"DVP" (space) message & send to 7575

عاپ سے ملک کیا امید کرے؟

دلی میں عام آدمی پارٹی کی جیت اروند کجری وال کا دماغ ویسے ہی پھلا سکتی ہے‘جیساکہ 1984 ء میں راجیو گاندھی کا پھول گیا تھا اور آٹھ ماہ پہلے نریندر مودی کا۔راجیو گاندھی ‘ نریندر مودی اوراروند کجری وال کو ہم لیڈرنہ کہیں ‘یہ تو خالص زیادتی ہی ہوگی لیکن آج کے دن یہ سوچناضروری ہے کہ تینوں میں کیا یکسانیت ہے اور کہیں اروند بھی اسی طرح نیچے تو نہیں کھسکنے لگے‘جیسے راجیو کھسکے تھے اور مودی کا کھسکنا شروع ہو گیا ہے۔ راجیو کوکھسکنے میں ڈھائی سال لگے ۔گلی گلی شور مچنے لگا ہے کہ مودی کو نو ماہ بھی نہیں لگے ۔دلی نے صاف صفائی مشن شروع کر دیا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ کجری وال کو دو ماہ بھی نہ لگیں اور پھسلن شروع ہو جائے ؟امید کریں کہ ایسا نہ ہو۔
ایسا کیوں ہو سکتا ہے ؟ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب جاننے کیلئے ہمیں تھوڑا پیچھے جانا پڑے گا۔ 1984 ء میں راجیو گاندھی وزیر اعظم کیسے بنے؟ انہیں اپنی والدہ اندرا گاندھی اور نانا نہرو سے بھی زیادہ نشستیں کیسے ملیں؟ کیا اس لئے ملیں کہ وہ عظیم لیڈر تھے؟نہیں ‘410 نشستیں راجیو کو نہیں ‘بھارت کے عوام نے آنجہانی اندرا گاندھی کو دی تھیں‘ لیکن ہمارے کانگریسی لیڈروں نے بیچارے ‘بھولے بھالے‘ سیدھے سادھے پائلٹ بیٹے پر بڑائی تھوپ دی۔ انہیں اس زعم میں مبتلا کردیا کہ وہ بڑا لیڈر ہے‘ انہیں وہ جدید وویکانند بتانے لگے۔ لوگ انہیں بھارت کے شہنشاہ کہنے لگے اور ان کے والد کی عمر کے لیڈر ان کے جوتوں کے بند باندھنے لگے۔ نتیجہ کیا ہوا؟ بعد میں انہوں نے خود کے دم پر چناؤلڑا تو کانگریس کی سیٹیں آدھی رہ گئیں۔ صاف بات ہے کہ وزیر اعظم کو بوفورس کی توپیں لے بیٹھیں ۔
اسی طرح گجرات میں بھیجے جانے سے پہلے نریندر مودی کو کون جانتا تھا؟ رکن پارلیمنٹ ہوناتو دور کی بات ہے ‘وہ کبھی ایم ایل اے بھی نہیں رہے ۔گجرات کے وزیر اعلیٰ کیشو بھائی پٹیل کو اچانک ہٹانا پڑا۔ اٹل جی اور اڈوانی جی نے ان کی جگہ نریندر مودی کو ہیلی کاپٹرسے گاندھی نگر لے جاکربٹھا دیا۔ 2002 ء کے گودھرا واقعہ نے انہیں اچانک ہندو دل کا شہنشاہ بنا دیا‘ ورنہ کیا پتہ اپنے پہلے چناؤ میں ہی مودی ڈھیر ہو جاتے اور پھر لوٹ کر پارٹی کے دلی دفتر میں پہلے کی طرح خاموش خدمت کرنے لگتے۔ جیسے راجیو گاندھی اتفاق سے وزیر اعظم بن گئے تھے‘ویسے ہی اتفاق سے نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ بن گئے ۔یہ اتفاق بڑھتا گیااور وہ 2014 ء میں وزیر اعظم بن گئے ۔لال کرشن اڈوانی کے منہ کا نوالا چھین کر مودی کے منہ میں رکھ دیاگیا۔
ملک کے عوام نے مودی کو اس لیے وزیراعظم نہیں بنایاکہ وہ کٹڑ ہندوپنے کی پہچان بن گئے تھے۔ اس لیے بھی نہیں بنایاکہ انہوں نے گجرات میں کوئی دنیاوی کرشمہ کر دکھایا تھا۔ اس لئے بھی نہیں بنایا کہ ان کے پاس خوشحالی کاکوئی حیران کن ماڈل تھا۔ اس کے علاوہ وہ کبھی اپنے سیاسی یا اقتصادی فکر کے لیے بھی نہیں جانے گئے ۔انہیں توعوام نے بہت بعد میں چنا۔انہیں چنائو سے پہلے ہی وزیر اعظم بنا دیا تھا‘سونیا گاندھی اورمن موہن سنگھ نے! من موہن سنگھ بھارت کے ایسے پہلے وزیر اعظم ہیں ‘جنہیں اپنے جانشین کا اندازہ کئی ماہ پہلے ہو گیا تھا۔بھارت کے عوام سست اور بد عنوان حکمرانوں سے اپنی جان چھڑانے کے لیے دبائو ہو گئے تھے۔ اتفاق تھا کہ اس بائولے پن کی خالی جگہ مودی نے بھر دی ۔مودی نے لیڈر ہونے کا شاندار اور کامیاب نمونہ پیش کیا۔ کرسی خالی ہوئی اور وہ اس پر بیٹھ گئے ۔لیڈر بن گئے! اب انہیں کون ہٹا سکتا ہے ؟سنگھ بھی ان کے آگے جھکتی ہے۔ اب لیڈر ہونے کا نمونہ پیش کرنے کی ضرورت کیا ہے ؟اب اداکار ہوناہی کافی ہے۔رنگ منچ پرایک سے ایک ڈائیلاگ بول کر اور رنگ برنگے قیمتی کپڑے پہن کر ہمارے چائے والے بھائی نے ممبئی کے فنکاروں کو بھی مات دے دی ہے ۔
اب پھر نیا اتفاق بن گیا۔ہمارے پیارے فنکار کو اس سے بھی بڑا فنکارمل گیا ۔اروند کجری وال!کجری وال کوئی لیڈر نہیں ہے۔ تحریکی کارکن ہونے کا بھی ان کا کوئی لمبا تجربہ نہیں ہے۔ جس تحریک کے نائب لیڈر تھے‘وہ بھی کیا تحریک تھی ؟نہ اس کا کوئی سرتھانہ پیر !آج تک لوک پال بل کھونٹی پرلٹکاہوا ہے ۔وہ لوک پال کی تحریک نہیں تھی ۔تحریک کے سربراہ گڑ رہ گئے اور چیلا بن گیاشکر!چیلے نے پچھلے سال دلی میں 28سیٹیں جیت لیں لیکن اپوزیشن میں بیٹھ کر تحریک چلانے کے بجائے وہ وزیر اعلیٰ کی پھسل پٹی پر دوڑنے لگا۔49 دن میں اس نے ثابت کر دیاکہ نہ تو اس میں پختگی ہے ‘نہ نظریہ اور نہ ہی کوئی اصول‘جو لیڈر بننے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس چناؤ میں کجری وال کے سبب کجری وال کو دس پندرہ سیٹوں سے زیادہ نہیں مل سکتی تھیں لیکن پھر اتفاق کام آیا۔اچانک مودی کے چھکے چھوٹ گئے۔ جیٹلی کی کیٹلی (کیتلی) میں مودی اور امیت شاہ بند ہو گئے۔کیٹلی میں زبردست بھاپ بن گئی۔ اس کا ڈھکن کھولنے کے لیے
کرن بیدی نام کی سنڈاسی باہر سے منگوائی گئی ۔ڈھکن تو کھلا نہیں‘ کیٹلی پھٹ گئی۔ دلی میں بی جے پی زخمی ہوگئی!مودی کی چائے بکھر گئی۔ اور اروند کی لاٹری کھل گئی !
کجری وال خود حیران تھے کہ 70 میں سے 67 نشستیں کیسے مل گئیں ؟پچھلے سال خوب رگڑے کھائے تو وہ اب منج گئے ہیں۔ نیاز مندی اور نرم رویہ کی صلاح وہ کارکنوں کو دے رہے ہیں۔مودی نے ایسی دبُو صلاح نہ خود مانی اور نہ اپنی پارٹی کو دی۔ اب دلی میں رگڑا کھایاتو ان کی بولتی بندہے۔کتنی جلدی کوئی لیڈر مودی سے من موہن بن جاتا ہے ۔وہ بھول گئے کہ جس عوامی غصے کے چلتے انہیں وزیر اعظم کا عہدہ مل گیا‘ اس کی مہربانی سے اب کجری وال وزیر اعلیٰ بن گئے۔ بد عنوانی کے خلاف عوامی غصے کی رفتار اب بھی جوں کی توں بنی ہوئی ہے۔ مودی نے سوانگ میں نو ماہ بتا دیے۔اگرکجری وال نے مودی کی طرح صرف دو ماہ بھی بتا دیے تواس ملک کو ناامیدی میں غرق کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اب عام آدمی پارٹی کو دلی میں اقتدار اور ملک میں اپوزیشن کا ڈبل کردارنبھانا ہوگا۔ وہ دلی کو ملک کا آئینہ بنا دے اور ملک کو سوتے سے جگا دے۔ اگلے پانچ سال میں اگر وہ دوسرے صوبوں میں اقتدار سے دور رہے اور عوام میں گھل مل گئے تو وہ 68 سال سے چلی آ رہی گندی سیاست کی گندگی کو جڑ سے اکھاڑ سکتی ہے۔ ملک میں صاف سیاست کا آغاز ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں