"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت ڈٹا رہے

بھارت کے بارے میں مشہور ہے کہ اُس نے خارجہ پالیسی میں کبھی بھی مضبوطی نہیں دکھائی اور نہ ہی کبھی مستقل مزاجی کا ثبوت دیا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ کسی بھی بین الاقوامی ضروری معاملے پر اس کا رویہ دو ٹوک نہیں ہوتا۔وہ ایسی دوغلی پوزیشن اختیا ر کر تا ہے کہ جس سے رام بھی خوش رہے اور راون بھی۔ گنگا گئے تو گنگا داس اور جمنا گئے تو جمنا داس!
لیکن دنیا میں تجارتی الائنس کے میدان میں بھارت نے غضب کی مضبوطی دکھائی اور اس مضبوطی کا کریڈٹ من موہن سرکار کو جاتا ہے ۔دیگر معاملات میںدب کے رہنے والی اور بدعنوان سرکار نے بھارتی کسانوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کے دبائو کو رد کر دیا۔ہمارے سابق وزیر تجارت آنند شرما نے اس الائنس کے رکن ملکوں کو پچھلے سال صاف صاف کہہ دیا کہ بھارت ان کے کہنے سے اپنے کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی بند نہیں کرے گا۔بھارت سرکار زراعت کے معاملے میں فری مارکیٹ کی سرمایہ دارانہ مسابقت کو اہمیت نہیں دے گا‘ کیونکہ ایساکرنے سے ہمارے غریب کسان بری طرح برباد ہو جائیں گے اور ہماری زراعت چوپٹ ہو جائے گی۔ تجارتی اتحاد کے رکن ممالک چاہتے ہیں کہ تمام اقسام کی زرعی پیداوار کی دنیا بھر میں آزادانہ درآمد و برآمد ہو، ان پر کوئی پابندی نہ ہواور کوئی خاص ٹیکس وغیرہ نہ لگیں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ عام آدمی کو کھانے پینے کی چیزیں سستے داموں مل جایا کریں گی۔ یہ دلیل بڑی معصوم دکھائی دیتی ہے۔ یہ دلیل دینے والے ملکوں کو کیا پتہ نہیں ہے کہ بھارت جیسے ملکوں کے کسانوں کی حالت کیا ہے؟ نفع کمانا تو دور‘ وہ بے چارے کھیتی باڑی سے اپنا پیٹ بھی نہیں بھرپاتے۔ ہزاروں کسان قرض کے بوجھ سے دب کر خودکشی کرچکے ہیں۔ ایسے میں عالمی تجارتی الائنس کی شرط کے مطابق کسانوں کو صرف دس فیصد امداد دینا ناکافی ہے۔ اس کے علاوہ قحط و ایمرجنسی کی صورت میں غذائی اشیاء کے ذخائر وغیرہ بھی بند کرنے پڑیں گے۔ سرمایہ دار ملک بھی اپنے کسانوں کی پوشیدہ طور پر بھرپور مدد کرتے ہیں۔ایسے میں بھارت اپنے کسانوں کو صرف مرنے سے بچانا چاہتا ہے۔اس پر بھی ان ملکوں کو اعتراض ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ الائنس کی سفارشات کی مخالفت بھارت کو مہنگی پڑے گی کیونکہ کھیتی باڑی میں استعمال ہونے والی چیزوں کی درآمد و برآمد میں کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گالیکن مودی سرکار بھی اس پالیسی پر ڈٹی ہوئی ہے ۔یہ پچھلی سرکار کے مقابلے میں کافی مضبوط ہے۔ مودی سرکار نہ صرف اپنی بات پر سختی سے قائم رہے بلکہ بھارت کے نظریے کو ان ملکوں سے منوائے اور اگر وہ نہ مانیں تو بھی اپنے مؤقف پر سختی سے ڈٹی رہے۔ 
.........
سابق خارجہ وزیر کنور نٹور سنگھ کی کتاب 'ون لائف از ناٹ انف‘ (ایک زندگی کافی نہیں) شائع ہونے سے پہلے ہی دھماکے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ سنجے بارو نے سونیا گاندھی اور من موہن تعلقات پر جو روشنی ڈالی تھی‘ اس سے کہیں زیادہ تیز روشنی اب نٹور سنگھ کی کتاب ڈالے گی ‘کیونکہ نٹور سنگھ جی افسر نہیں تھے۔ لیڈر تھے‘ساتھی تھے ۔یہ الگ بات ہے کہ کانگریس پارٹی میں لیڈر اور ساتھی لوگ بھی افسروں سے زیادہ جی حضوری کرنے کیلئے مجبور ہو جاتے ہیں ۔ اس بات کو نٹور سنگھ نے ذرا زیادہ واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔ 
نہرو کے زمانہ میں ولّبھ بھائی‘ مولانا آزاد‘ راجا جی‘ کرپلانی‘ پرشوتم داس ٹنڈن اور مہاویر تیاگی جیسے لوگ پارٹی میں تھے۔وہ نہرو کی حمایت بھی کرتے اور مخالفت بھی۔اندرا جی نے شروعاتی سالوں میں سخت مخالفت کا سامنا کیا۔مرار جی‘نج لنگپا‘سدوبا پاٹیل‘ چندربھان گپت وغیرہ کئی سیاست دان تھے۔لیکن نٹور سنگھ نے ٹھیک لکھا ہے کہ سونیا گاندھی کو شروع سے ایسا اقتدار ملا تھا کہ جس میں ان کی مخالفت کرنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی ۔ایک سیدھی سادھی‘شرمیلی گھریلو اور کم پڑھی لکھی عورت آہستہ آہستہ کیسے تانا شاہ‘ بد انتظام‘ سازشی اور شاطر (میکیا ولین) بنتی جاتی ہے ‘اس عمل کو شایدنٹور سنگھ نے اپنی کتاب میں اچھی طرح ظاہر کیا ہوگا ۔اگر یہ کردار جاندار اور حقیقی ہو گا تو کسی بھی نصیحت سے زیادہ دلچسپ ہوگا۔اس میں شک نہیں کہ اس منظر نگاری میں مصنف کے اپنے ذاتی نظریے بھی شامل ہونگے لیکن اس سے انسانی فطرت کی کئی گہری پہیلیاں بھی 
سلجھیں گی۔اس سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ بھارتی جمہوریت کو مستقبل میں لائن سے ہٹنے سے کیسے بچایا جائے ؟یہ تو غنیمت ہے کہ ہوا ہولی میں سیاستدان بنے ماں بیٹے نے صرف کانگریس کو تباہ و برباد کیا ۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ وہ ملک کو کسی خطرناک مصیبت میں نہیں پھنسا پائے۔ انہوں نے وزیراعظم کے منصب کو بے توقیر کر ڈالا۔ اربوں کھربوں روپیہ لٹوا دیے۔ کیا خفیہ فائلیں اسی لئے دیکھی جارہی تھیں؟بھارت جیسی عظیم جمہوریت تبھی طاقتور اور صحت مند رہ سکتی ہے جب ہماری پارٹیوں کے اندر جمہوریت برقرار رہے۔ نئی مودی سرکار کیلئے بھی یہ بڑا چیلنج ہے۔ اگر پارٹی اور سرکار‘دونوں کسی ایک آدمی یاخاندان کی جیب میں رہیں گے تو مان لیجئے کہ اس کی حالت بھی کانگریس جیسی ہی خراب ہو جائے گی ۔
لیڈر بننے سے پہلے نٹور جی و زارت خارجہ کے بڑے ذمہ دار عہدے پر فائز رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ اپنی کتاب میں وہ ایسے کوئی رازفاش نہیں کریں گے ‘جس سے بھارت کے مفادات کو نقصان ہو لیکن وزیر رہتے ہوئے انہیں جو چوٹ پہنچائی گئی تھی‘اگر وہ اس کا بدلا نہیں نکالیں گے تو وہ 'کنور‘ یا 'چوہدری‘ کس بات کے ہوں گے؟ یہی ڈر سونیا اور پریانکا کو نٹور کے گھر لے گیا۔ابھی تو یہ شروعات ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے‘ کیا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں