"DVP" (space) message & send to 7575

مودی سرکار کے سو دن

نئی سرکار کے پہلے سودن پر بات کرنی ہے تو پہلا سوال یہی ہے کہ اسے نام کیا دیں ؟کیا اسے ہم بی جے پی سرکار کہیں یا نریندر مودی سرکار؟ کوئی بھی اسے بی جے پی سرکار نہیں کہہ رہا تو ہم کیا کہیں؟ سبھی مودی سرکار کہہ رہے ہیں ۔ اس میں غلط کیا ہے ؟انتخابات کے دوران یہ واضح ہو گیا تھاکہ نریندر مودی دولہا ہے اور بی جے پی بارات۔بی جے پی کے جلسوں میں کئی سینئر لیڈر وں کو سننے کے بجائے عوام مودی مودی شور مچانے لگ جاتے تھے۔ مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی عوام کے اس رجحان پرمہر لگ گئی۔یہی خصوصیتیں پچھلے سو دنوں میں اس سرکار کی سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہیں ۔جو کیفیت کبھی کبھی جواہر لعل نہرویا اندرا گاندھی کی ہوتی تھی‘ وہی مودی کی ابھی سے بن گئی ہے ۔نہرو کو پچیس تیس سال لمبی جدوجہد کرنے اور اندرا جی کو اپنی درگاصورت اختیار کرنے کے بعدیہ کیفیت حاصل ہوئی تھی لیکن مودی خوش قسمت ہیں۔ انہیں یہ تاج بیٹھے بٹھائے مل گیا۔ بنا کچھ کیے وہ بی جے پی کے خود مختار لیڈر بن گئے ۔جن سے کچھ ڈر ہو سکتا تھا‘ان تینوں کو مودی نے طاق پر بٹھا دیا ہے ۔اس طاق کا نام ہے‘ راستہ دکھانے والی جماعت!اس بنڈل سے منڈل کو بھی مودی نے اکیلا نہیں چھوڑا۔ اس میں خود اور راج ناتھ سنگھ کوبھی بٹھا لیا ہے تاکہ وہ بوڑھے کھوسٹ لوگ کچھ تاک جھانک نہ کر سکیں۔ سو دن میں مودی کا یہ کام‘ کچھ پرانے وزرائے اعظم کے ہزاروں دنوں کے کام کے برابر ہے۔کیا اسے آپ قابل تعریف دانشمندی نہیں کہیں گے ؟
یہ قابل فہم تو ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ سرکار‘ جہاں بھی گچا (مات) کھائے گی ‘چاہے وہ جس کی وجہ سے کھائے‘ ساری مار مودی پر پڑے گی ۔کیونکہ ملک میں یہ بات پھیل رہی ہے 
کہ اس سرکار میں مودی کی مرضی بنا کوئی پتا بھی نہیں ہل سکتا ۔وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے خلاف جس طرح افواہوں کا بازار گرم ہوا اور جس طرح بنا دانت اور ناخن ٹکڑے کیا گیا‘اس نے مودی کو ارنڈ کی جھاڑیوں کے بیچ برگد کے پیڑ کی طرح کھڑا کر دیا۔اسی طرح کی افواہیں دیگر وزرا ء کے بارے میں چلتی رہیں ۔انہوں نے مودی کو ہیڈ ماسٹر اور ان کے ساتھیوں کو سکولی بچوں میں تبدیل کر دیا ۔ہم نے وزیراعظم کا عہدہ برطانیہ سے ادھار لیا۔وہاں وزیر اعظم کو 'برابری والوں میں اول‘ کہا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں وہ اپنی برابری والوں کی اتنی کانٹ چھانٹ کر دیتا ہے کہ وہ سب کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ وزیراعظم کا یہ بااختیار انداز حکمرانی اپنے آپ امریکہ کی طرح صدارتی طرز حکومت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس دستور کے کچھ فائدے ہیں تو خطرے بھی ہیں ۔بڑے بڑے فیصلے فوراً ہو جاتے ہیں لیکن یہی وہ طریقہ ہے ‘جو ایمرجنسی کے وقت بڑی حد تک خودسر بنا دیتا ہے۔ لیڈر چاروں اور سے چاپلوسوں اور خوشامدیوں میں گھر جاتا ہے ‘صحافی اور دانشور اپنے آپ کو نقال میں ڈھال لیتے ہیں‘ لوک سبھا گونگی اور بہری ہو جاتی ہے۔ جمہوریت پسند پارٹی فوراً ہی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی میں بدل جاتی ہے ۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بی جے پی کی اس برائی یا خامی سے کیسے بنی رہے گی۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ امیت شاہ کو اس کا صدر بنا دیا گیا۔میں اورمیرا باس ‘سب کو کھلائے گھاس!بی جے پی کوجمہوری بنائے رکھنے کی ایک ہی امید ہے۔وہ ہے‘آر ایس ایس۔ لیکن سنگھ کو بھی یہ پتہ نہیںہے کہ مودی سرکار میں اس کی کتنی چلے گی ۔اگر وہ زیادہ زور لگائے گی تو اسے اس کا اندازہ تو ہو چکا ہے کہ اس کا چُورا ہونے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔اسے بھی راستہ دکھانے والی جماعت میں بٹھا دیا جائے گا ۔
پارلیمانی چنائو میں بی جے پی کو ملی واضح اکثریت نے کچھ غلط فہمیاں بھی پیدا کر دی ہیں ۔اب وہ شو سینا جیسی اتحادی پارٹیوں کو بھی آنکھیں دکھانے لگی ہے۔ہریانہ جن ہت کانگریس نے تو ابھی سے اپنا اتحاد توڑ لیا ہے۔ وہ اس فضا میں بھی جا رہی ہے کہ ملک میں مودی کی لہر ہے۔یہ لہر کتنی تازہ ہے اس کا پتا پہلے اتراکھنڈ کے چھوٹے چنائو میں اور پھربہار ‘ کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں چلا۔ دراصل بی جے پی سمجھ نہیں پائی کہ یہ لہر نہ مودی کی تھی اور نہ ہی بی جے پی کی!یہ لہر تھی سونیا من موہن کی مخالفت کی۔ ان کی بد عنوانی کی۔ ان کی چپی (نااہلی) کی ۔اگر سونیا من موہن کی جوڑی مہربانی نہ کرتی تو لاکھ کوشش کے باوجود مودی کی یہ لاٹری نہ نکل پاتی۔اب وہ لہر غائب ہو چکی ہے ۔اب آپ کو اپنے دم پر کھڑا ہونا ہوگا۔کوری (خالی) تقاریر سے کام نہیں چلے گا ۔کچھ کر کے دکھانا ہوگا ۔مودی چاہیں تو لاجواب وزیر اعظم بن کر دکھا سکتے ہیں ۔انہیں ملکی پالیسیوں اور بیرونی معاملات کا تجربہ نہیں ہے لیکن نہرو ‘مرار جی‘ نرسمہارائو اور اٹل جی کے علاوہ کس وزیر اعظم کو یہ تجربے رہے ہیں ؟سب لوگ سیکھتے سیکھتے ہی سیکھتے ہیں ۔مودی نے اپنی حلف برداری تقریب میں پڑوسی ملکوں کے حکمرانوں کو بلا کر تاریخی کام کیا ۔نیپال اور بھوٹان جاکر مودی نے پڑوسی ملکوں سے نیک خواہشات کا اظہار کرکے اچھا پیغام دیا۔ ان کی نہایت ہی قابل وزیر خارجہ سشما سوراج نے نیپال ‘بنگلادیش‘برما وغیرہ جاکر پڑوسی پالیسی کے خلاف طاقت پیدا کی۔برازیل کے برکس اجتماع میں بھی مودی نے بھارت کے جھنڈے گاڑے اورتجارتی اجتماع میں وزیر تجارت نرملا سیتو رامن بھارتی کسانوں کی مدد کیلئے اڑی رہیں ۔اب جاپان جاکر مودی نے ایشیا میں نئی سیاست کا آغاز کر دیا ہے ۔پاکستان کے ساتھ تعلقات سدھارنے کے معاملے میں مودی سرکار تھوڑا لڑ کھڑا گئی تھی۔ پاکستانی ہائی کمشنر کی حریت رہنمائوں سے ملاقات کے بہانے خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت کو رد کر دیا تھا لیکن اب ایک جاپانی صحافی سے کی گئی ملاقات میںمودی نے واضح کیا ہے کہ انہیں پاکستان سے بات کرنے میں کوئی جھجک نہیں۔امید ہے ‘ستمبر میں اوباما کے ساتھ ساتھ نواز شریف سے بھی ملیں گے ۔
بھارت کے اندرونی معاملات میں مودی سرکار نے پچھلے سو دنوں میں کئی پہل کی ہیں‘جو ابھی بیج کی شکل میں ہیں لیکن انہیں بڑا درخت بنتے دیر نہیں لگے گی ۔وزیر اعظم کی جن دھن یوجنا(عوام کے ملکیت کی سکیم) کے تحت ملک کے کروڑوں لوگوں کو بینکوں کی خدمت کا فائدہ پہنچے گا‘ نقد تقسیم ہونے والے سرکاری پیسے کی لوٹ پر روک لگے گی۔ اگر ملک کے ساٹھ ستر کروڑ لوگ بینکوں کے ذریعے لین دین کرنے لگیں تو کالے دھن پر بھی کچھ حد تک قابو پایا جا سکے گا۔اقتصادی معاملات میں یہ سرکار کسی الجھن میںپھنس کر نہیں چلنا چاہتی ۔مودی سرکار ذاتی ملکیت‘تجارت اور روزگار کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ عوامی مفاد کی سکیموں کو بھی ترک نہیں کرے گی۔ سرکار سکیم کمیشن کی جگہ ایسا اقتصادی انتظام کمیشن لائے گی ‘جو ملک کے اقتصادی مسائل کوحل کرنے میں ٹھوس مدد کرے گا۔ ابھی تک یہ سرکار مہنگائی اوربے روزگاری پر قابو نہیں پا سکی‘ لیکن اس کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ یہ اچھی خبر ہے کہ ترقی کی شرح بڑھی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سرکار مستعد ہوئی ہے‘ لیکن سرکاری کام کاج میں رشوت کا چلن کم نہیں ہوا۔ نئے شہر کھڑے کرنے ‘ریل کی نئی پٹری ڈالنے‘ لوگوں کو مکان دینے‘صاف بیت الخلا بنانے کی سکیمیں بہت اچھی ہیں لیکن دیکھیں یہ کتنی جلدی اور کیسے نمایاں ہوتی ہیں۔ تعلیم اور صحت کے معاملے میں ابھی کئی اعلان ہونا باقی ہیں۔ بھارتی زبانوں کامعاملہ بیچ میں لٹکا دکھائی پڑ رہا ہے ۔لیڈروں پر نوکر شاہی حاوی ہو گئی ہے ۔یونین پبلک سروس کمیشن میں 'سی سیٹ‘ کا پیپرجوں کا تیوں آیا ہے ۔اگر نوکر شاہی اسی طرح حاوی ہوتی گئی تو سال بھر میں ہی لیڈروں کا پول کھلنے لگے گا اور مودی کے غبارے کو پنکچر ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں