"DVP" (space) message & send to 7575

مالدیپ : ہماری خارجہ پالیسی اتنی دبو کیوں ؟

مالدیپ کے سابق صدرمحمد نشید کی گرفتاری نے مالدیپ کی سیاست کو پھر گرما دیا ہے ۔نشید اپنے ملک کی خاص اپوزیشن پارٹی مالدیپ ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر بھی ہیں ۔انہیں موجودہ صدر یامین کی سرکارنے اس بنیاد پر گرفتار کر لیا ہے کہ 2012 ء میں ان کے حکم پرایک سینئر جج کو گرفتار کیا گیا تھا‘جسے لے کر مالدیپ میں کہرام مچ گیاتھا۔نشید کی گرفتاری دہشت گردی کے خلاف قانون کے تحت کی گئی ہے ۔یہ عجیب سا ہے ۔نشید اوران کے ترجمان نے بھارت سرکار سے اپیل کی تھی کہ وہ مداخلت کرے اور ان کی گرفتاری کو رکوائے ۔اگر انہیں گرفتار کر لیا جاوے توانہیں مالدیپ میں نہیں ‘بینگلور میں رکھا جائے تاکہ ان کی جان کو خطرہ نہ ہو۔
بھارت کی سرکار نشید کی حفاظت کیوں کرے گی؟وہ تو اتنی ڈر پوک ہے کہ نشیدکی جانشین کابینہ بھارت آئی تھی ‘اس سے ملنے میں بھی اس کے پسینے چھوٹے جا رہے تھے ۔ہماری وزارت خارجہ میں اتنی جرأت بھی نہیں کہ ان کے بات تو سن لیتا۔اسے ڈر ہے کہ مالدیپ کی سرکار ناراض ہو جاتی !کہاں بھارت اور کہاں مالدیپ؟کیا ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو میں بتائوں کہ 1988 ء میں کیا ہوا تھا؟اس وقت راجیو گاندھی کی سرکار تھی ۔سنگاپور کے کچھ شرارتی لوگوں نے اس وقت کے صدر قیوم کا لگ بھگ تختہ پلٹ دیاتھا۔میں 'پی ٹی آئی بھاشا‘کا ایڈیٹر تھا۔یہ خبر جیسے ہی مجھے پی ٹی آئی کے ٹیلی پرنٹر پر ملی ‘میں نے وزیرد فاع کرشن چندر جی پنت کو فون کیا۔وہ اس وقت چین میں تھے ۔وہ فوراً لوٹے ۔میں نے سری لنکا میں امریکن قونصلیٹ ڈاکٹر جیمس اسپین سے بات کی ۔وہ نیویارک میں میرے کلاس فیلورہ چکے تھے۔انہوں نے کہا آپ جو مناسب سمجھیں وہ کریں ‘میری سرکار کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ہم نے قیوم اور فوج کو بچایا۔موجودہ صدریامین انہیں قیوم کے بھائی ہیں ۔وہ کس منہ سے بھارت کی 'مداخلت ‘کی بات کر رہے ہیں ؟
بھارت کو اپنی دبو خارجہ پالیسی کو فوراًترک کرنا چاہئے ۔وزیر خارجہ سشما سوراج جب نومبر 2014 ء میں مالدیپ گئیں تو وہ اپوزیشن کے لیڈروں سے نہیں ملیں ۔کیا انہیں پتا نہیں ہے کہ نشید کے صدارتی دور میںہی مالدیپ سے بھارت کے تعلقات سب سے زیادہ گہرے ہوئے ؟نشید ہی ایک بھارتی کمپنی سے مالے کا نیا ہوائی اڈہ بنوا رہے تھے ۔یامین کی سرکار نے وہ سمجھوتہ رد کر دیا۔وہ ٹھیکہ چین کو دے دیا۔چین کی کاٹ کرنے کیلئے مالدیپ گئیں وزیر خارجہ سشما سوراج کو بھارت سے محبت کرنے والے لیڈروں سے ملنے میں ڈر لگا‘یہ تعجب خیز ہے۔جنوب ایشیاکی بڑی قوت بننے کا خواب دیکھنے والے بھارت نے ایسی دبوخارجہ پالیسی پہلے کبھی نہیں چلائی ۔مجھے یقین ہے کہ جے شنکر جیسالائق خارجہ سیکرٹری کوئی مضبوط پہل کرے گا۔مالدیپ کی سیاست کروٹ لے رہی ہے ۔اقتدارسے اتحادی پارٹی'جمہوری پارٹی‘ہٹ کر نشید سے مل گئی ہے ۔عوامی تحریک زور پکڑ رہی ہے ۔ایسے میں بھارت ہاتھ پر ہاتھ دھرابیٹھا رہے توبعد میں وہ بہت پچھتائے گا۔
نجی ہسپتال یا قتل خانے؟
مراٹھی زبان میں ادھرڈاکٹروں کے بارے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے ۔اس کے سبب تہلکہ مچا ہوا ہے ۔اس کا نام ہے 'کیفیتہ پرمانک ڈاکٹراچی‘یعنی مستند ڈاکٹروں کے بیان!اس رپورٹ میں 78 ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ انہیں مریضوں کو ٹھگنے کیلئے کیسے پابند کیا جاتا ہے ۔ان ڈاکٹروں کے سینئرڈاکٹراور ہسپتالوں کے مالک ‘ڈاکٹروں کو مجبور کرتے ہیںکہ وہ مریضوں کی غلط چکاس(تشخیص) کریں تاکہ عام مرض کو سنگین مرض یا خطرناک بیماری بتا کر مریض کومہنگی سے مہنگی دوائی دی جائے یاپھر اسے ہسپتال کی بھٹی میں جھونک دیا جائے ۔
نجی ڈاکٹروں نے بھی بڑی بڑی دواکی کمپنیوں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کر رکھی ہے ۔وہ ڈاکٹروں کو منہ مانگی کمیشن دیتی ہیں ۔ڈاکٹروں سے کہا جاتا ہے کہ وہ مریضوں کوجو بھی دوا خریدنے کیلئے کہیں گے،اس کی قیمت کا دس یا بیس فیصدپیسہ ڈاکٹر کو ملے گا۔اسی لالچ میں پھنس کرڈاکٹر لوگ مریضوں کومہنگی سے مہنگی دوائی لکھ دیتے ہیں ۔دواکمپنیوں میں ڈاکٹروں کو رشوت کھلانے کی ریس لگی رہتی ہے ۔
نجی ہسپتالوں کے خرچے فائیو سٹار ہوٹلوں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں ۔جو مریض لاکھ دو لاکھ روپیہ کاخرچ نہیں اٹھا سکتے ہیں ‘انہیں بیچ میں ہی ان ہسپتالوں سے بھگا دیا جاتا ہے ۔پھر بھی کئی مڈل کلاس اور نوکری پیشہ لوگ بھی اپنے عزیزوں کی جان بچانے کی خاطران قتل خانوں کے دروازوں پر سر پٹکتے رہتے ہیں ۔مریض کی جان توبچ جاتی ہے لیکن قرض کے بوجھ سے پورے خاندان کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔
کیا وجہ ہے کہ مڈل کلاس طبقہ اور چھوٹے طبقے سے اٹھے ہوئے ڈاکٹربھی نجی ہسپتالوں کی اس لوٹ پاٹ میں شامل ہو جاتے ہیں ؟اس کی خاص وجہ ہے‘میڈیکل کی پڑھائی ۔میڈیکل کالجوں میں بھرتی ہونے کیلئے طالبوں کولاکھوں روپیہ رشوت دینی پڑتی ہے اور پڑھائی کی فیس بھی اناپ شناپ ہوتی ہے ۔اسی لئے ڈاکٹر بننے کے بعدیہ شاگرد اس خرچے کوسود کے ساتھ وصولتے ہیں ۔اسی سبب انہیں نہ تو کوئی جھجک ہوتی ہے اورنہ ہی شرم آتی ہے ۔
تو لوٹ پاٹ کی اس بیماری کا علاج کیا ہے ؟جیساکہ میں نے پہلے بھی سجھایا ہے ‘وزیر اعظم سے لے کر سبھی سرکاری ملازمین کیلئے یہ ضروری کیا جانا چاہئے کہ ان کا علاج عام طور پرسرکاری ہسپتالوں میں ہی ہو۔اس سے ان ہسپتالوں کی حالت بہتر ہوگی ۔لوگ وہاں زیادہ جانا پسند کریں گے ۔دوسرا‘میڈیکل کی پرائیویٹ پڑھائی پر پابندی لگے۔سبھی میڈیکل کالجوں کو سرکاری کیا جائے۔تیسرا‘نجی ہسپتالوں پرسخت قاعدے و قانون نافذ کیے جائیں تاکہ وہ مریضوں سے اندھا دھندوصولی نہ کر سکیں ۔دوا کمپنیوں پرکڑی نگرانی رکھی جائے تاکہ کسی بھی دوا کی قیمت لاگت سے زیادہ سے زیادہ دگنی رکھی جائے اس سے زیادہ نہیں ۔
ٹیریسا : موہن بھگوت غلط نہیں
آر ایس ایس کے سربراہ شری موہن بھگوت کے بیان پر ہمارے کچھ سیکولرسٹ دوست کافی اکھڑ گئے ہیں موہن جی نے ایسا کیاکہہ دیاہے ؟کیا انہوں نے مدر ٹیریسا پر کوئی الزام لگایا ہے ؟کیا ان کے بارے میں کوئی واہیات بات کہی ہے ؟کیا انہوں نے کوئی غلط بیانی کی ہے ؟کیا انہوں نے باتوں کو توڑ امروڑ اہے ؟کیا انہوں نے مدر ٹیریساکے کردارکوخراب کیا ہے ؟انہوں نے توایساکچھ نہیں کیاہے۔انہوں نے صرف ایک بیان دیا ہے‘ جسے میں ایک سو ٹنچ کی چاندی کہہ سکتاہوں یا چوبیس قیراط کا سونا کہہ سکتا ہوں ۔اس میں رتی بھربھی ملاوٹ نہیں ہے ۔اگر مدر ٹیریسا زندہ ہوتیں تو وہ بھی اس بیان سے پوری طرح مطمئن ہوتیں ۔
موہن جی نے یہ تو نہیں کہاکہ مدر ٹیریساخدمت نہیں کرتی تھیں یا ان کی خدمت ڈھونگ تھی۔انہوں نے صر ف یہی کہا کہ ان کی خدمت کے پیچھے خاص مقصد غیر جذباتی یا جذبات میں مبتلا لوگوں کو عیسائی بنانا تھا۔اس میں موہن جی نے غلط کیا کہا ہے ؟کیا وہ لوگوں کو عیسائی بننے کیلئے رضامند نہیں کرتی تھیں ؟وہ اپنی خدمات دینے کیلئے بھارت ہی کیوں آئیں ؟امریکہ کیوں نہیں گئیں ؟وہ یورپ میں پیدا ہوئی تھیں ۔یورپ کے ہی کسی ملک میں کیوں نہیں گئیں ؟ خود ان کا اپنا ملک البانیایورپ کے بیک ورڈ ملکوں میںتھا۔وہ وہیں رہ کرغریبوں کی خدمت کیوں نہیں کر سکتی تھیں؟ان کا ہد ف غریبوں کی خدمت نہیں تھا ۔ان کا ہدف غریبوں کو عیسائی بنانا تھا۔خدمت تو اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کا محض ایک وسیلہ بھر تھا۔یہ الگ بات ہے کہ وہ خدمت دل لگا کرکرتی تھیں ۔
اگر شفاف انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تواس طرح کی خدمت ایک طرح سے روحانی رشوت ہے ۔آپ نے کسی کی خدمت کی یعنی آپ نے اسے اپنی خدمت دی اور بدلے میں اس کا مذہب چھین لیا۔اس سے بُرا ا سودا کیا ہو سکتا ہے ؟میں کہتا ہوں کہ اس سے بڑا خلاف قاعدہ کیا ہو سکتا ہے؟جو مذہب آپ پر لاد دیا گیا ہے‘اس سے بڑی نا انصافی کیا ہے ؟پیسہ یا تلوار کے زور پرجو مذہب کی تبدیلی کی جاتی ہے‘اس سے بڑھ کر گناہ کا کام کیا ہو سکتا ہے ؟جوکہ اس مذہب کی تبدیلی کو اگر عیسیٰ مسیح دیکھ لیتے تواپنا سر ٹھوک لیتے ۔اگر کوئی عیسیٰ کی شخصیت پر فدا ہو جائے ‘ بائبل کی ہدایات سے مطمئن ہو جائے ‘بائبل کے اصولوں سے متاثر ہو جائے اور اسی سبب عیسائی ہو جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے ۔ایسے مذہب کی تبدیلی کی میں مخالفت نہیں کروں گا،لیکن بیرونی پادری بھارت کیوں آتے ہیں ؟صرف اس لیے آتے ہیں کہ یہ اس کے شکار کی محفوظ جگہ ہے ۔
انہیں آپ نوبل انعام دے دیں یا بھارت رتن دے دیں یا دنیاوی رتن دے دیں ‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ کسی بھی اعزاز یا عہدہ سے کوئی جھوٹ ‘سچ نہیں بن جاتا۔سچ کے سامنے سبھی انعامات پھیکے پڑ جاتے ہیں ۔ایک سے ایک نالائق لوگوں کو نوبل انعام اور بھارت رتن انعام ملے ہیں ۔ان انعاموں کو زرہ بکتر بنا کر آپ دن کو رات اوررات کو دن نہیں بنا سکتے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں