دیکھ بھال کرتا ہوں اور دیکھئے ابھی جووزیرستان سے لاکھوں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں‘ ان کی خدمت سرکار سے زیادہ میری جماعت کے لوگ کر رہے ہیں۔آپ چلیں‘خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔
ڈاکٹر ویدک : ہوسکتا ہے کہ آپ سب کچھ کر رہے ہوں لیکن مجھے یہ بتایئے کہ اقوام متحدہ اور امریکہ نے آپ کی جماعت کو غیر قانونی کیوں قرار دے رکھا ہے ؟امریکہ نے آپ کے سر پر کروڑوں کا انعام کیوں رکھا ہے؟بھارت سرکار نے آپ کے خلاف ٹھوس ثبوت دے کر کئی دستاویزتیار کی ہیں۔ان سب کا آپ کے پاس کیا جواب ہے ؟
حافظ سعید : (تھوڑے خفا ہوکر) جواب کیا ہے ؟سارے جواب میں دے چکا ہوں ۔کیا میرے جوابات سے آپ مطمئن نہیں ہیں ؟
ڈاکٹر ویدک : بھارت کے خلاف آپ زبردست نفرت پھیلاتے ہیں۔میں نے خود ٹی وی پر آپ کی تقاریر سنی ہیں ۔
حافظ سعید : اور بھارت جو ہمارے کشمیری بھائیوں کا قتل عام کرتا ہے‘ جو بلوچستان اور سندھ میں دہشتگردی پھیلاتا ہے ‘وہ کچھ نہیں؟ افغانستان میں اس نے سفارتخانہ کے نام پر 14جاسوس خانے کھول رکھے ہیں۔بھارت افغانستان کو ہمارے خلاف بھڑکاتا ہے۔
ڈاکٹر ویدک : یہ بالکل غلط ہے۔وہاں ہمارے14 سفارتخانہ بالکل نہیں ہیں۔ہم اس ملک کی دوستانہ مدد کرتے ہیں ۔بھارت کے عوام آپ سے نفرت کرتے ہیں۔ ممبئی کی خونریزی بھلانا مشکل ہے ۔
حافظ سعید : میں تو ہندوستانیوں کی یہی غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں ۔
ڈاکٹر ویدک : اس کا تو ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ اپنا گناہ قبول کریں اوراس کی مناسب سزا مانگیں۔یہ آپ کی بہادری ہوگی اور آپ یہ راستہ نہیں اپنا سکتے تو کفارہ ادا کریں‘معافی مانگیں۔
حافظ سعید: (تھوڑی بلند آواز میں) میں نے جب کوئی جرم ہی نہیں کیا تو ان سب باتوں کا سوال ہی نہیں اٹھتا (تھوڑی دیر چُپ رہ کے) یہ بتایئے کہ یہ نریندر مودی کیسا آدمی ہے؟ اس کا آنا سارے جنوب ایشیا کے لئے خطرناک نہیں ہے ؟
ڈاکٹر ویدک : اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نریندر مودی بہت سخت آدمی ہیں لیکن مودی صاحب نے انتخابات میں کسی ملک کے خلاف کچھ نہیں کہا۔اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کچھ نہیں بولے ۔پرانی باتوں کو چھوڑیئے۔ آگے بڑھیے‘ مودی صاحب اب بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔ ان کی ذمہ داری بہت بڑی ہوتی ہے ۔دیکھئے‘ آتے ہی مودی نے اپنی حلف برداری تقریب میں ‘ پڑوسی ممالک اور خاص کر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو بلایا۔کیا کسی بھارتی وزیر اعظم نے پچھلے 66 سال میں پاکستان کے کسی وزیر اعظم کو بلایا؟
حافظ سعید : کیا بلایا؟بلا کر مودی نے اسے بے عزت کر دیا؟
ڈاکٹر ویدک : کیسے؟
حافظ سعید : آپ کی خاتون خارجہ سیکرٹری نے کہا کہ مودی نے میاں نواز شریف کو ڈانٹ لگائی؟
ڈاکٹر ویدک : میں نے میاں نواز‘ آپ کے وزیر خارجہ اورخارجہ سیکرٹری سے بھی یہ پوچھاتھا۔ انہوں نے ایسی کسی بات سے واضح انکار کیا۔یہ تو صرف میڈیا کی کرتوت ہے۔
حافظ سعید : ہو سکتا ہے لیکن پاکستان میں توسبھی یہی سمجھ رہے ہیں؟
ڈاکٹر ویدک : ہم مانتے ہیں کہ بھارت پاک تعلقات کی راہ میں‘ آپ سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ذرا تعلقات اچھے ہونے لگتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہو جاتا ہے ۔
حافظ سعید : میں بالکل بھی رکاوٹ نہیں ہوں۔ آپ کی یہی غلط فہمی دور کرنے کے لیے میں ایک مرتبہ بھارت آنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اچھے بنیں۔ہمارے دونوں ملکوں کی تہذیب ایک جیسی ہے۔ میں بھارت کے کسی بڑے جلسے میں تقریر کرنا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر ویدک : مجھ سے پاکستان میں بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ مودی صاحب خود پاکستان کیوں نہیں آتے؟اگر آئیں تو کیا آپ پتھر بازی کروائیں گے‘ احتجاج کریں گے‘ مخالفت کریں گے؟
حافظ سعید : (تھوڑا رک کر) نہیں‘ ہم ان کا استقبال کریں گے!
ڈاکٹر ویدک : میں تو الٹا سمجھ رہا تھا؟
حافظ سعید : کیا آپ کوہم مسلمانوں کی‘ مہمان نوازی کے بارے میں پتہ نہیں؟اگر ہماری سرکار بلائے گی تو ہمارے مہمان ہوں گے۔