"DVP" (space) message & send to 7575

موہن بھاگوت کی وارننگ

آر ایس ایس کے رہنما شری موہن بھاگوت نے بھونیشور میں جو کچھ کہا ‘ وہ سچ تو ہے ہی لیکن وہ ایک وارننگ بھی ہے۔اس کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ بی جے پی کے پیچھے اصلی طاقت آر ایس ایس کی ہے۔موہن بھاگوت کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس بار جو نئی سرکار بنی ہے‘اس کے سبب کہیں بی جے پی یا کوئی لیڈر(یعنی نریندر مودی) پھول کر کُپا نہ ہو جائیں۔کہیں وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ یہ سرکار انہیں کی وجہ سے بنی ہے اوران کے پاس کوئی ایسی طلسماتی طاقت یا انوکھی کشش ہے‘جس کی وجہ سے عوام انہیں ووٹ دینے پرمجبور ہوئے۔انہیں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ پارٹی اور لیڈر تو پہلے بھی تھے‘پچھلے دو انتخابات میں بھی تھے لیکن وہ اقتدار میں کیوں نہیں آ پائے؟کیونکہ عوام تیار نہیں تھے۔
موہن بھاگوت کی اس بات کے کئی مطلب نکالے جا سکتے ہیں۔ایک یہ کہ انہوں نے کسی داستانی، سیاسی شاستری کی طرح موجودہ حکومت پر بہت کچھ واضح کر دیا ہے۔ اس میں کوئی لاگ لپٹ نہیں ہے۔دوسرا یہ کہ انہوں بھاجپائیوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ کانگریسیوں کی طرح اپنی برتری کے بھلاوے میں نہ پڑجائیں اور اپنے فرض نبھانے میں سستی سے کام نہ لیں۔تیسرا ‘انہوں نے نریندر مودی کا نام لئے بغیر اُن کے غبارے کی ہوا نکال دی ہے۔بھاجپا میںشخصی سیاست نہیں چل سکتی‘اس کا صاف اشارہ انہوں نے دے دیا ہے ۔یہی بات انہوں نے بنگلور میں ہوئی سنگھ کی بیٹھک میں بھی کہی تھی اور دو ٹوک لفظوں میں کہی تھی(نمو نمو جپنا میرا کام نہیں ہے)
موہن بھاگوت کی مندرجہ بالا باتیں عام پسند اور عوام کے جذبات کی عکاس ہورہی ہیں۔بی جے پی کے لیڈر ایک دوسرے کی پُشت ٹھونک رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے سر پر فتح کا سہر ا باندھ رہے ہیں، ان کی نظریں عوام کی ان توقعات کے ٹوٹنے پر نہیں ہیں۔ناامیدی کا یہ اندھیرابھارتی سیاست کے فلک پر ہلکے ہلکے بادلوں کی طرح گھرتا جا رہا ہے ۔عوام کی دلچسپی کے ختم ہونے اور لیڈروں کے غرور کا بادلوں میں جب تصادم ہوگا تو غصہ برسے گا۔اس غصے کی آہٹ عیاں ہو رہی ہے‘موہن بھاگوت جی کے بیان میں ! آرایس ایس کے رہنماموہن بھاگوت کے اس بیان سے خفا ہونے یا نا امید ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے اپنے عہدے کی شان کے مطابق اپنا فرض نبھایا ہے ۔ 
مودی کے جذبات کو سمجھیں !
وزیر اعظم نریندرمودی نے لیہہ کارگل میں جو کچھ کہا ‘اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے پاک بھارت دوستی کے خلاف کوئی بات کر دی ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ان کے بیان پر پاکستان کی جانب سے تیز ردعمل ہو،لیکن پاکستا ن کے پالیسی میکروں کو چاہیے کہ وہ مودی کے لفظوں پر نہ جائیں‘ان کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔مودی نے یہ کہا کہ ہمارا پڑوسی جنگ کرنے کی طاقت کھو چکا ہے،اب وہ دبی چھپی لڑائی پر اتارو ہو گیا ہے۔جنگ میں جتنے لوگ مارے جاتے ہیں‘اس سے زیادہ لوگ بزدلوں کی گولیوں کاشکار ہو جاتے ہیں۔
1999 ء کے بعد لیہہ کارگل جانے والے مودی پہلے وزیر اعظم ہیں ۔وہاں کے رہنے والوں اور فوج کے جوانو ں کی حوصلہ افزائی کرنا ان کا فرض ہے ۔انہوں نے جو کچھ کہا‘اسے اسی فرض کی تکمیل سمجھنا چاہیے۔اس کایہ مطلب نکالنا ٹھیک نہیں کہ وہ پاکستانی فوج کو للکار رہے ہیں۔ پاکستانی فوج اپنے آپ میں کافی مضبوط ہے۔مودی کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ وہ دہشت گردی کے سخت خلاف ہیں اور پوری دنیا اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے ۔یہ سب کو پتہ ہے کہ دہشت گردوںکے خلاف پاکستانی فوج نے ان دنوں مکمل جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔ دہشت گردوں کے خلاف اتنا بڑا مشن آج تک دنیا کے کسی ملک میں نہیں چھیڑا گیا ۔وزیرستان کے لاکھوں لوگوں کواپنے گھر خالی کر کے نقل مکانی کرنا پڑی ہے، کروڑوں روپیہ روزانہ خرچ ہو رہے ہیں ‘درجنوں لوگ مارے جا رہے ہیں اور دہشت گرد اپنی جان بچانے کے لیے پڑوسی ملکوں میں گھس کر چھپ رہے ہیں۔ دہشت گرد ی کے خلاف اس جنگ کی میں نے اپنے پاکستان میںقیام کے دنوں میںمکمل حمایت کی تھی لیکن یہ بات بھی زوردے کر کہی تھی کہ پاکستانی فوج کو بھارت مخالف دہشت گردوں کابھی صفایا کرنا چاہیے۔یہی بات وزیر اعظم نریندر مودی نے اب کہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں مودی نے پاکستانی فوج کو للکار نہیں دی ہے بلکہ اس کو اس کا فرض یاد دلایا ہے۔
اگر پاکستان کی فوج اور لیڈر مودی کے بیان کو اس نظریے سے دیکھیں گے تو دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات آسان بنانے
میں مدد ملے گی، ورنہ اس بیان کولے کر سار امعاملہ ہی گڑبڑا سکتا ہے۔پچھلے دو ڈھائی مہینوں میں دونوں ملکوں کے بیچ جو اچھے تعلقات کا ماحول تیا رہوا ہے‘اسے چوپٹ ہوتے دیر نہیں لگے گی ۔یوں بھی پاکستان کی نواز سرکار اور فوج خاصے مسائل کا شکار ہیں۔دہشت گردوں کے خلاف زبردست آپریشن تو چل ہی رہا ہے ‘عمران خان اور طاہر القادری کے چودہ اگست کے مظاہرے نے بھی سرکار کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ یہ سبھی عناصر مودی کے بیان کو توڑ مروڑ دیں تو مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوگی۔دونوں خارجہ سیکرٹریوںکی ملاقات اور ستمبر میں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات بھی کھٹائی میں پڑ سکتی ہے۔حالات انتہائی نازک ہیں ۔ دونوں اطراف سے صبر و تحمل کی ضرورت ہے۔ 
آم کھانے والی پارٹی
عام آدمی پارٹی کا کیا حال ہے۔ایک طرف وہ دلی میں چنائو کروانے کے لیے اتائولی ہو رہی ہے اور دوسری طرف اس کے ستون ہی بکھرتے چلے جا رہے ہیں ۔اس پارٹی کی ولادت کو ابھی مشکل سے سال بھر ہی ہوا ہے لیکن اس نے کتنی بدمزگی پیدا کی ہے۔آجکل سب سے زیادہ چرچا اس کی بنیاد رکھنے والے سب سے سینئر ممبرکے بیان کی ہے ۔یہ بیان مشہوروکیل شانتی بھوشن کا ہے۔شانتی بھوشن جی کا کہنا ہے کہ 'عاپ‘ کے رہنما اروند کیجریوال لیڈر تو بن گئے لیکن ان میں اتحاد کی لیاقت نہیں ہے، وہ پارٹی چلانے میں اپنے ساتھیوں سے صلاح مشورہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔
اگر شانتی بھوشن نے اپنے بیان کے حوالے سے حالات کا بغور جائزہ لیا ہوتا تو اس نتیجے پر وہ اسی دن پہنچ سکتے تھے‘جس دن یہ پارٹی بنی تھی۔کیا یہ پارٹی کسی اتحاد کے مہارت کے سبب بنی تھی؟اگر مہارت تھی تو کس کی مہارت تھی؟ کسی کی بھی نہیں!واضح ہے کہ اس پارٹی میں اتحاد نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں ۔یہ تو اچانک پیدا ہوئی ایک لہر کانتیجہ تھی۔اس لہر کو جس کے نام سے اچھال ملا تھا‘وہ انا ہزارے کہاں غائب ہو گئے‘ان کا کسی کو پتہ ہی نہیں ہے ؟انا ہزارے کی دھوتی اروند کیجریوال لے اڑا اور اس نے اس لہر کو پارٹی کا نام دے دیا۔اس کی سوجھ بوجھ اور ہمت نے جلوہ بھی پیدا کیا۔دلی جیسے صوبہ کے انتخابات میں 'عاپ‘دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری۔بس پھر کیا تھا؟اس پارٹی نے اس لہر کو اپنی کار بنا لیا اور اسے طیارے کی رفتار سے دوڑانے لگی لیکن لہر تو لہر تھی۔وہ اترنے لگی۔وزیر اعلیٰ کا عہدہ جوکر کا عہدہ ثابت ہوا۔پھر بھی نئے نئے لیڈر بنے بابو ڈٹے رہے ۔ان کا حوصلہ اتنا بڑھ گیا کہ بنارس میںامیدوار برائے وزیر اعظم کی ٹکر میں کھڑے ہو گئے۔فطری تھا۔وزیر اعلیٰ تو ہو ہی چکے تھے ،اب تو بس وزیر اعظم ہی بننا باقی رہ گیا تھا لیکن لوک سبھا چنائو نے کیسی بری حالت کی ؟سچائی تو یہ ہے کہ چار سو میں سے ایک بھی امیدوار نہیں جیتا۔پنجاب میں جو جیتے‘وہ اپنے دم سے جیتے۔
عام آدمی پارٹی کا جنم ایک نئے آفتاب کی طرح ہوا تھا لیکن جیسے انا تحریک پھُس ہو گئی‘ویسے ہی یہ پارٹی بھی ایک آم پارٹی بن گئی ہے ۔ آم کھانے والی پارٹی !اقتدار کا آم کھانے کے لیے یہ پارٹی ایسی بیتاب ہوئی کہ محض چھ مہینے بھی نہیں رک سکی ۔اسی بدعنوان پارٹی کے کندھے پر چڑھ کراس نے سرکار بنالی‘جس کو برباد کرنے کی اس نے قسم کھائی تھی۔اس نے اس سیڑھی کو بھی ٹھوکر مار دی‘جس کے سہارے وہ یہاں تک پہنچی تھی۔وہ سیڑھی تھی ۔تحریک کی سیڑھی۔اب ملک کے بنیادی مسائل پر تحریک کرنے کے بجائے وہ راحت کی سیاست میں مشغول ہو گئی ہے ۔ ایسی سیاست‘جو ووٹ کباڑنے میں مدد کرے۔اسے ہم بھارتی جمہوریت کی بد نصیبی کہیں گے۔ ہماری تمام سیاسی پارٹیوں کا چہرا ایک سا ہو گیا ہے ‘چاہے ان کے دکھاوے الگ الگ کیوں نہ ہو ں۔بھارتی سیاست کی ہلچل ایک جیسی ہو گئی ہے ‘ جاندار نہیں رہی۔جہاں کہیں جانداری نہیں ہوتی‘وہاں جدوجہد نہیں رہتی‘وہاں چیزیں بدبوچھوڑنے لگتی ہیں‘سڑنے لگتی ہیں‘گلنے لگتی ہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں