"DVP" (space) message & send to 7575

صدر نے سرکار کی کھچائی کر دی

بیرونی ممالک میں تعینات بھارت کے سفیروں اور افسروں سے خطاب کرتے ہوئے صدر پرناب مکھرجی نے پتے کی بات کہہ ڈالی۔ پرناب جی خود وزیر خارجہ رہ چکے ہیں‘ اس لیے وہ اپنے پیشرو صدور کے برعکس ،خارجی معاملات کے اچھے جانکار ہیں۔ سیاسی زبان کا استعمال کیسے کرنا ہے ‘ یہ اس چیز سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ انہوں نے سیاسی ماہروں سے خطاب کرتے وقت اپنی سیاسی چالوںکی قابلیت کے ساتھ ساتھ صدارتی عہدہ کے فرائض کو بھی بخوبی انجام دیا۔ نریندر مودی کی کابینہ کے وزرا میں سے کسی بھی وزیرکی آج اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ وزیر اعظم کی کارگزاری پر انگلی اٹھا سکے ، لیکن پہلے پرناب جی نے مودی سرکار کے ذریعے کیے گئے کاموں کی شروعات کا ذکرکیا، سارک ملکوں کے سربراہوں کو نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں بلانے کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے چینی اور امریکی صدورکے دوروں کی بھی تعریف کی۔ انہوں نے ہمارے سفیروںکے ذریعے مشکلات میں پھنسے ہوئے بھارتیوںکو نکال لانے کو بھی سراہا۔ دنیا میں پھیلے ہوئے بھارتیوں سے روابط استوارکرنے کی کوششوں کی بھی صدر نے تعریف کی۔ انہوں نے مودی سرکارکی اس پالیسی کو بھی حسبِ حال بتایاکہ پڑوسی ملکوں سے صاف صاف پوچھاگیا ہے کہ وہ تنازع میں رہنا چاہتے ہیں یا جنوبی ایشیا میں سدا کے لیے امن چاہتے ہیں۔
لیکن اتنی میٹھی میٹھی باتیں کہنے کے بعد صدر نے اپنی سرکارکی خارجہ پالیسی کو آڑے ہاتھوں لینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ انہوں نے سرکارکی اچھی خاصی کھچائی کر دی۔ پہلی بات توانہوں نے یہ کہی کہ نیپال‘ بھوٹان اور مالدیپ سے جو وعدے ہم نے کیے ہیں‘ انہیں ہم پورے کریں اور بنگلہ دیش کے ساتھ سرحدی سمجھوتہ ابھی تک کیوں نہیں ہوا؟ وہ پارلیمنٹ کی نذرکیوں ہو گیا؟اس سے بھی بڑی چوٹ انہوں نے مودی سرکارکے راز پرکر دی۔ انہوں نے پوچھاکہ آپ نے پڑوسیوں سے تعلقات سدھارنے کے لیے جوزبردست پہل کی تھی‘ اس کا کیا ہوا؟ ابھی تک کوئی ٹھوس قدم کیوں نہیں اٹھائے گئے؟ صدرکی باتوں کو سوال کی شکل میں نے دی ہے، انہوں نے تو یہ باتیں ایک بزرگ کی صلاح کی صورت میں کیں۔ پاکستان سے بات چیت کا سلسلہ معطل ہونے کو سب سے پہلے میں نے اٹھایا تھا اور میں نے ہی کہا تھا کہ حریت کے بہانے خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات کو منسوخ کرنا مناسب نہیں ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم ‘ وزیر خارجہ اور خارجہ
سیکرٹری تینوں سے میری لمبی بات چیت اسلام آباد میں ہوئی تھی، تینوں بہت پر جوش تھے۔ وہ تو چاہتے تھے کہ اکتوبر 2014 ء میں ہی مودی پاکستان کا دورہ کریں ، لیکن معلوم نہیں نوکر شاہی کے کس مہرے نے مودی کی گاڑی کو پٹڑی سے اتار دیا۔ اب شاید وہ پھر پٹڑی پر آ جائے۔
جوتی پہنے ہیں پگڑی کی طرحa
مراٹھی کے مشہور مصنف بھال چندر نموڑے کا ایک انٹرویو آج ٹائمز آف انڈیا میں چھپا ہے ۔ کیوں چھپا ہے ؟ اس لیے کہ انہیں گیان پیٹھ اعزاز سے نوازا گیا ہے۔گیان پیٹھ اور ٹائمز آف انڈیا کے مالک ایک ہی ہیں ‘ ورنہ ایسا انٹرویوکسی انگریزی اخبارمیں چھپنا ممکن نہ تھا ۔ نموڑے نے انگریزی بھارت کے بارے میں جو دوٹوک بات کہی ‘ وہ بات آج تک کسی گیان پیٹھ
اعزاز جیتنے والے نے نہیں کہی ۔کئی گیان پیٹھ اعزاز سے نوازے جانے والے میرے ذاتی دوست رہے ہیں اور انہوں نے بھارت میں انگریزی زبان کے زور پکڑنے کے خلاف کچھ نہ کچھ کہا ہے، لیکن نموڑے جی نے توکمال ہی کر دیا۔ وہ لفظوں کے جادوگر ہیں ‘ یہ ان کے اس انٹر ویو نے ثابت کر دیا ہے۔
نموڑے جی نے انگریزی کو ' قاتل زبان‘کہا ہے۔ اسے تعلیمی میدان سے بالکل نکال باہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سکولوں میں انگریزی لازمی کرنے کے بجائے انگریزی کی تدریس ختم کر دینی چاہیے۔ پہلی سے مڈل کلاس تک مادری زبان میں ہی تعلیم دی جانی چاہیے۔ مادری زبانوں کی حمایت اور مخالفت کسی ایک رَو میں بہہ کرنہیں بلکہ خالص سائنسی بنیاد پر ہونا چاہیے ۔ نموڑے جی نے ان خیالات کا اظہار خود انگریزی کے پروفیسر رہتے ہوئے کیا۔ وہ لندن کے 'سکول آف اوریئنٹل اینڈ افریکن سٹڈیز‘ میں پروفیسر رہے ہیں۔
انہوں نے انگریزی کے تباہ کن کردار پر بھی روشنی ڈالی ۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے ایک سو پچاس سال میں انگریزی ' ڈائن ‘ امریکہ کی لگ بھگ ڈیڑھ سو اور آسٹریلیاکی تین سو زبانوں اور بولیوں کو ڈکار گئی ہے ۔ خود برطانیہ کی پانچ زبانوں کو بھی انگریزی نے اپنی خوراک بنا لیا ہے۔ اس کے جبڑے سے صرف ' آئرش ‘ زبان ہی بچ سکی ہے۔ انہوں نے یونیسکوکی رپورٹوںکا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیاکہ اگر بھارت میں تعلیم کا پھیلاؤسچ مچ کرنا ہے تو یہ صرف مادری زبانوں میں دی جانی چاہیے۔
وہ انگریزی زبان یا ادب سے نفرت نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ جسے سیکھنا ہے‘ وہ انگریزی سیکھے، لیکن اس زبان میں تعلیم کیوں دی جائے؟اسے ہمیں جوتی کی طرح استعمال کرنا چاہیے، اسے گھر سے باہر رکھنا چاہیے، جب باہر جائیں توپہن لیں ۔ نموڑے جی کی بات کو میں تھوڑا آگے بڑھاتا ہوں ۔ ہم بھارتی لوگوں نے اس جوتی کو اپنی پگڑی بنا رکھا ہے حالانکہ اس کی جگہ ہمارے پاؤں میں ہونی چاہیے‘ ہمیں اس کو سر پر نہیں سجانا چاہیے ۔ ہمارے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا۔ ہمارے ارکان پارلیمنٹ اور جج صاحبان بھی بالکل شرم محسوس نہیں کرتے۔ ملک میں کوئی دیانند سرسوتی ‘گاندھی اور لوہیا نہیں ہے جو ان اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے کان کھینچے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں