"DVP" (space) message & send to 7575

لوہیا کے خوابوں کا بھارت

سماج وادی پارٹی کا یہ ملکی اجلاس اہم ہے‘کیونکہ پچھلے ضمنی انتخابات میں ملی فتح نے اس کے حوصلے بلند کر دیے ہیں ۔اب وہ صرف اتر پردیش میں ہی نہیں ‘پورے بھارت میں اپنی طے شدہ پالیسی کاکر دار نبھانا چاہتے ہیں ۔دوسری طرف ملائم سنگھ یادو اس وقت ملک کے سب سے تجربہ کار اور قدآور لیڈر ہیں ۔وہ اپنے لئے کوئی بڑا خواب دیکھیں توکوئی تعجب نہیں ہے ، لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ جوڑ توڑ کر کے وہ وزیر اعظم بن گئے تو بھی کیا ہوگا؟ملک میں درجن بھر سے زیادہ وزرائے اعظم ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے کیا کیا ؟ وہ انتظامیہ کو بدلتے ‘اس کے بجائے انتظامیہ نے انہیں بدل دیا۔انتظامیہ ان کو کچا چبا گئی ۔وہ کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لا سکے ۔مرزا غالب کے لفظوں میں 'بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچہ سے ہم نکلے‘ ۔ 
من موہن سنگھ ہوں یا ملائم سنگھ ہوںیا نریندر مودی ‘سبھی کا یہی حال کیوں ہوتا ہے ‘کیونکہ یہ جن پارٹیوں کے کندھوں پر سوار ہو کراپنی سرکار بناتے ہیں ‘وہ پارٹیاں کہاں رہ پاتی ہیں ؟وہ تو چناوی مشینیں بن گئی ہیں ۔ان کے پاس دو ہی کام رہ گئے ہیں ۔ووٹ اور نوٹ کباڑیں۔ووٹ سے نوٹ اورنوٹ سے ووٹ کباڑیں ۔ باقی ہندوپن‘ سوشلزم‘ مساوات‘ جمہوریت وغیرہ تو بس نعرے ہی بن کر رہ جاتے ہیں ۔ نوٹ اورووٹ ہی اصلی چہرہ ہے ۔منشور تو خالی دکھاوا ہے۔اس معنی میں ہماری پارٹیاں سب ایک جیسی ہیں ۔ بھارت کی سیاست بے جان ہو گئی ہے۔کیا ملائم سنگھ یادو اپنے اس ملکی اجلاس میںاس بے جان سیاست کو توڑ دیں گے؟اس سال وہ پچھتّرکے ہو رہے ہیں ۔وہ پچھلے ساٹھ سال سے بھی زیادہ وقت سے سماج وادی پارٹی میں جڑے ہیں لیکن کیا ڈاکٹر رام منوہر لوہیاکی طرح اب وہ کوئی ذات توڑو اجلاس‘انگریزی ہٹاؤ پروگرام‘رامائن جلسہ‘بھارت پاک ایکا‘ خواتین اور مرد برابر وغیرہ جیسے پروگرام کرتے ہیں ؟ڈاکٹر لوہیاان پروگراموں میں اپنی پارٹی کے باہر کے لوگوں کو بھی جوڑتے تھے۔اب جنیشور مشر‘برج بھوشن تیواری اور من موہن سنگھ جیسے ریاضت کرنے والے بہادر بھی نہیں رہے ۔یہ لوہیا کے لوگ تھے۔اب جو لوگ رہ گئے ہیں ‘وہ ملائم سنگھ کے ہیں۔یہ لوگ کیا سونیا یا مودی یا ممتابنرجی یا مایا وتی کے لوگوں سے الگ ہیں ؟کیا یہ لوگ لوہیا کے خوابوں کا بھارت بنانے کیلئے پابند ہیں ؟ملائم چاہیں تو اپنی زندگی کے اس چوتھے دور کی شروعات میں ایسی سیاست کھڑی کر سکتے ہیں ‘جو بھارت کے سو کروڑ لوگوں کو غریبی سے ابھار سکتی ہے اور بھارت ہی نہیں صرف بھارت اور پاک ہی نہیں ‘مکمل جنوبی ایشیا میں خوشحالی ‘ تحفظ ‘برابری اور بھائی چارے کا ماحول بنا سکتی ہے ۔ 
جیٹھ ملانی کو غصہ کیوں آیا؟
سینئر وکیل جیٹھ ملانی کو غصہ کیوں آیا؟اس لیے ناں کہ سپریم کورٹ کے سامنے بھارت سرکار نے گھٹنے ٹیک دیے۔سرکاری ترجمان نے کہہ دیا کہ سرکار ان لوگوں کے نام عیاں نہیں کر سکتی ‘ جنہوں نے بیرونی بینکوں میں اپنی بلیک منی چھپا رکھی ہے ۔ 
یہی بات تو من موہن سنگھ سرکار کہہ دیا کرتی تھی ۔اسی رویہ پر بی جے پی غصہ ہو جاتی تھی اور کہتی تھی کہ ہم سرکار بنائیں گے تو100 دن میں بلیک منی واپس لائیں گے ۔بلیک منی واپس لانا تو دور رہا ‘ اب سو کیا ‘150 دن ہو گئے ‘بلیک منی والوں کے نام بتانے میں بھی سرکار ہچکچا رہی ہے ۔اس پر جیٹھ ملانی کا کہنا ہے کہ جو کام مجرموں کو اپنے بچاؤ کیلئے کرنا ہوتا ہے ‘وہ کام یہ سرکار کر رہی ہے ۔جیٹھ ملانی بڑے منجھے ہوئے وکیل ہیں‘اس سرکار کے کٹر حمایتی رہے ہیں‘وہ جذباتی بھی ہیں۔ان کا غصہ فطرتی ہے، لیکن سرکار کی مجبوریاں بھی ہیں۔بیرونی سرکاروں کے ساتھ اس کے ایسے سمجھوتے ہیں ‘جن کے مطابق وہ ان کے بینکوں کے کھاتیداری بھارتی شہریت کے نام ظاہر نہیں کر سکتی ۔ان ناموں کو ظا ہر کرنے سے ان ممالک کے ساتھ سیاسی رشتے بگڑنے کا خدشہ ہے ۔بین الاقوامی بات خراب ہو سکتی ہے ۔
یہ مثا ل اپنی جگہ ہے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے آج ہی یہ دعویٰ کیسے کر دیا کہ سوئٹزرلینڈ نے ان چھ سو ناموں کو عیاں کرنے کی بات مان لی ہے ‘جن کے کھاتے ان کے ملک میں ہیں ۔جس طرح سوئس سرکار پر دباؤ ڈالا گیا‘اسی طرح دیگر سرکاروں پر بھی دباؤ ڈالنے کا وعدہ کیوں نہیں کیا گیا۔
یہ سرکاریں امریکی باشندوں کے کھاتوں کی جانکاری امریکی سرکار کو دیتی ہیں یا نہیں ؟اس کے علاوہ رام جیٹھ ملانی نے سبھی کھاتیداروں کے نام عیاں کرنے کیلئے نہیں کہاہے۔انہوں نے صرف ان کے نام کی ڈیمانڈ کی ہے‘جن کے خلاف تفتیش چل رہی ہے ۔سرکار پہلے یہ بتائے کہ کیا اس کے پا س سارے ناموں کی فہرست ہے ؟اگر ہے تو ایسے ناموں کو چھپا کر ‘جومجرموں کی چال کے ہیں ‘سرکار فضول ہی بدنامی مول کیوں لے رہی ہے ؟اپنا مذاق کیوں بنوا رہی ہے ؟سرکار نے پہلے دن ہی غیر ممالک میں جمع بلیک منی پرجانچ بٹھا کر تعریف کے لائق کام کیا تھا۔ اب اسے چاہیے کہ اس کام کو بڑی دلیری کے ساتھ آ گے بڑھائے۔جیٹھ ملانی اور جیٹلی کو اسے ذاتی شہ اور مات کا کھیل نہیں بننے دینا چاہیے ۔جیٹھ ملانی کا غصہ جائز ہے لیکن ان کو اس نئی سرکار کو تھوڑا موقع اور دینا چاہیے۔
مودی اور افغانستان
وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر اوباما کو اچانک آگاہ کیا کہ آپ جلد بازی میںافغانستان مت چھوڑ دینا۔مودی کی یہ بات سن کروہاں بیٹھے کئی امریکی لیڈر اور افسر حیرانی میں پڑ گئے ہوں گے۔کئی بھارتی افسر بھی حیران ہوئے ہوں گے۔ان کو لگا ہو گا کہ مودی نے اتنی پتے کی بات اوباما سے سب کے سامنے کیسے کہہ دی؟انہیں ابھی وزیر اعظم بنے چار مہینے ہی ہوئے ہیں اور ان میں اتنی خود اعتمادی اور دور اندیشی کہاں سے آ گئی۔نہ تو مودی دلی میں کبھی وزیر رہے ‘نہ ہی انہیں وزارت خارجہ میں کام کر نے کاموقع ملا اور نہ ہی وہ غیر ملکی معاملات کے جانکار رہے ہیں ۔پھر بھی اوباماکو انہوں نے ایسی بات کہہ دی ‘ جو اوباما ہی نہیں ‘آگے آ نے والے دیگر امریکی صدروں کے لئے بھی ایک انمول مشورہ ہے۔
اگر امریکہ افغانستان خالی کر دیتا تو اس خلا کو کون بھرتا؟کوئی بھی ملک وہاں اپنی ٹانگ پھنسانے کو تیا ر نہیں ہوتا۔افغانستان ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ۔جس کا جہاں بس چلتا‘وہاں وہ قبضہ کر لیتا۔کہیں طالبان‘کہیں گلزئی پٹھان‘کہیں محمد زئی پٹھان ‘کہیں تاجک‘کہیں ہزارہ‘کہیں ازبک اور پتہ نہیں کن چھوٹے موٹے قبیلوں میں افغانستان تقسیم ہو جاتا،لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ نئے افغانی صدراشرف غنی نے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ جنگی سمجھوتہ کر لیا۔اب کم از کم بارہ ہزار پانچ سو نیٹو فوجی2014 ء کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہیں گے۔
لیکن افغا نستان کی حفاظت کیلئے یہ بالکل ناکافی ہے۔اکیلے کابل شہر کے لئے بھی اتنے جوان کم پڑیں گے۔مودی کو چاہئے کہ وہ کچھ وقت نکالیں ‘گہرائی میں اتریں اور افغانستان کی حفاظت میں اہم کردارنبھانے کی مانگ کریں ۔بھارت نے دو ارب ڈالر سے زیادہ وہاں خرچ کر دیے ہیں ۔ان کا ایوان‘سڑکیں ‘ ہسپتال ‘سکول ‘بجلی گھر وغیرہ بنائے ہیں لیکن پانچ لاکھ جوانوں کی فوج کے بنا یہ سب غیر محفوظ ہیں ۔عام افغان عوام میں بھارت کی عزت سب سے زیادہ ہے ۔افغان فوج کو تربیت دینے کاذمہ بھارت لے سکتا ہے ۔امریکہ اس کا خرچ اٹھا سکتا ہے ۔اس کام میں پاکستان کو بھی ساتھ لیا جا سکتا ہے ۔ پاکستان کو مکمل بھروسہ دلایا جانا چاہیے کہ بھارت اس کے مفاد کو کہیں بھی چوٹ نہیں پہنچا ئے گا۔اسے مکمل جنوبی ایشیامیں امن اور خوشحالی کے لیے کوشش کرنی چاہیے ۔اس لیے وہ افغانستان کو اپنے حال پر نہیں چھوڑ سکتا ۔اگر افغانستان پٹڑی سے اتر گیا تو اسے دنیا میں دہشت گردی کا اڈہ بنتے دیر نہیں لگے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں