ہماری بھارتی عدلیہ میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا ایک نیا واقعہ سامنے آیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مدراس ہائی کورٹ کے ایک بدعنوان جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کیسے ہو گئی؟ یہ سوال مارکنڈے کاٹجو نے پوچھا ہے۔ کاٹجو اس وقت مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔رمیش چندر لاہوٹی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔یہ2007ء کے آس پاس کی بات ہے ۔اس وقت ملک میں کانگریس اتحاد کی سرکار تھی۔تامل ناڈو کی درمک پارٹی اس اتحاد میںکافی وزن دار تھی ۔ درمک پارٹی نے کانگریس کو دھمکی دی اور بلیک میل کیا کہ اگر تم اس جج کی عدالت میں کنفرم تقرری نہیں کرائو گے تو ہم تمہاری سرکار گروا دیں گے۔ مرتا‘کیا نہ کرتا ؟ کانگریس نے سوچا گردن کٹوانے سے کہیں بہترہے‘انگلی کٹا لینا۔ انگلی کٹی ہوئی ہے‘یہ کسے پتہ چلے گا؟اور کسے فرصت ہے کہ وہ کسی کی کٹی انگلی کی تفتیش کرتا پھرے۔
لیکن اس کٹی انگلی سے آج کل اتنا گندامواد بہہ رہا ہے کہ اب ساری عدالت بدبو سے بھر گئی ہے ۔جیسی رونق ہمارے لیڈروں کی بن گئی ہے‘ویسی ہی عدالت کی بنائی جا رہی ہے۔یہ عدالت کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے ۔ہماری عدالت پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔کتنے ملکوں میں ایسے جج ہیں‘جو اندرا گاندھی جیسی تجربہ کار وزیراعظم کٹہرے میں کھڑا کر دیں؟کتنے ججوں کی اتنی ہمت ہے کہ وہ وزرائے اعلیٰ کوجیل کی ہوا کھلا دیں ؟کتنے ججوں میں اتنا دم ہے کہ وہ ارب پتیوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیں ؟ایوان بالا اور سرکار کے سامنے جھکے بنا ہماری سپریم کورٹ نے کئی بار ایسے سخت فیصلے دیے ہیں ‘جن سے ہمارے آئین اور جمہوریت کادفاع ہوا ہے ۔سرکار کی دخل اندازی کی مخالفت میںہمارے بہت ہی معتبر اور عزت دار ججز نوکری سے مستعفی بھی ہوئے ہیں۔کچھ بد عنوان ججوں کا پار لیمنٹ میں مواخذہ بھی ہوا۔
لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ انصاف کرنے والے افراد کبھی سرکاری دبائو میں آتے ہی نہیں۔وہ دباؤ میں کیوں نہیں آئیں گے؟کیا ججز کی تعیناتی میں سرکار کا کوئی رول نہیں ہوتا ہے ؟ چاہے ہر ایک جج کی تقرری میں نہ ہوتا ہو لیکن چیف اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی وزارت کے مشورے کے بغیر نہیں ہوتی۔ کچھ ہفتے پہلے جب گوپال سبرامنیم کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کرنے کا مشورہ ججوں کے 'کالیجیم (فیصلہ کرنے والا بنچ)‘ نے دیا تو سرکار نے اڑنگا لگایا یا نہیں؟جب پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے سابق جسٹس وی۔راما سوامی کے خلاف ایوان میں 'امپیچ (مؤاخذہ)‘ چلا تو آپ کو یاد ہے ‘کانگریس نے کیا کِیا تھا؟ مئی 1993ء میں کانگریس نے راما سوامی کا ساتھ دیا۔کانگریس اور مسلم لیگ کے 205 ممبر ایوان میں بیٹھے رہے لیکن انہوں نے ووٹنگ میںحصہ نہیں لیا۔رام سوامی کے وکیل کپل سبل نے ان کی حمایت میں دلیلوں کا انبار لگا دیا۔رام سوامی پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے گھر کو سجانے کے نام پر سرکاری خزانے سے پچاس لاکھ روپیہ ڈکار لیے۔رام سوامی کے خلاف اپوزیشن کے صرف 196 ووٹ پڑے۔ رام سوامی بچ گئے لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے دور کے ساتھی جج رام سوامی کا دفاع نہیں کیا لہٰذا انہیں فوراً ہی مستعفی ہونا پڑا۔کانگریس کی سرکار اس وقت کچھ ہمت دکھاتی تو شاید ایک اعلیٰ روایت قائم ہوتی ۔
ججوں کی تعیناتی کے بارے میں ابھی تک سپریم کورٹ کے تین فیصلے آئے ہیں۔جسٹس پی این بھگوتی‘جسٹس جے ایس ورما اور جسٹس ایس پی بھروچہ۔ ان میں سے ایک نے بھی یہ کھل کر نہیں کہا کہ ججزکی تقرری میں سرکاری مداخلت بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ بھگوتی نے سرکاری کردار کی کھل کر حمایت کی۔ ورما نے اس میں تھوڑابہت کردار ادا کیا ہے جبکہ بھروچہ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے رول کو سب سے زیادہ وزن دار بتایا۔ مدراس ہائی کورٹ کے ایک مشہور جج کو سپریم کورٹ میںتعینات کرنے کا معاملہ سامنے آیا تومدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کاٹجو اور بھارت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس لاہوٹی‘دونوں نے قابل تعریف کردار ادا کیا۔دونوں نے بڑی ایمانداری اور مضبوطی دکھائی۔ کاٹجو نے لاہوٹی سے ایک جج کے بد عنوان ہونے کی شکایت کی تو لاہوٹی نے اس کی تفتیش کرائی۔اسی تفتیش کی بنیاد پر
سپریم کورٹ کے 'کالیجیم‘(فیصلہ کرنے والا بینچ) نے‘ جس کے سربراہ لاہوٹی تھے‘اسے تعینات کرنے سے صاف منع کر دیا۔اگر کاٹجو اور لوہاٹی دب جانے والے ہوتے تو ایک تو شکایت نہ کرتے اور دوسرا منع کیوںکرتے ؟اب کاٹجو پر درمک الزام لگا رہی ہے کہ وہ بی جے پی سرکار کی خوشامد کیلئے گڑے مُردے اکھاڑ رہے ہیںتاکہ انہیں یا تو کوئی نئی نوکری مل جائے یا پریس کی ان کی نوکری کا وقت بڑ ھ جائے۔کسی کا ارادہ کیا ہے‘ اس کے بارے میں کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ہم اسکی زبان پکڑنے سے تو رہے لیکن یہ تو ماننا پڑے گا کہ جسٹس کاٹجو نے اس معاملے کو اٹھاکر ملک کی خدمت کی ہے ۔سب کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ججوں کی تقرری کا عمل بالکل شفاف ہونا چاہیے۔
جہاں تک جسٹس لاہوٹی کا سوال ہے‘جو انہیں جانتے ہیں‘ انہیں پتہ ہے کہ وہ صاف ‘شفاف اور ایماندار شخص ہیں ۔ان میں اتنی اصولی طاقت ہے کہ انہوں نے اس جج کی تعیناتی کو بالکل مسترد کر دیا تھا۔جب تک فیصلہ ان کے ہاتھ میں تھا‘وہ ڈگمگائے نہیں۔لیکن ایوان وزیراعظم اور متعلقہ وزراء نے سیدھی مداخلت کی تو انہوں نے وہی کیا‘جو بڑے سے بڑے عہدوں پر رہنے والے لوگوں کو کرنا پڑتا ہے ۔وہ چاہے پھر صدر مملکت ہو ںیا وزیر اعظم ہوں۔فخرالدین علی احمد نے مصیبت کے دستاویز پر دستخط کر دیے اور ویسے ہی وزیر اعظم ہونے کے باوجود ڈاکٹر من موہن سنگھ
اپنی آنکھوں کے سامنے بڑے پیمانے پر بد عنوانی ہوتے ہوئے دیکھتے رہے۔نہ وہ تب کچھ بولے اور نہ اب کچھ بول رہے ہیں اور کاٹجو کی نیند بھی اب کھلی‘سات سال بعد۔لاہوٹی اس مدعے پر استعفیٰ ضرور دے سکتے تھے لیکن ویسا تو کاٹجو بھی کر سکتے تھے۔کاٹجوتو مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ مذکورہ جج ان کے ماتحت کام کر چکا تھا۔جس بد عنوان سرکار نے لاہوٹی پر دبائو ڈالا‘اسی سرکار کی سفارش پر کاٹجو بعد میںسپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے۔ملک میں ایسے لوگ کتنے ہیں‘جو اپنی بات پر ڈٹے رہیں؟ اپنی بات کیلئے نوکریوں کو‘چاہے وہ کتنی ہی بڑی ہو‘ٹھوکر مار دیں؟یہ معاملہ لاہوٹی اور کاٹجو کی مٹھ بھیڑ (ٹکرائو‘ مقابلہ یا تصادم)کا نہیں ہے بلکہ بڑی نوکریوں کی مجبوری کا ہے ۔
اگر کاٹجو،لاہوٹی مٹھ بھیڑ (تصادم) ججوں کی تقرری کے جنجال کو صاف کر سکے توملک کا بہت اچھا ہو گا ۔ججوں کی تعیناتی دور اندیش ہو‘غیر جانبدار ہواور عمل افعال کی بنیاد پر ہو ‘ اسکے لئے ایوان ‘سرکار‘ججز اور ماہرین کی سلیکشن کمیٹی بنے تو ہماری عدالتیں حقیقت میں انصاف کے مندر بن جائیں گی۔ جس ملک میں تین کروڑ مقدمے لٹکے ہوں‘عام آدمی مقدمات کا خرچ ہی نہ اٹھا سکتا ہو‘ انگریزی میں چلنے والی بحث کو وہ سمجھ ہی نہ سکتا ہو اور غیر ملکی قانون ہمارے ملک کی فطرت سے میل ہی نہ کھاتے ہوں‘وہاں صرف ججوں کی تقرری کوٹھیک کرنا ہی کافی نہیں ہوگا۔ وہاں ملک کے قانون اور انصاف کے انتظامات میں خاص بدلائو کی بھی ضرورت ہے۔
(ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک بھارت کی کونسل برائے خارجہ پالیسی کے چیئرمین ہیں)